توانائی کے شعبے میں بدعنوانیاں

Tuesday / Dec 22 2015

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا دریائی نظام ہے اور پاکستان میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت کا تخمینہ 46,000 میگا واٹ لگایا گیا ہے جبکہ ہم صرف اسکی 14% پیداواری صلاحیت استعمال کررہے ہیں۔ تقریباً 4500 میگاواٹ بجلی پنجاب کے دریاؤں پر کم لاگت کے پن بجلی گھروں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی وجہ سے شعبہء توانائی ایک برباد صورتحال کا نقشہ پیش کرتا ہے 1984 ء میں پاکستان میں تقریباً 59.3% بجلی ، پن بجلی گھروں سے فراہم کی جاتی تھی۔اس توانائی کے ذریعے میں مزید توسیع کی جانی چاہئے تھی کیونکہ بجلی حاصل کرنے کا یہ سب سے سستا ذریعہ ہے ۔ لیکن بدعنوان رہنماؤں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تیل سے چلنے والے مہنگے پلانٹس لگانے کا فیصلہ کیا۔لہٰذا1990 ء تک پن بجلی کا استعمال گھٹ کر45%تک ہو گیا۔اور مستقل بدعنوانیوں کی بدولت پن بجلی کے استعمال کا تناسب تمام ذرائع توانائی میں اب صرف 29.3% رہ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں تیل کا استعمال بڑھ کر 37.8% اور گیس کا استعمال 30% ہوگیا ہے ۔ بار ہا وسیع پیمانے پر بندوں اور آبی ذخائر کی تعمیر کو ملتوی کیا گیا اور اس کے بدلے میں اکثر متروک تیل کی بنیاد پرچلنے والے بجلی گھر در آمدکر کے لگائے گئے ۔ بجلی اور دیگر ذرائع توانائی کی بڑھتی ہو ئی قیمتوں نے صنعتی شعبے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اور لاکھوں افراد غربت اور بے روزگاری کا شکار ہو گئے۔ پاکستان میں دنیا کے بہت بڑے کوئلے کے ذخائر ہونے کے باوجود ان کو نظر انداز کیا گیا جبکہ بھارت میں توانائی کی 55% اور چین میں 67% ضروریات کوئلے ہی سے پوری کی جا تی ہیں۔ 1994ء میں ایک ایسی توانائی پالیسی متعارف کی گئی جو ایک ناقابل فراموش بدعنوانی کی مثال ہے کیونکہ اسکے ذریعے اربوں ڈا لر کمائے گئے یہ قوم کے خلاف ایک بڑا جرم کیا گیا جب انڈیپنڈنٹ پاورپروڈیوسر(آئی پی پی) کو پاکستان میں توانائی کی تنصیبات لگانے کی اجازت دی گئی۔اس پالیسی کو پاکستان دشمن بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی حمایت حاصل تھی جنہوں نے جلد ہی باآسانی اس منصوبے کے لئے اصل قیمت پر 15% منافع کی شرط پر آئی پی پی کوقرضے فراہم کر دئیے اور آئی پی پی کوکل اخراجات کی واپسی کی ضمانت دی گئی ۔ لہٰذا پست درجہ کارکردگی اور یک طرفہ توانائی پیداوار ی اور متروک بجلی گھر قائم کئے گئے ۔ اسی طرح کرائے پر بجلی گھر دینے کی الگ شرمناک کہانی ہے۔ یہ بدعنوانیاں اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہیں۔ یہ بات قا بل غور ہے کہ بہت سے ماہرین کی رائے میںعالمی بینک نے پاکستان کے توانائی کے شعبے کو غلط سمت لے جانے میں نہایت منفی کردار ا داکیا ہے ۔ اب IMF بھی بہت بڑی مقدار میں پاکستان کو مزید قرضہ فراہم کر کے ہمیں ایک ایسے دلدل میں پھنساتا جا رہا ہے جس سے نکلنے کے لئے ہمیں اپنے جوہری ہتھیاروں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ابھی حال ہی میں مبینہ طور پر ثابت ہواہے کہ نندی پور بجلی پروجیکٹ میں تیزی سے اخراجات میں اضافہ بدعنوانی کی بدولت ہوا ہے، لیکن ابھی بد عنوانی کے شواہد ملنے باقی ہیں ۔ یہ نہایت قابل غور بات ہے کہ پن بجلی کی پیداوار نسبتاً کم لاگت مثلاً 1.18 روپے سے 4.00 روپے فی یونٹ ہے ۔ کوئلے کے ذریعے بھی بجلی کی پیداوار کم لاگت میںہوتی ہے تقریباً (6 روپے سے 7روپے فی یونٹ تک)۔ تاہم تھرمل بجلی گھروں کی پیداواری لاگت 25روپے فی یونٹ تک بھی ہوسکتی ہے اورپیداواری صلاحیت میں کمی آنے کی صورت میں اس کی لاگت 50روپے فی یونٹ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ یہ قوم پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالا گیا ہے ۔آئی پی پیز کے حکومت سے معاہدےکے تحت قومی خزانے کو بری طرح لوٹا گیاہے جو صنعت کی تباہی کا باعث بنا ہے جس سے لاکھوں افراد بے روزگار ہورہے ہیں اور ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے۔ واپڈا WAPDA کو 25سال قبل سرکاری طور پر تھرمل بجلی گھر بنانے سے روک دیا گیا تھا تاکہ بدعنوان لیڈروں کے لئے غیرفعال اور متروک بجلی گھربرآمد کرنے کےلئے دروازے کھل جائیں جن سے انہیں بڑے پیمانے پر مالی فوائد حاصل ہوں ۔ یہ ایسا مجرمانہ عمل تھا جس کے نتیجے میں اگلی کئی دہائیوں تک قوم برباد رہے گی ۔پاکستان میں کوئلے کے ذخائر ایک اندازے کے مطابق تقریباً186 ارب ٹن ہیں ۔ ثا بت شدہ ذخائر 57.9 لاکھ ٹن ہیں جو کہ 180 سال کے لئے کافی ہیں ۔ کوئلے کو استعمال کر کے ہم 50,000 میگاواٹ بجلی اور 100 لاکھ بیرل تیل سالانہ اگلے 500 سالوں تک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تاہم اس بڑی دولت کو مناسب طریقے سے استعمال کرنے کی بجائے ہمارے بد عنوان لیڈروں نے تیل سے چلنے والے بجلی گھروں کو درآمد کرکے اربوں ڈالر غیر ملکی بینکوں میں جمع کرلئے ہیں اور قوم کا خون چوس لیا ہے ۔ آج پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لئے کوئلہ صرف 0.1% استعمال ہو رہا ہے۔ پاکستان میں گیس کے بھی غیر استعمال شدہ بہت بڑے بڑے ذخائر موجود ہیں ۔ کوہاٹ میں واقع ٹال بلاک میں گیس کے ذخائر سوئی کے ذخائر کے برابر ہیں جنہیں فوری طور پر حاصل کرنا چاہئے ۔ اسکے علاوہ توانا ئی کے قابل تجدید ذرائع کی بھی کافی گنجائش ہے۔ مثلاً ہوا ، شمسی، حیاتیاتی ایندھن وغیرہ انہیں بھی فوری استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ 2000ء میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو ہم نے پاکستان کا ہوائی نقشہ (wind map)تیّار کر نے کے لئے ایک پروجیکٹ پر عمل کیا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان محکمہء موسمیات کی جانب سے دو سال کے عرصے میں ملک کی مختلف بلندیوں سے ہوا کی رفتار کی معلومات جمع کی گئیں اور ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوا کہ سند ھ کے ایک حصّے میں خاص طور پر کٹی بندر ، گھارو اور حیدرآباد کے علاقوں میں اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کی ہواؤں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ 50,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتی ہیں ، ۔ ہمیں ایسے بجلی گھر تعمیر کرنے چاہئیں جہاں ہوائی چکّیاں بھی لگائی جا سکیں جیسا کہ بھارت اور چین میں کیا گیا ہے ۔اور یہ ہوائی چکّیاں ہم خود تیّا ر کریں تاکہ اس صلاحیت سے بھر پور طریقے سے مستفید ہو سکیں۔ ایٹمی توانائی پلانٹ بھی ایک بہترین حل ہے حالانکہ ان کی تعمیر کے لئے غیر ملکی مخالفت کا سامنا ہے ۔ عالمی سطح پر توانائی کے میدان میں کافی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ اوّل یہ کہ تیل ، شیل تیل اور دیگر توانائی سے متعلق دریافتوں کی بدولت تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ کاروں کے لئے اس کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا گھاٹے کا سودا بن گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ شمسی خلیوں کی ٹیکنالوجی میں بھی کا فی تیزی سے ترقی ہوئی ہے جس کی بدولت شمسی تنصیبات کی قیمتیں آج سے تین سال پہلے کی قیمتوں کے مقابلے میں تقریباً نصف ہوگئی ہیں۔تیسرے یہ کہ متبادل ذرائع توانائی کی دریافتیں مثلاً بہتر ہوائی چکّیاں ، حیاتیاتی ایندھن کا استعمال ، پانی کے سالمے میں سے ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کرنا جو کہ کئی دہائیوں کی انتھک تحقیق کے بعد ممکن ہو تا جا رہا ہے۔ پاکستان کو بھی ان نئی دریا فتوں سے ہم آہنگ رہنا چاہئے تاکہ ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے قدم ملا کر چل سکیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک علم پر مبنی معیشت قائم کرنی ہوگی جس کا ذکر وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی جناب احسن اقبال بار بار کرتے ہیں اور ہماری حکومت کو چاہئے کہ تعلیم اور سائنس کے لئے مناسب رقم فراہم کرے۔ یہ GDP کا کم از کم 7%اور 2% ہونا چاہئے۔اگر ہم پائیدار ترقی چاہتے ہیں تو یہ اشد ضروری ہے کہ پاکستان میں سائنس ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کے نفاذ کے لئے تحقیق اور باقاعدہ دور اندیش مشقوں کی مدد سے مختصر اور طویل مدّتی مقاصد طے کئے جائیں۔ علم پر مبنی معیشت کے قیام کے لئے تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے (بشمول جامعات)، نجی صنعت اور حکومتی پالیسی۔ علم پر مبنی معیشت کی ترقی کے لئے تحقیق، ایجاد ، جدّت طرازی اور اقتصادی ترقی میں آپس میں متحرک عوامل اور تانے بانے کو سمجھنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے ۔گز شتہ دہائی میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی (جس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن بھی شامل تھے) تھا، پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں شاندار ترقی کی ۔اس کا اندازہ طلباء کی تعداد ِ اندراج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ 2002ء میں 276,000 طلباء نے جامعات میں داخلے لئے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد بڑھ کر 13 لاکھ ہوگئی ۔ 2003ء میں 71 جامعات اور ڈگری جاری کرنے والے ادارے تھے جو کہ 2013ء میں بڑھ کر 157ہوگئے۔ 1947ء سے 2002ء کے دوران پی ایچ ڈی حاصل کر نے والوں کی کل تعداد 3,281 تھی جب کہ2003ء سے 2010 ء کے قلیل عرصے میں کل 6,000 طلباء نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔بین الاقوامی تحقیقی اشاعت 2000ء میں صرف 600 سالانہ تھی جو 2013ء میں بڑھ کر 9,000 تحقیقی اشاعت تک پہنچ گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کی سطح پر تربیت کے لئے غیر ملکی وظیفہ پروگرام شروع کئے گئے، خلاء میں تعلیمی مصنوعی سیارہ بھیجا گیا، اساتذہ کی تنخواہوں میں ایک نئے عارضی تقرری نظام ، ٹینیور ٹریک کے ذریعے پانچ گنا اضافہ کیا گیا۔ ڈیجیٹل لائبریری قائم کی تاکہ تمام سرکاری جامعات کے ہر طالب علم کو 25,000 بین الاقوامی جرائد، اور60,000 درسی کتب تک کی مفت رسائی ممکن ہو سکے ۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں تحقیقی اشاعت کی تعداد بھارت کی فی دس لاکھ آبادی کے لحاظ سے مساوی ہو گئی ہے جو کہ اس تابناک ترقی کی روشن مثال ہے ۔ رائل سوسائٹی نے اپنی ایک کتاب بعنوان ’ایک نیا سنہرا دور ("A New Golden Age ")‘ میں گزشتہ دہائی میں پاکستان میں ترقی کو خراج تحسین پیش کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ یہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک مثال ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا سارا زور تعلیم اور تحقیق پر لگا دیں تاکہ پاکستان عزّت کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں