Tuesday / Jan 26 2016
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان کے بیشتر مسائل کی اصل وجہ جاگیردارانہ نظام حکومت ہے جسے میں ’’جاگیرداریت‘‘ کہتا ہوں یہ فرسودہ و نا اہل نظام ہمارے جاگیرداروں نے رائج کیا ہوا ہے جس کے تحت ملک بھر میں بدعنوانی اور بدامنی کا راج ہے۔ اس کے نتیجے میں آئین کی شق نمبر 62 بری طرح سے نظر انداز ہو ئی ہے جبکہ آئین کی شق نمبر 62 میں واضح الفاظ میں تحریر ہے کہ صرف اچھے کردار کے مالک ، معاملہ فہم اور ایماندار افراد قومی اسمبلی کے رکن بننے کے اہل ہیں۔ پاکستان کے انتخابی کمیشن پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ امیدواروں کی اچھی طرح چھان بین کے بعد آئین کی شق نمبر 62کی بجا آوری کرتے ہو ئے کاغذات نامزدگی منظور کرے لیکن ہماری سیاسی جماعتوںنے اپنے من پسند اراکین کے ذریعے انتخابی کمیشن کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے او ر ملک کے آئین کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔انتخابی کمیشن پانچ اراکین پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے چار اراکین ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے ہوتے ہیں وہ اس لئے کہ آئین میں انتخابی کمیشن کیلئے اراکین کی تقرری کا کو ئی واضح طریقہ نہیں بیان کیا گیا۔ لہٰذا اس قسم کی’ حمایتی‘ تقرریوں نے آئین کی روح کو پامال کیا ہے جبکہ آئین کی رو سے غیر جانبدار انتخابی عمل سب سے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔انتخابی کمیشن کو ایک غیر جانبدار ادارہ ہو نا چاہئے جو کہ منصفانہ انتخابات کی ضمانت ہواور قومی سیاست سے اوپر ہو ۔ انتخابی کمیشن میں سیاسی پارٹیوں کے نامزد اراکین اپنی متعلقہ پارٹیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اسی لئے پاکستان میں جمہوریت بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔ گزشتہ دور حکومت میں بہت بڑی تعداد میں جعلی ڈگریوں کے حامل سیاسی پارٹیوں کے افراد قومی اسمبلی میں نامزد کئے گئے حتیٰ کہ وفاقی وزیربرائے تعلیم تک جعلی ڈگری کے حامل تھے۔ اب انہوں نے اپنی پارٹی تبدیل کرلی ہے اور ٹی وی چینلزپر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان جعلی ڈگریوں کے حامل پارلیمانی اراکین کی مہربانی سے پارلیمانی رکن کی تقرری کے لئے ڈگری کی ضرورت ہی کو ختم کردیا گیا تاکہ جعلی ڈگریاں بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ کس قدر شرم کا مقام ہے!قومی انتخابی کمیشن درخواست دہندگان کی آئین کی شق نمبر 62 کے تحت مناسب تحقیقات نہیں کرتا کیونکہ کمیشن کے حمایتی اراکین اپنی متعلقہ سیاسی پارٹی کے افراد کو قومی اسمبلی کا رکن بنانے کیلئے ان کے داغدار کردار کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ میں بحیثیت پاکستانی شہری سپریم کورٹ سے اپنے بنیادی حق کامطالبہ کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ملک میں ایسی حکومت چاہئے جو آئین کے تحت منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کے ذر یعے قائم کی جائے جس کیلئے انتخاب کے خواہاں اراکین کے کاغذات کی مناسب تحقیقات کی گئی ہوں ( موجودہ صورتحال میں یہ تحقیقات انتخابی کمیشن نہیں کرسکتا کیونکہ اسکے پانچ میں سے چار اراکین سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ اراکین ہیں لہٰذا یہ غیر جانبدار ادارہ نہیں ہے )۔ کیا عدلیہ میرے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دے سکتی ہے ا ور اس بات کو یقینی بناسکتی ہے کہ انتخابی کمیشن کے اراکین سیاسی جماعتوں کی بجائے اعلیٰ سطح کی عدالتی کونسل کے ذریعے نامزد کئے جائیں تاکہ آئین کو محفوظ کیا جا سکے؟ اس ’’نام نہادجمہوریت‘‘ کے نتیجے میں پاکستان میںگزشتہ کئی دہائیوں سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔اس کے برعکس دیگر ایشیائی ممالک مثلاً کوریا ، تائیوان، ویتنام، بھارت اور اب سری لنکا بھی ترقی کی دوڑ میں آگے نکل گئے ہیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش جو ہم سے معاشی اعتبار سے بہت پیچھے تھا اب تیزی سے ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔اسی وجہ سے غیرسیاسی قوتوں کو بدعنوان حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید اقتصادی بحران کے خاتمے کے لئے بارہا ملکی معاملات میں مداخلت کرنی پڑ ی اورہمیں آمریت کے کئی ادوار سے گزرنا پڑا۔ ایک مفلوج نظام انصاف ہمارے ملک میںرائج ہے جو کہ حکومت سے وابستہ بدعنوانوں کے لئے نہایت موزوں ہے ،کیونکہ وہ ان کو یقین دلاتا ہے کہ تمام بدعنوان کسی بھی قسم کی سزا پائے بغیر آزاد گھومتے رہیں ۔یہی وجہ ہے کہ فوجی عدالتیںقائم کی گئیں جو ہمارے عدالتی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔یہ بات تو اب طے ہے کہ پارلیمانی نظام جمہوریت پاکستان کیلئے موزوںنہیں ۔جس کا اندازہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت پہلے ہی لگا لیا تھا، 10جولائی1947ء کو قائداعظم نے از خود تحریر کردہ نوٹ میں فرمایا ، از اقتباس ’ پارلیمانی قسم کی حکومت کے خطرات (1 پارلیمانی قسم کی حکومت صرف انگلستان ہی میں کامیاب رہی ہے اسکے علاوہ کہیں بھی نہیں (2صدارتی قسم کی حکومت (پاکستان کیلئے زیادہ موزوں ہے) ‘ قائد اعظم کو بہت اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ جاگیردارانہ ذہنیت جس کا غلبہ مغربی پاکستان میں بہت ہے، اپنے ذاتی مفادات کے لئے جمہوریت کا گلا گھونٹ دے گی ۔اور وقت نے قائد اعظم کو درست ثابت کر دیا ، اگر وہ کچھ دن اور حیات پاجاتے تو وہ ضرور آئین کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیتے ۔ میں صدارتی نظام جمہوریت کی تائید کرتا ہوں کیونکہ اس میںٹیکنو کریسی (technocracy)کو رائج کرنے کی گنجائش ہے۔ 1۔صدر عام طریقہء رائے دہی (vote) سے منتخب کیا جانا چاہئے اس کے بعد اسے چیف ایگزیکٹو کا درجہ دیا جائے۔ 2 ۔ صدر کو پھر اپنے اپنے شعبے میں ماہر انہ بصارت کے حامل افراد (technocrats)کو وزراء کی حیثیت سے تعینات کرنا چاہئے او ر ہر وزارت کو ایک طاقتور (think tank) کی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔3۔ایک متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کرانا چاہئے تاکہ پارلیمنٹ کے نمائندوں اور رائے دہندگان میں برابرکا تناسب ہو۔4۔ پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور قومی معاملات کی نگرانی تک محدود کیا جانا چاہئے۔اراکین پارلیمنٹ کو وزراء تقرری کا اہل نہیں قرار دیا جانا چاہئے۔اسطرح وزراء میں بدعنوانی کے امکانات کم ہو جائینگے۔ 5۔صدارتی امیدوار، وزراء ،گورنر اور دیگر اہم سرکاری افسران کے کوائف و اسناد کاباریکی سے جا ئزہ لینے کے لئے سپریم کورٹ کی جانب سے معاشرے کے معزز افراد پر مشتمل ’بزرگوں کی کمیٹی ‘ قائم کی جائے۔ 6۔ تقریباً 80% پارلیمنٹ کے ممبران کو فرسٹ کلاس ماسٹرز کی ڈگری کا حامل ہونا چاہئے۔ (اسلامی جمہوریہ ایران نے تو اپنی کابینہ کے لئے کم از کم100% ماسٹرز کی ڈگری کے حامل ممبران کو اہل قرار دیا ہے) تاکہ وہ قانون سازی کا کام احسن طریقے سے اداکر سکیں۔7۔وفاقی و صوبائی وزراء، انکے سیکرٹری اوردیگر اہم منصبوں پر فائز افسران ، اور تمام سرکاری اداروں کے سر براہان کو اپنے متعلقہ شعبے/ وزارت میں انتہائی تعلیم یافتہ اور ماہر ہو نا ضروری ہے۔ 8 ۔انتخابی اور عدالتی نظام میں کافی گہرائی کے ساتھ اصلاحات کی جانی چاہئیں تاکہ پچھلے تمام دائر کردہ مقدمات کے فیصلے چار مہینے کے عرصے میںجاری کر دئیے جائیں ۔بڑی بدعنوانیوں کے مقدمات کو فوجی عدالت میںپیش کرنا زیادہ مناسب ہوگا ا ور ثابت ہو جانے پر سخت سزائیں سنانی چاہئیں جیسا کہ چین ،کیوبا اور کچھ اور ممالک میںکیا گیا ہے کہ جرم ثابت ہو جانے پرجس میں کچھ پر تشدد اور غیر تشدد جرائم شا مل ہیںسزائے موت کا حکم ہے 9۔ NAB سے استغاثہ سے سودے بازی کےا ختیارات لے لئے جائیں اور قوم کے مجرموں کو مثالی سزائیں لازمی دینی چاہئیں۔ موجودہ رائج نظام میںوزراء اور اداروں کے بعض سربراہان اربوں کھربوں کی ہیرا پھیری کرتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو NABکے ذریعے سودے بازی کرکے نہایت معمولی رقوم کی ادائیگی پر انہیں آزاد چھوڑ دیا جا تا ہے ۔ 10 ۔مسلح افواج ملک کی واحد منظم تنظیم کی نمائندگی کرتی ہے ہمیں چاہئے کہ فوج کو بھی نئے نظام حکومت میں حسب ضابطہ شامل کریں جیسا کہ ترکی نے بڑی کامیابی سے کیا ہے اسطرح نہ مارشل لاء لگے گا نہ ہی سیاسی جماعتیں بد عنوانی سے قومی دولت لوٹ سکیں گی۔ اس وقت پاکستان کو آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے،جو صدارتی نظام تکنیکیت کو فروغ دے اور جاگیرداریت کو نہیں جو کہ آج ہے۔ اسکے علاوہ یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ تمام وزراء انکے سیکرٹریز اور دیگر ادارتی سربراہان اپنے متعلقہ شعبے کے ماہر ہوں ۔ بدعنوانی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں پیش کرکےسخت سزائیں سنائی جائیں۔ اسی طرح پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں