جدّت طرازی اور پاکستان کا مستقبل

Monday / Dec 07 2015

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

علم پر مبنی دنیا میں وہی ممالک ترقی کر سکتے ہیں جو اپنی اصل دولت یعنی اپنے ملک کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ۔جو ایسا نہیں کر رہے وہ غربت کا شکار ہیں اور وہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ادھار لینے پر مجبور ہیں۔ان کی نظریں ہمیشہ ان اداروں سے قْرض کیلئے اٹھی رہیں گی افسوس کہ ان میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ اگر ہما رے ملک کے لیڈروں سے سوال کیا جائے کہ ہمارا ملک قرض میں کیسے ڈوب گیا تو ان کا جواب یہی ہوگا کہ یہ خام خیالی ہے ایساکچھ نہیں ہے جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے اور وہ دن بڑی تیزی سے قریب آرہا ہے جب ہم خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاینگے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ ہماری حکومت ان آنیوالے خطروں کو نظر انداز کرتے ہوئے مزید قرضے لینے میں مصروف ہے حتیٰ کہ گزشتہ قرضوں کو ادا کرنے کیلئے بھی مزید قرضے لئے جارہے ہیں ۔گزشتہ دہائی میں کل50ارب ڈالر کے قرضے لئے گئے لیکن ان سے کیا حاصل کیا، سوائے اسکے کہ صنعتی پیداوار میں کمی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی ،غربت میں اضافہ، صحت و خواندگی کی سطح میں کمی وغیرہ۔ ابھی گزشتہ دنوں میں نے ویانا، آسٹریا میں عالمی سائنس اکیڈمی کی 26ویں جنرل کانفرنس میں شرکت کی ، عالمی سائنس اکیڈمی نے میرے نام سے منسوب تیسری دنیا کے قابل نو جوان سائنسدانوں کیلئے ایک انعام مقرر کیا ہے جو ہر سال کسی ایک کیمیا کے میدان میں سب سے اہل نوجوان سائنسدان کو دیا جاتا ہے اور اکیڈمی کی کانفرنس میں اس انعام یافتہ سائنسدان کا لیکچر بھی منعقد کیا جاتا ہے ۔اس سال ’ڈاکٹر عطاء الرّحمٰن انعام برائے کیمیا‘ کاا نعام ویانا میں ازبکستان کے سائنسدان کو ملا۔اس کانفرنس کا افتتاح آسٹریا کے صدر ہائینز فشر نے کیا اور افتتاحی تقریر میں آسٹریا کے ایک اہم قومی پالیسی فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ انہوں نے اپنے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ڈاکٹر رینھولڈ مٹرلیہنر کو آسٹریا کا نائب وزیر اعظم بنایاہے تاکہ سیاسی طور پر انہیں وہ اہم مقام مہیّا ہو جو کہ سائنس و ٹیکنالوجی پروگراموںکو بروئے کار لانے میں مدد گار ثابت ہو سکے اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کو وفاقی وزیر خزانہ بھی مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ ملکی سطح پر سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے اعلیٰ ترجیحی بنیادوں پر مالیاتی حصّہ تفویض کر سکیں۔ یعنی آسٹریا کے سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر نائب وزیرا عظم بھی ہیں اور وزیر خزانہ و معیشت بھی ۔ بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ طاقتور پالیسی جنوبی کوریا نے نافذکی ہے۔ جنوبی کوریا کے حکومتی نظام میں تین نائب وزراء اعظم مقرر کئے گئے ہیں وہ ہیں وزیر خزانہ و معیشت ، وزیر تعلیم و ترقی انسانی وسائل، اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ۔ اس نظام کی بدولت تعلیم ، سائنس اور معیشت کو قومی منصوبوں میںاعلیٰ ترین مقام مل گیا ہے۔اس نظام کے نہایت مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ، جنوبی کوریا نے نہایت برق رفتاری سے ترقی کی ہے اورایک طاقتور ملک بن کر سامنے آیا ہے ۔لہٰذا پاکستان کو بھی آسٹریا اور کوریا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ہی وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی اور تعلیم مقررکرنا چاہئے جو کہ وفاقی وزیر برائے خزانہ اور معاشی امور بھی ہو اور اسکا درجہ نائب وزیر اعظم کے برابر ہو۔ صرف اسی طرح پاکستان مضبوط علمی معیشت کی جانب گامزن ہو سکتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے صدر پرناب مکھرجی نے اپنی سرکاری رہائش گاہ ر اشتراپتی بھون میں ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس میں 114مرکزی اداروں کے سربراہان، جن میںآ ئی آئی ٹی کے سربرا ہ کو بھی مدعوکیا گیا تھا۔ اپنی افتتاحی تقریر میں صدر مکھرجی نے جس عنصر پر زور دیا وہ عالمی معیار کی جامعات کا قیام تھا جس کے بغیر بھارت عالمی طاقت نہیں بن سکتا ۔ بھارتی صدر نے مزید کہا کہ’ جدّت طرازی مستقبل کی کرنسی ہے، اور جامعات اسکا دل ہیں۔ دراصل جدت طرازی ،تحقیق کو سرمائے میں منتقل کرتی ہے ہمیںاس حقیقت کو تسلیم کر تے ہوئے جدّت طرازی کی جانب قدم بڑھانے ہونگے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم جدّت طرازی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے ۔ گزشتہ صدی میں زمین ، مزدور اور قدرتی وسائل ملکی ترقی کے ضامن تصور کئے جاتے تھے اب وہ دور چلا گیا اب معیاری تعلیم یافتہ انسانی قوّت ہی سماجی و اقتصادی ترقی کا سب سے اہم عنصر ہے ، اور اسکا دل ہمارے ملک کے نوجوان ہیں،لہٰذا یہ نہایت ضروری ہے کہ اوائل عمری ہی سے اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے اور پھر ان کو صنعتی جدّت طرازی کے بھرپور مواقع دئیے جائیں۔جدّت طرازی کو نئی مصنوعات میں تخلیق دینے کیلئے دوسرا اہم عنصر تعاون ہے یہ تعاون مختلف متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے درمیا ن ہونا چاہئے تاکہ ایک خیال کی تخلیق مختلف مراحل سے گزر کر تجارتی بنیادوں پر آسانی سے دستیاب ہو سکے۔ تیسرا اہم عنصر ہے جدید علمیات تک رسائی۔ اسکے لئے نہایت ضروری ہے کہ کسی بھی شعبے کے متعلق تازہ ترین معلومات سے آگاہی ہونا، نئی مصنوعات کو پہچاننے کی صلاحیت ہونا، اور اس ماحول سے مانوس ہونا جس میں مصنوعات مختلف مراحل سے گزر کرکار آمد صورت اختیار کرسکیں ، اس کیلئے اعلیٰ ترین افرادی قوت موجود ہو نی چاہئے جن میں جدید معلومات کو جذب کرنے اور استعمال کرنے کی صلاحیت ہو کیونکہ ان معلومات کو آگے بڑھانا بھی نہایت ضروری ہے۔ چوتھا اور آخری اہم عنصر ذہنی املاک ہے اس کا اطلاق بھی نہایت ضروری ہے تا کہ جن لوگوں نے ایجادات کی ہیں انکو مناسب معاوضہ مل سکے ۔ ملکی ترقی کے ابتدائی مراحل میں معکوس انجینئرنگ بھی شامل ہوتی ہے ۔ عالمگیریت کے عمل کی بدولت ہمیں نہ صرف نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ خاص طور پر’ تخلیقی صنعتوں‘ کے لئے نئے مواقع بھی میسر آرہے ہیں۔مثال کے طور پر ان’ تخلیقی صنعتوں‘ میںآئی ٹی، سافٹ وئیر، اشاعت ، میڈیا، کمپیوٹر خدمات، دستکاری ، فلم، ٹی وی ، ریڈیو فوٹو گرافی ، مارکیٹنگ، موسیقی، فن تعمیر ، ڈیزائن (مصنوعات ، گرافک اور فیشن ڈیزائن) شامل ہیں۔ گزشتہ صدی میں عالمگیریت صرف بر اعظموں کے درمیان بحری راستوں کے ذریعے تجارت تک محدود تھی ۔ پھر گزشتہ پچاس سالوں میں ہم نے عالمگیریت کے ایک اور عہد کا مشاہدہ کیا اس میں ملکی کمپنیوں کا غیر ملکوںمیں صنعتیں قائم کرنا تھا۔اس کی ابتداء جاپان نے1960 میں کی جب اس نے اپنے بہت سے صنعتی کارخانے کوریا اور تھائی لینڈ میں قائم کئے۔گزشتہ چار دہائیوں میں وسیع پیمانے پر مصنوعات کی ان بنیادوںپرصنعتیں قائم ہوئیںاس میں بہت بڑی تعداد میں مغربی ممالک نے چین میں مختلف صنعتیں قائم کیں ۔ اب عالمگیریت کا اگلا دور جس کا ہم مشاہدہ کریں گے وہ اعلیٰ ترین ماہرین کی تحقیق پر مشتمل ہوگا جس میں سب سے بہترین محققوںکو فوقیت دی جائے گی یعنی ٰاس قسم کی عالمگیریت میں صورتحال یہ ہو گی کہ دریافتیں اور نئے نئے خیالات کسی ملک میںجنم لیں گے اور ان پر عمل کہیں اور ہوگا۔ اسکی ایک مثال IT کے میدان میں وہ لاکھوں ایسی (Applications) ہیں جو ہندوستان اور پاکستان میں بنائی جا رہی ہیں اور دنیا بھر میں فروخت ہو رہی ہیں ۔ اس وقت ہم شعبہء تعلیم میں بڑے پیمانے پر جدت طرازی کی طرف گامزن ہیں اس میں ہم ’ بند ڈبے‘ کی سوچ سے باہر نکل کر’کھلے غول کی بھیڑ ‘ کی جانب رواں دواں ہیں ۔ اب تعلیم مقررہ وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہے اورمجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پاکستان اعلیٰ تعلیمی شعبے میں اس جدت میں لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ اسطرح ممکن ہوا کہ میں نے طلباء تک اعلیٰ و معیاری تعلیم پہنچانے کے لئے دو انقلابی اقدام اٹھائے جن کا مقصد ہر قسم کی تعلیم کو ان کے گھروں تک پہنچا نا تھا ۔ پہلا قد م بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم میں وسیع پیمانے پر تمام آن لا ئن کورسز کو ایک مرکز پر یکجا کرکے اس مجموعے کی ویب سائٹ کا اجراء کرنا۔اس ویب سائٹ میں ایم آئی ٹی، ہارورڈ ،اسٹینفورڈ اور خان اکیڈمی وغیرہ کے کور سز تمام طلباء کے لئے مفت میں دستیاب ہیں اس ویب سائٹ کا پتہ ہے www.lej4learning.com.pk ۔ دوسرا اہم قدم براہ راست دنیا کے کسی بھی کونے سے معروف اور ماہر اساتذہ کے کورسزکا پاکستانی جامعات میںانعقاد کرنا ۔جب میں چیئر مین ایچ ای سی تھا تو ایچ ای سی نے ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت کا ساری حکومتی جامعات میں آغازکیا جس سے مغرب کے اچھے پروفیسرپاکستان کی جامعات میں لیکچر دیتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 4,000 لیکچرز ویڈیو کافرنسنگ کے ذریعے منعقد کئے جا چکے ہیں۔ اور حال ہی میں چینی زبان کے کورسز ویڈیو کانفرنسنگ اور ویبینار کے ذریعے کرائے جارہے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں یہ بہت بڑا انقلاب برپا ہو رہا ہے ۔نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں میں وہ بصارت اور وہ نظریاتی سوچ نہیںہے جیسی جنوبی کوریا ، آسٹریا، سنگاپوراور چین کے لیڈران کی ہے جس نے ان ممالک کو 21 ویں صد ی میں داخل کر دیا ہے۔ اور اب اسی نقطہ نظر پر بھارت بھی خود کو منتقل کر رہا ہے اور 21 ویں صد ی کی جانب قدم بڑھا رہاہے ۔ہمیں بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ معاشی بدحالی کی گہری کھائی سے ہمارا نکلنا دشوار ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں