Thursday / Sep 03 2015
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان تیزی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے ، اس کی معیشت ڈوبتی جارہی ہے ۔جن لوگوں نے جان پرکنز (John Perkins) ایک امریکی سابق سی آئی اے ایجنٹ کی تصنیف کردہ کتاب بعنوان "The Confessions of an Economic Hit Man" کا مطالعہ کیا ہے تو وہ اس کتاب میں بیان کردہ حالات کا ہمارے ملک کی موجوہ صورتحال سے بہتر طور پر موازنہ کرسکیں گے۔ مصنف نے اس کتاب میں امریکی پالیسیوں کے حوالے سے کافی چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ مثال کے طورپر وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ کے اشاروں پر بعض منتخب ممالک کو قرضے فراہم کرنے والی ایجنسیاں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کس طرح بھاری قرضوں کے جال میں پھنسا کر ان کی معیشت کو کھوکھلا کرتی ہیں۔ یہ قرضے کسی منافع بخش منصوبوں میں استعمال ہونے کی بجائے اس ملک کے مفاد پرست افسروں اور لیڈروں کی تجوریوں کی زینت بنتے ہیں ۔ جان پرکنز کی کتاب میں جن حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے گزشتہ دہائی سے پاکستان میں رونما ہونے والے حالات اس کی ہو بہو منظر کشی کرتے ہیں۔ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اور صاف ظاہر ہے کہ اس کا شمار بھی ان منتخب کردہ ممالک میں ہے جن کو چند بین الاقوامی طاقتیں کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ گزشتہ دہائی میں پاکستان کو9.4ارب امریکی ڈالروں کے بھاری قرضے دیئے گئے جس کا 1/3حصہ ملکی بجٹ کےلئے استعمال کیاگیا باقی سب قرضوں کی رقمیں ہمارے سابق لیڈروں نے غیرملکی بینکوں میں ذخیرہ کر لیں جن پر نیب (NAB)اور دیگر ایجنسیوں کے تحت بدعنوانی کے مقدمات زیر تفتیش ہیں جو کہ نہایت سست رو ی کا شکار ہیں کیونکہ اس میں ملوث دیگر بدعنوان لیڈروں کے بھی نام ظاہر ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ قرضے ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکے ہیں کہ ان کی سود سمیت ادائیگی کےلئے مزید بھاری قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ دس سالوں میں تقریباً 5ارب امریکی ڈالرز سالانہ قرضے لئے جن کی سود سمیت ادائیگی میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو جلدہی ہماری اپنی جوہری ملکیت خطرے میں پڑ جائے گی جو کہ اسطرح آسانی سے ملنے والی غیرملکی امدادکے پیچھے پوشیدہ عزائم کو ظاہر کررہی ہے اور پھر ہمارے بینک بری طرح سے دیوالیہ ہوجائیں گے۔ موجودہ حکومت اس صورتحال سے جانتے بوجھتے نظریں پھیر کر پی پی پی حکومت کی غیر قانونی پالیسی ہی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ قانوناً قرض اور مجموعی ترقیاتی پیداوار (GDP) کاتناسب 60 فی صد کی حد پار نہیں کر سکتا لیکن موجودہ حکومت اس تناسب کو کم کرنے میں قطعاً ناکام ہوئی ہے۔ غیر ملکی فنڈز کی ریل پیل نے بدعنوانوں کو مزید طاقتور کر دیا ہے ۔آئین کی اٹھارویں ترمیم نے بھی بدعنوانی کو پروان چڑھانے میں بہت مدد کی ہے خصوصاً سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتوں میں جہاں فنڈز کی بے دریغ فراہمی نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے حتیٰ کہ ان فنڈز کا کچھ حصّہ صوبے میں دہشت گردی کے فروغ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ ملک کی بقا کے لئے اس وقت سب سے اہم عمل یہ ہے کہ فنڈز کے نام پر مزید قرضوں کی وصولی کو روکا جائے اور جلد از جلدپچھلے قرضے ادا کئے جائیں ۔ اس امر کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جن صوبوں میں بڑے پیمانے پربدعنوانی ہے اس کے مرتکب مجرموں کو کڑی سے کڑی سزائیں سنائی جائیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بھی نرمی نہ برتی جائے ۔ تمام بدعنوانی کے مقدموں کو NAB اور دوسری تفتیشی ایجنسیوں سے لے کر فوجی عدالتوں میں پیش کیا جائے تاکہ سال کے آخر تک ان کے فیصلے ہوجائیں ۔ ان اہم اقدامات کو بروئے کار لانے کے لئے اوّلین ترجیح دینی چاہئے کیونکہ ان بدعنوانوں سے ملک کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔ یہی وقت ہے کہ بڑی مچھلیوں کا خاتمہ کیاجائے جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہیں۔ ایک مرتبہ یہ رکاوٹیں دور ہوجائیں تب ہی ہمارا ملک سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوسکے گا۔ ہماری حکومت عوام النّاس کو یہ یقین دہانی کرانے پر تلی ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت بہت بہتر ہے کیونکہ ہمارے بیت المال میں 18ارب امریکی ڈالر موجود ہیں ، یہ محض خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ ملک کی اقتصادی ترقی کااندازہ بیت المال میں موجود خزانہ نہیں بلکہ اس ملک کی غریب و مفلس عوام کی حالت، تعلیم کی شرح، صحت کی صورتحال انفرادی ترقیاتی شمار (per capita GDP)، مجموعی ترقیاتی پیداواری صلاحیت (GDP) ، زرعی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ،ملکی قرضے، قرضے اورمجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) کا تناسب اور دیگر کئی پیمانوں سے لگایاجاتا ہے اور ان تمام عوامل کو بروئے کار لانے میں پاکستان نہایت غیر تسلّی بخش کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم (World Economic Forum) کے عالمی مسابقتی گوشوارے (Global Competative Index) کے مطابق 144 ممالک میں پاکستان کا شمار 2014 ء سے اب تک 129 درجے پر ہے اس کے برعکس سنگاپور کا شمار 2014ء میں 144ممالک میں 22 درجے پر ہے۔ ایک مضبوط اور مستحکم علمی معیشت کے قیام کےلئے ضروری ہے کہ ہم صرف اپنے محدود قدرتی وسائل پر اکتفا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہنے کی بجائے ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy) پر اپنی توجہ مرکوز کریں اس کے لئے ہمیں سماجی و اقتصادی ترقی کے تین اہم اصولوں پر عمل کرنا ہوگا: 1 ۔ حکومتی پالیسیوں کو اس انداز سے تشکیل دیاجائے کہ علمی معیشت اور تحقیق کو فروغ حاصل ہواور اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ ہو۔ 2۔عالمی معیار کی جامعات اور اہم شعبوں کے اعلیٰ و معیاری تحقیقی مراکز قائم کئے جائیں 3۔نجی اداروں کو فروغ دیا جائے تاکہ قومی تحقیقی اداروں اور نجی اداروں میں صنعت و زراعت کے حوالے سے مضبوط روابط قائم ہو سکیں ۔ نجی اداروں میں تحقیق و ترقی کو فروغ دینے کے لئے اعلی تکنیکی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دیا جائے ۔ ہمیں سنگاپور سے سبق سیکھنا چاہئے جو کسی بھی قسم کے قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں ہے لیکن اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات میں آج اس کی کل برآمدات 450ارب امریکی ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کی کل برآمدات صرف 30ارب امریکی ڈالر ہیں جبکہ سنگاپور کی آبادی کراچی کی آبادی سے ایک چوتھائی ہے ۔ اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی پیداوار کو فروغ دینا ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایسا ترقیاتی نظام متعارف کرایا جائے جو براہ راست عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں ممدومعاون ثابت ہو اور عوام میں معاشی بحالی لاسکے۔ اس کے لئے ’’ تکنیکی مستقبل بینی ‘‘ (Technology Foresight)کا باقاعدگی سے جائزہ لیتے رہنا ہوگا تاکہ موجودہ تکنیک کو مستقبل کی تکنیکی ضروریات سے بروقت ہم آہنگ کیا جاسکے، اس کے علاوہ ان ٹیکنالوجیز کے ہمارے ملک میں معاشرتی ،اقتصادی ، صحت اور ماحولیاتی پہلوؤں سے منسلک فوائد اور نقصانات کو بھی مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔ سرکاری محکموں ، جامعات،وزارت سائنس و ٹیکنالوجی،اعلیٰ تعلیمی کمیشن اور نجی شعبوں میں آپس میں مضبوط روابط قائم کرنا ہوں گے تاکہ کاروبار و جدّت طرازی کو فروغ حاصل ہو ۔ اس چیلنج کو قبول کرنے کےلئے سائنس و ٹیکنالوجی اور اعلیٰ تعلیمی شعبوں کو ’ـ’علم پر مبنی معیشت‘‘ (Knowledge Economy) میں منتقلی کے لئے نہایت اہم کردار ادا کرنا ہوگا ۔ جب تک ہم معیاری تعلیم و ہنر سے آراستہ نہیں ہوں گے اس وقت تک اپنے بچّوں کا معیار زندگی بہتر نہیں بناسکتے اور نہ ہی انہیں روشن مستقبل فراہم کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کےلئے ایک دوراندیش، ایماندار اور تکنیکی صلاحیتوں میں مشّاق قیادت کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام ’’جاگیرداریت‘‘ (Feudocracy) نے ملک وقوم کو مظلومیت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ تکنیکی مہارت سے آراستہ حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے قیام کےلئے سب کو مل کر ملک و ملت کے اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں