Monday / Oct 26 2015
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
دور حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کےاہم عناصر ہیں۔ دنیادو اقسام کے ممالک میں بٹ گئی ہے ۔ ایک وہ ممالک ہیں جومعیاری تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور جدّت طرازی کے فروغ کیلئے مؤثر اقدامات کررہے ہیں اور دوسرے وہ غریب ممالک ہیں جونچلے درجے کی برآمدات پر بھروسہ کر رہے ہیں اور ان کی اقتصادیات کا انحصار بھی کم درجے کی زرعی بر آمدات پر ہے ۔ پاکستان کا شمار ان دوسرے قسم کے ممالک میں ہوتا ہے ۔ اگر ہم کاروبار میں اضافہ اور جدّت طرازی چاہتے ہیں تو ہمیں جدید ٹیکنا لوجی اپنانا ہو گی۔ اس کیلئے یا توہم خود ٹیکنالوجی کو فروغ دیں یا پھر باہر سے ٹیکنالوجی منتقل کریں۔بھارت میں ان دونوں طریقوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔ بھارت کا حالیہ فیصلہ کہ وہ نئے طیاّرے مغربی ممالک سے خریدنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر خود بنائے گا،مہاتما گاندھی کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جن کی بنائی گئی خود انحصاری کی پالیسی پر بھارت کی حکومتیں عمل کرتی چلی آرہی ہیں۔بھارت کی سب سے بڑی گاڑیاں بنانے کی کمپنی، 1945ء میں قائم ہوئی اس نے جدید ٹیکنالوجی اپنانے کا فیصلہ کیااور اسکی پہلی گاڑی 1954ء میں تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہوئی جو کہ جرمنی کی ایک بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنی کے اشتراک سے وجود میں آئی ۔ 2008ء میں اس نے دنیا کی سب سے سستی ترین گاڑی بناکر دنیا کو حیران کر دیاجس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے تھی ۔پاکستان میں اس طرح جدید اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات سازی کے شعبے کی جانب ایسی بصارت ، ایسا لائحہ عمل کہیں نظر نہیں آتا ۔اسکی اہم وجہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے نااہل حکومتیں قائم ہوئیں جنہوں نے کبھی بھی علم پر مبنی معیشت کی اہمیت اور اس کے دورس نتائج کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اگر ہم دنیا کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو آسان راستہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ہے۔ ٹیکنالوجی کی منتقلی کیلئے ہمیں نہایت اعلیٰ ہنر مند صلاحیتوں کے حامل کارکنوں کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ایسے افراد نہیں فراہم کرسکتا کیونکہ یہاں ایک ہزار سے زائد تکنیکی تربیت کے مرا کز موجود ہونے کے باوجود انکا معیار نہایت پست ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ان مراکز کو بین الاقوامی اداروں سے منسلک کروائیں تاکہ انکا معیار بھی عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو سکے ۔ ٹیکنالوجی منتقلی سے زیادہ مشکل اور محنت طلب کام نئی ٹیکنالوجی کی دریافت ہے۔ اس کیلئے اعلیٰ و معیاری جامعات کی تشکیل، تحقیق و ترقی کے اداروں کا قیام ، ٹیکنالوجی پارکو ں کا قیام اور ان کے ذریعے نئے نظریات کومصنوعات میں منتقل کرنے میں حکومتی معاونت، کاروبار کو پنپنے کیلئے مالی ادارے ، نئے کاروبار کیلئے مالی معاونت اور تحقیق و ترقی کے نجی شعبوں کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ پاکستان میں ندارد ہے۔ بھارت کا سائنسی ترقیاتی بجٹ 200 ارب روپے ہے ۔ آپ کویقین نہیں آئیگا کہ پاکستان کا سائنسی ترقیا تی بجٹ اب صرف ایک ارب روپے رہ گیا ہے ( 2002ء میں جس وقت میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا یہ بجٹ 6ارب روپے تھا، جسے کم کر دیا گیا ہے ) ۔ صنعتی اعتبار سے جدّت طرازی اور ٹیکنالوجی میں ترقی انفرادی طور پر کمپنیوں کی سطح پر اور قومی پالیسی کی سطح دونوں پر اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ انفرادی کمپنیوں کی سطح پر یہ نہایت ضروری ہے کہ اعلیٰ تربیت یافتہ تکنیکی ماہرین اور انجنیئرموجود ہوں جو کہ صنعتوں میں استعمال ہونے والی جدید مشینری کو استعمال اور برقرار رکھنے میں مہارت کے حامل ہوں ۔قومی پالیسی کی سطح پر ٹیکنالوجی کے میدان میں مقامی ترقی کے حصول کیلئے ٹیکنالوجی کی منتقلی کو غیر ملکی براہِ ر است سرمایہ کاری سے منسلک کیاجانا ضروری ہے کیونکہ کسی بھی پروجیکٹ کی منظوری کیلئے پلاننگ ڈویژن کی یہ اہم شرط ہونی چاہئے ۔ بھارت نے یہ کئی دہائیوں پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ غیر ممالک سے آنکھیں بند کر کے ٹیکنالوجی حاصل نہیں کریں گے بلکہ ہر پروجیکٹ میں اس کی منتقلی لازمی بنائیں گے اور ہمیں بھی اب یہ فوری طور پر کرناچاہئے ۔ جدّت طرازی کے ماحول کی تشکیل کیلئے بہت سے مختلف پہلوؤں کو ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ان سب کا فقدان پا یا جا تا ہے ۔ ان میں سب سے اوّلین اہمیت کی حامل نرسری ،پرائمری ،ثانوی اسکولوں اور جامعات میں معیاری تعلیم کا انعقاد ہے ۔ ایک نئے تعلیمی نظام کے ذریعے ہمیں طلبہ میں مسائل کو حل کرنے کی قابلیت و رجحان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے بجائے اسکے کہ ایک ہی نقطہ نظر کو رٹوا یا جائے جیساکہ موجودہ تعلیمی نظام میں ہو رہا ہے۔ اسکول اور کالج کے اساتذہ کا اعلیٰ و معیاری تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے کیونکہ شخصیت کی بنیاد چھوٹی عمر ہی میںڈالی جاتی ہے ۔ سنگاپور کی کامیابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں اسکول کےاساتذہ کی تنخواہوں میں بے انتہا اضافہ کر دیا گیاتھا لہٰذا زیا دہ سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اسکولوں میں بحیثیت استادتعلیم دینے کی طرف متوجہ ہوئے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا شماردنیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں نویں نمبر پر ہے۔ دوسرا اہم عنصر سائنسی تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری ہے۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد 2007 ءمیں یہ رقم پاکستان کی GDP کے 0.63% تک پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں یہ سرمایہ کاری کم ہو کر 0.3% ہی رہ گئی ہے جو کہ ہماری حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ تحقیق و ترقی پر سر مایہ کاری اور سماجی و اقتصادی ترقی کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے ۔ چین ، کوریا اور سنگاپور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ تیسرا اہم عنصر جدّت طرازی ہے جس کیلئے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے اس کیلئے ایسی حکومتی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو کہ تحقیق و ترقی کے نجی شعبو ں کو فروغ دیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں بیشتر تحقیق نجی شعبوں ہی میں ہوتی ہے اس کیلئے مناسب حکومتی پالیسیوں پر حکمت عملی اور نجی شعبے میں تحقیق و ترقی کے فروغ کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا بہت اہم کردار ہے۔ان اقدامات میں تحقیق و ترقی کے نجی اداروں میں جو کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں ان کو ٹیکس مراعات دینا، اہم ٹیکنالوجی کی تربیت کیلئے ملازمین کو بیرونِ ممالک بھیجنے کیلئے حکومتی امدادفراہم کرنا، نجی صنعتوں کی لیبا رٹریوں کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرنا۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں کاروبار کیلئے قائم ہونیوالی نئی کاروباری کمپنیوں کو لمبے عرصے کی ٹیکس چھوٹ دینا وغیرہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر 2001ء میں میں نے بحیثیت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، تمام IT کی صنعتوں کو 15 سال کی ٹیکس چھوٹ دی تھی ۔ نتیجتاً IT کی معیاری تعلیم کے اداروں کے قیام کیلئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی حتیٰ کہ سرکاری انجینئر نگ جامعات میں حکومت کی جانب سے 80کروڑ رو پے کی مالی امدادی اور (endowments) قائم کئے گئے تاکہ انفارمیشن ٹیکنالوجیکے شعبوں میں تحقیق و ترقی میں تیزی سے اضافہ کیا جاسکے۔ اگلے 15سال میں ایک انقلاب برپا ہوگیا جس کا ثبوت یہ ہے ۔ کہ امریکہ کے مشہور اخبار نیو یارک ٹائمزنے 10اگست 2015ء میں یہ خبر شائع کی ہے کہ پاکستان کے شعبہIT کی سالانہ عالمی فروخت 2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے (2001ء میں یہ صرف 30لاکھ ڈالر تھی)۔ اس خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان میں اب سا لانہ دس ہزار IT کے ڈگری یافتگان فارغ التحصیل ہو رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے فری لانس پروگرام کے طور پر کام کر رہے ہیں اورملک کی سافٹ وئیر برآمدات 85امریکی ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اس طرح پاکستان کا شمار دنیا میں اس میدان میں تیسرے نمبر پر آگیاہے (صرف امریکہ اور بھارت کے بعد)۔ سائنس پر سرمایہ کاری کے بہت دوررس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے وابستہ دو مثالیں ہیں پہلی یہ کہ ایک چھوٹے سے ملک فن لینڈ جس کی آبادی صرف 55 لاکھ افراد پر مشتمل ہے (کراچی کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی) اس کی ایک موبائل بنانے والی کمپنی کی برآمدات 2010 ء میں 50ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی تھیں یعنی پاکستان کی برآمدات سے دگنی تھیں ۔ دوسری مثال سنگاپور کی ہے جس کی آبادی بھی لگ بھگ فن لینڈ کے برابر ہے لیکن اسکی برآمدات پاکستان کی برآمدات سے 20 گنا زیادہ ہیں ۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے پاکستان کی حکومتوں میں تکنیکی سوجھ بوجھ کی صلاحیت ، دور اندیشی اور بصارت کا شدید فقدان پا یا جا تا رہاہے ۔ میں نے پچھلے ایک مضمون میں صدارتی نظامِ جمہوریت کے حق میں لکھا تھا جس پر جناب وجاہت مسعود صاحب نے اپنے 17 اکتوبر کے مضمون میں تنقید کی ہے۔ میں سب سے پہلے جناب وجاہت مسعود کی اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتا ہوںکہ جس صدارتی نظامِ جمہوریت کی میں تائید کر رہا ہوںیہ وہ نظام حکومت نہیںہے جو پاکستان میں مختلف مارشل لاء آنے کے بعد رائج رہاہے۔ وہ آمریت تھی جمہوریت نہیں تھی۔ صدارتی نظام ِ جمہوریت میں صدر عوام ووٹ کے ذریعے منتخب کرتے ہیںاور پھرصدر خود اپنے وزیر منتخب کرتا ہے۔ پارلیمنٹ سے وزیر نہیں چنے جاتے ۔ لہٰذا اگر صدر کا انتخاب صحیح جانچ پڑتال کے بعد ہو جائے تو پھر جو کرپشن کا بازار پچھلی دہائیوں میں گرم رہاہے وہ ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ ابھی تو یہ ہوتارہاہے کہ پارلیمنٹ میں آنے کیلئے امیدوار کروڑوںروپیہ خرچ کرتے ہیں اور پھر اربوں روپے کمانے کی فکر کرتے ہیں ۔ صدارتی نظام جمہوریت 90سے زائد ممالک میں نافذ ہے اور قائدِ اعظم نے بھی اس نظام کی تائید میں لکھا تھا۔جناب وجاہت مسعود صاحب کیا قائد اعظم محمد علی جناح غلط تھے؟ ہمارے قائد نے1947ء میں پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ برطانوی انداز کا پارلیمانی نظام جمہوریت پاکستان میں ہمارے جاگیردار کبھی صحیح طریقے سے چلنے نہیں دینگے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا کہ پاکستان کیلئے صدارتی نظام جمہوریت زیادہ مناسب ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں