نینو ٹیکنالوجی

Thursday / Nov 26 2015

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

نینو ٹیکنالوجی (nanotechnology)کیا ہے ؟ یہ سائنس کی وہ صنف ہے جس میں مادّوں کو نہایت چھوٹی جسامت میں استعمال کیا جاتا ہے۔اتنی کم جسامت کہ ایک میٹر کاایک ارب حصّہ جسے نینومیٹر کہتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ آپ کا ایک با ل 80,000 نینومیٹر کے برابر ہے اور یہاں ہم ذکر کررہے ہیں ان مادّوں کا جو آپ کے ایک بال سے بھی دس ہزار گنا زیادہ چھوٹے ہیں۔ جب مادّوں کو اس حد تک چھوٹاکیا جاتا ہے تو ان کی خصوصیات میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو کہ نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختلف نئی صنعتی مصنوعات کی تخلیق کا سبب بنتی ہیں۔ ان کا استعمال مختلف شعبوں مثلاً سطحی سائنس ، نامیاتی کیمیا، سالماتی حیاتیا ت ، نیم موصل طبعیات، ننھی ساخت اور دیگر شعبوں میں بخوبی ہو رہاہے۔ اس کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی اس کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے مثلاً طب ، انجینئرنگ، برقیات، توانائی ، نئے مادّے برائے آب تنقیہ ، صنعتوں میں بطور حملان بھی نینوٹیکنالوجی کا استعمال بہت مفید ثابت ہوا ہے ۔ مختلف شعبوں میں نئی نینو مصنوعات کی تخلیق کے لئے اربوں ڈالروں کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے تاکہ ان کے مزید نئے استعمال، نئی خصوصیات اور بہتر کارکردگی سامنے آئے، نینوٹیکنالوجی کا شعبہ دو ابتدائی دریافتوں کی وجہ سے پروان چڑھا 1981ء میں پہلا scanning tunneling microscope دریافت ہوا جس کے ذریعے جوہر (atoms)اور ان کے جوڑوں (bonds) کو دیکھا جا سکتا تھا۔ ایک اور دلچسپ دریافت 1985 میں ہوئی جس میں فٹبال کی طرح کے کاربن کے سالمے جنہیں (buckyballs)کا نام دیا گیا دریافت کئے گئے اور اس کام کے لئے ہیری کروٹو، رچرٖ ڈ اسمالے اور رابرٹ کرل کو 1996ء میںکیمیا میںنوبل انعام سے نوازا گیا۔ انہی دریافتوں کے فوراً بعد کاربن نینو ٹیوبز (carbon nanotubes) دریافت ہوئیں،جن کے نئے مادّو ں کی تیّاری میں اور برقی آلات میں وسیع استعمال سامنے آئے۔ شعبہ نینو ٹیکنالوجی کی افادیت کا اندازہ اس سے کریں کہ حال ہی میں یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ شعبہء نینوٹیکنالو جی سے متعلق تقریباً دو ہزار سے زائد مصنوعات آج بازار میں موجود ہیں ۔ جن میں شمسی شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی کریمیں ، حسن و آرائش کا سامان، سطحوں کے رنگ و روغن ، غذائی اشیاء، چپکنے والے ٹیپ، غذائی اشیاء کی پیکنگ میں استعمال ہونے والی چاندی ، لباس ختم مواد، جراثیم کش ادویات، اور گھریلو استعمال کا سامان، کرسی میز وغیرہ کا روغن ، دواسازی، برقی حسّا س آلات، ایندھن حملان، یہاں تک کہ نینو سیلیولوز) پر مشتمل گولی تارک کاغذ ایسا کاغذ جو بندوق کی گولیوں کو گزرنے نہیں دیتا تیّا ر کیا جاچکا ہے۔ لباسوں کی تیّا ری کے لئے بھی اس شعبے کو استعمال کیا جا رہا ہے تا کہ زیا دہ مضبوط اور پائیدار کپڑا تیار کیا جا سکے جس میںگرمیوں کی مناسبت سے ٹھنڈک بھی ہو۔ ٹینس کی گیندوں کو پائیدار بنانے کے لئے اس کی بیرونی سطح پر ایک مخصوص نینو مادّے کی تہہ چڑھائی جا تی ہے۔جراحی کے آلات اور دیگر دھاتوں کو بھی نینو مادّے کی تہہ کے ذریعے مزید مضبوط کیا جاتا ہے ۔ ویڈیو گیمز کے بیرونی ڈھانچے اور موٹر گاڑیوں کی بیرونی سطحوں پر بھی نینو مادّوں کی تہہ چڑھائی جاتی ہے تاکہ انہیں خراشوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ ریشہ انجینئرنگ کے شعبے میں بھی نینوٹیکنالوجی بہت مفید ثابت ہو رہی ہے ۔ بلکہ صنعتی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ریشہ انجینئرنگ کے شعبے میں نینوٹیکنالوجی سے وابستہ ہزاروں دریافتیں ہو رہی ہیں اور ہر نئے دن ایک نئی دریافت ہو رہی ہے۔ بحیثیت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ، میں نے پاکستان میں پہلی بار نینو ٹیکنالوجی کے شعبے کو متعارف کرایا۔ قومی کمیشن برائے نینو سائنس و ٹیکنالوجی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور پروفیسر این ۔ ایم ۔ بٹ کو اس کا چیئر مین مقرر کیا گیا ۔ اکتوبر 2002ء میں میرے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو خیر باد کہنے کے بعد جب میں نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تب بھی میں نینوٹیکنالوجی پروگراموں کے لئے فنڈز جاری رکھنے میں کوشاں رہا لیکن کچھ ہی سالوں میں یہ افسوسناک صورت حال پیدا ہوئی کہ وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ رک گیا، بجٹ اور پروگراموں کی مسلسل کمی کے باعث وزارت سائنس و ٹیکنالوجی زوال پزیر ہوتی گئی۔آج اس ادارے کا ترقیاتی بجٹ صرف ایک ارب روپے رہ گیا ہے جوکہ 2002 ء کے ترقیاتی بجٹ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ 2003ء سے 2008 ء کے دوران جب میں ایچ ای سی کا چیئرمین تھا تو میں نے نینو ٹیکنالوجی کے شعبے کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے تین جامعات اور دو تحقیقی اداروں میں 80 کروڑروپوں کی لاگت کے بہت سے پروجیکٹس منظور کئے مگر یہ سلسلہ بھی 2008 ء میں میرے ایچ ای سی کے چیئر مین کی حیثیت سے استعفیٰ دینے کے بعد رک گیا اور ساتھ ہی پروفیسر این ایم بٹ نے بھی چیئر مین نینو ٹیکنالوجی کمیشن کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ البتہ جو بیج ہم نے اس وقت بویاتھا اس محنت کے طفیل نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں نسٹ ، کامسیٹس ، ایچ ای جے تحقیقی ادارہ برائے کیمیا ، جامعہ کراچی ، پریسٹن جامعہ اور دیگر بہت سی لیبارٹریوں میں بین الاقوامی درجے کی تحقیق ہو رہی ہے اور اس کے تحت بہت سےتحقیقی مقالے بین الاقوامی شہرت یافتہ تحقیقی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں ۔ 2003ء سے 2008 ء میں ایچ ای سی نے بہت سے طلباء کو اس شعبے میں تعلیم کے لئے بیرون ممالک بھیجا تھا جو کہ اس اہم شعبے میںاپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آگئے ہیں اور ملک کی خد مت کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی کئی جامعات میں مادّی سائنس کے میدان میں کورسز منعقد ہو رہے ہیں جن میں نینو ٹیکنالوجی بھی شامل ہے اور جو طلباء اس شعبے سے مستفید ہو کر ڈگری حا صل کر رہے ہیں ان کے لئے تعلیم اور صنعت دونوںشعبوں میں اپنے جوہر دکھانے کے بیش بہا مواقع ہیں ۔ قومی نینو ٹیکنالو جی کا ایک بہت اہم مرکز بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنس، جامعہ کراچی میں زیر تعمیر ہے جو انشاء اللہ اگلے سال کے اوائل ہی میں کا م شروع کردیگا ۔ آئی سی سی بی ایس دنیا کے مشہور ادارے ایچ ای جے تحقیقی ادارہ برائے کیمیا اور دوسرے اعلیٰ پائے کے ادارے ڈاکٹر پنجوانی مرکز برائے سالماتی ادویات و ادویاتی تحقیق لطیف ابراہیم جمال قومی سائنسی معلوماتی مرکز اور حال ہی میں قائم کردہ جمیل الرّحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق ، جیسے اعلیٰ کار کردگی مراکز پر مشتمل ہے۔ جمیل الرّحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق ، میرے والد کے نام پرمنسوب ہے اور اس کی تعمیر کے لئے میں نے ذاتی عطیہ دیا ہے ، حال ہی میں 800 MHz کا جوہری مقناطیسی گونج اسپیکٹرومیٹر جس کی مالیت 20کروڑ روپے ہے نصب کیا جارہا ہے تاکہ ساختی حیاتیات کے شعبے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جاسکے۔ آئی سی سی بی ایس کو حال ہی میں علاقائی یونیسکو مرکزکا اعزاز حاصل ہو اہے یہ پاکستان کے لئے بڑے فخر کی بات ہے کیونکہ اس شعبے میں اس خطے کا یہ واحد ادارہ ہے جس کو یہ اعزاز ملا ہے ۔ اس وقت آئی سی سی بی ایس میں نہایت اعلیٰ اور جدید ترین آلات نصب ہیں جن میں بارہ سپر کنڈکٹنگ جوہری مقناطیسی گونج اسپیکٹرومیٹر ،اور پندرہ ماس اسپیکٹرومیٹر شامل ہیں جو اس ادارے کو جڑی بوٹیوں پر تحقیق اور نینوٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا سب سے طاقتور اور مضبوط تحقیقی اداروں میں سے ایک بناتے ہیں۔وہ بھی ایسے ملک میں جہاں سائنس کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور دیگر رکاوٹوں کے باوجود یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا بین الاقوامی مرکز ابھرکر سامنے آیا ہے۔ یہ صرف اس ادارے کے سائنسدانوں کی ہمت اور سخت محنت کا نتیجہ ہے ۔آئی سی سی بی ایس میں عزیز جمال صاحب ولد معزز لطیف ابراہیم جمال صاحب کے عطیے سے تعمیر ہونے والاقومی نینوٹیکنالوجی مرکز ایک اہم کارنامہ ہے ۔ جو سیالکوٹ کی سامان جراحی کی صنعتوں اور کھیلوں کے سامان کی صنعتوں کے لئے اور دیگر میدانوں میں انشاء اللہ نہایت مفید ثابت ہوگا۔ اس علم پر مبنی دنیا میں پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی پر بھرپور طریقے سے سرمایہ کاری کرے تاکہ ہم ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم کر سکیں ۔ وہ سنگ میل جس پر چل کر ہم یہ سب حاصل کر سکتے ہیں وہ 320صفحاتی دستاویز بعنوان ـ’ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ٹیکنالوجی پر مبنی صنعتی زاویہ اور حکمت عملی میری سرپرستی میں 2005میں تیّار کیا گیا تھا جسے کابینہ نے اگست 2007 ء میں منظور کیاتھا ۔ موجودہ حکومت کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ جناب احسن اقبال صاحب کا بھر پور ساتھ دیں اور ان کو مناسب رقم فراہم کریں یہ ان کے تیّار کردہ (Vision 2025) سے پوری طرح ہم آہنگ ہے تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جا سکے۔ صرف اسی طرح پاکستان سائنس و ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری میں دنیا کا لیڈر بن سکتا ہے جیسا کہ کوریا اور سنگا پور بن گئے ہیں ۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں