Tuesday / Mar 10 2015
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وسیع پیمانے پر قدرتی وسائل سے نوازاہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان ذخائر کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔مثال کے طور پر ہمارے صوبہ سندھ میں موجود کوئلے کی کانیں تقریباً 185ارب ٹن ہیں جو کہ 618 ارب بیرل تیل کی پیداوار کے برابر ہیں اور ان کی مالیت تقریباً 3000ارب ڈالر ہے۔پاکستان میں جو تیل کے ذخائر ہیں وہ تقریباً 43 کروڑ بیرلزکے برابر ہیں اور گیس کے ذخائر 31ہزار ارب کیوبک فٹ کے برابر ہیں ۔یہی نہیں بلکہ ہمارے تانبے اور سونے کے ذخائر کا شمار دنیا کے سب سے بڑے پانچ ذخائر میں ہوتا ہے ۔ریکوڈیک نامی ذخیرہ بلوچستان میںتقریباً 35 سال قبل دریافت ہوا تھااور 1993 میں ایک آسٹریلوی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ اسکو نکالیں لیکن اب تقریباً 22 سال ہو چکے ہیںاور ہم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔اسکی مالیت تقریباً 2 کھرب ڈالر ہے او ر اسکو صحیح طریقے سے نکال کر صاف کرکے برآمد کیا جائے تو پاکستان دنیا کے امیر ترین ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہمارے یہاں شیل گیس اور شیل تیل کے بھی بہت بڑے ذخیرے ہیں۔ شیل گیس تقریباً836 5ہزار کیوبک فٹ کے برابر موجود ہے جبکہ شیل تیل227 ارب بیرل کے برابر ہے۔ ہمارے یہاں ارضی نوادرات( Rare earths ) کا بھی بہت بڑا ذخیرہ مو جود ہے جو کہ صوبہ ء بلوچستان میں واقع ہے۔ ان ارضی نوادرات میں 17 ایسی دھاتیں ہوتی ہیں جن کی بہت زیادہ بین الاقوامی مانگ ہے کیونکہ یہ ٹیلی وژن اسکرینز،ٹیبلٹ، کمپیوٹر، بجلی اور تیل سے چلنے والی (ہائبرڈ) گاڑیاںہوائی پن چکّیاں اور دوسرے مختلف صنعتی استعمال میں خاص طور پر الیکٹرانک کی صنعت میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان سب وسائل کے باوجود پاکستان غربت کے بھنور میں جکڑا ہوا ہے اور چھوٹے چھوٹے ممالک جن کے پاس کوئی قدرتی وسائل نہیں ہیں مثلاً سنگاپور، تائیوان اور کوریا وہ پاکستان سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں اسکی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے بد عنوانی۔ پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں بدعنوانی پر سزائے موت کا قانون نافذ کرنا پڑے گا (جیساکہ چین نے کیا ہے ) اور بڑے بڑے بدعنوان لیڈروں کو عبرتناک سزائیں دینی ہونگی تاکہ ملک کو اس بیماری سے ہمیشہ کے لئے آزاد کیا جائے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مختلف میدانوں میں دوسرے ممالک کیسے اربوں ڈالر کما رہے ہیں اورکس طریقے سے ترقی کر رہے ہیں اور اس سے فوجیں کس طرح مستفیدہو رہی ہیں اسکی چند مثالیں یہاں قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔ جامعہ ٹوکیو میں زرعی ٹیکنالوجی میںکام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک ایسا مصنوعی بھنورا تیار کیاہے جس میں ایک( پہلے سے طے شدہ پروگرام کی حامل) ریموٹ کنٹرول چپ بھنورے کے دماغ میں نصب کردی جاتی ہے جس کے ذریعے اس بھنورے کی حرکات کو بیرونی ذرائع سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اس چپ کو توانائی فراہم کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی بیٹریاں بنائی گئی ہیں ۔ یہ مصنوعی کیڑے ایک نیا دفاعی ہتھیار ثابت ہورہے ہیں جو کہ اہم خفیہ تنصیبات اور خفیہ گفتگو کے متعلق معلومات فراہم کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ ان میں کیمرے اور مائیکرو فون نصب ہوتے ہیں۔امریکہ میں ایسے ہی کیڑوں کی شکل وجسامت کے ڈرون تیار کیے گئے ہیں اور ان میں چھوٹی چھوٹی آنکھیں (Mini Camera)بھی لگا ئی گئی ہیں۔ یہ آواز اور تصویر دونوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتے ہیں۔ یہ کیمرہ ایک مائکرو چپ میں نصب کیا جاتا ہے جو کہ وزن میں انتہائی ہلکا ہوتا ہے اور اس ڈرون کیڑے کوجاسوسی کے مقصدکیلئے بہت موثر بنا دیتا ہے۔ یہ کئی کلو میٹر کے فاصلے سے ایک محفوظ فریکوئینسی کے سگنل سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس آلے کو امریکی ایجنسی ناسا کی امدادسے میں تیار کیا گیا ہے ۔یہ کیڑے بہت سی شکلوں میں بنائے جارہے ہیں جن میں مکھّیاں ، لال بیگ اور مکڑیاں شامل ہیں۔ان کو بآسانی اڑا کر کسی بھی ملک کے سربراہ کے دفتر میں یا آرمی چیف کے دفتر میں پہنچایا جاسکتا ہے اوروہاں جو بھی گفتگو ہو رہی ہے اسے غیر ملکی ایجنسیاں سن اوردیکھ سکتی ہیں۔ یہ ایک خاص پلاسٹک سے بنائے جارہے ہیں جو برقی آلات کے ذریعے ڈھونڈے نہیں جا سکتے چنانچہ اب اگر کوئی مکّھی نما چیز ہمارے وزیر اعظم یا آرمی چیف کی دیوار پر بیٹھے تو انہیںہوشیار ہونا چاہئے کیونکہ یہ ان کی گفتگو اور افعال کی جاسوسی کر سکتی ہے۔ بین الاقوامی جاسوسی اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ اب جو کمپیوٹر امریکہ کی کمپنیاں بنارہی ہیں روس کے ایک ادارے کے مطابق ان میں ایسے آلات نصب کر دئیے گئے ہیں او رایسا سافٹ وئیر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ سب معلومات امریکہ کے خفیہ اداروں کو ہر لمحہ دیتے رہتے ہیں ۔اگر یہ سچ ہے تو یہ ہماری حکومت اور کاروباری اداروں کیلئے نہایت خطرناک ہے۔خاص طور پر ہمارے فوجی اداروں کیلئے۔ اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم اس خبرکی پوری تحقیق کریں اور فوری طور پرکمپیوٹر صرف چینی یا جاپانی کمپنیوں سے خریدیں ( مثلاً LeNovoجو چین میں بنتا ہے یا Fujitsu جو جاپان میں بنتا ہے) جو دنیا کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے کمپیوٹر ہیں، یہ شایدہمارے فوجی اداروں کے لئے ضروری ہو گیا ہے۔ کیا ہم اپنے دماغ کی صلاحیتوں کو دماغ میں کوئی آلہ نصب کرکے بڑھاسکتے ہیں ؟ اس کا جواب ہے جی ہاںاب ایسا جلد ہی ہونے والاہے۔ جینیاتی تبدیلی کے ذریعے دماغ کی صلاحیت میں کئی سال قبل اضافہ ممکن بنادیا گیا تھا۔اب ایک بائیو ٹک انسان کی تیاری جاری ہے جس میں انسان اور مشین کو یکجا کردیا گیا ہو۔ جامعہ براؤن امریکہ میں کام کرنے والے John Donoghue نے ایسی Brain Gate ٹیکنالوجی تیارکی ہے جس کے ذریعے معذور شخص کے دماغ کو ایک کمپیوٹر سے منسلک کردیا جائے گا اس کے ذریعے وہ ٹی وی چلا سکے گا، اور کمپیوٹر کے کرسر کو حرکت دے سکے گا اور اپنی ای میل کھول سکے گا۔امریکی فوج کی ایک ایجنسی 50ملین امریکی ڈالر ایک پروگرام پر خرچ کررہی ہے جس کے ذریعے دماغ کنٹرول کئے جانے والے مصنوعی اعضاء تیار کئے جاسکیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی ایسا خودکار آلہ بھی تیار کیا جا رہا ہے جس کو پہن کر ہاتھوں اور پیروں کی طاقت کو بڑھایا جا سکتا ہے ۔ سیکورٹی اور دفاع کے میدان میں کام کرنے والے اداروں کو دیواروں کے پیچھے چھپے دشمن یا پناہ گاہ میں چھپے باغیوں کو ہلاک کرنے میں مسئلہ در پیش ہوتا ہے۔کیونکہ اگروہ نظر کے سامنے نہ ہوں تو ان کو بندوق کی گولی سے ہلاک کرنا آسان نہیں ہوتا ۔امریکی فوج نے اب ایک نئی رائفل ایجادکر کے اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیا ہے جوکہ ریڈیو کنٹرول گولیاں داغ سکتی ہے جو ایک خاص مقام پر جا کر پھٹ سکتی ہیں ۔یہ خصوصی رائفل گرینیڈ لانچر کی طرح عمل کرتی ہے جس میں دھماکے کے اصل مرکزپرانتہائی دھماکہ خیز رائونڈ کے ساتھ کنٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔گولی میںایک چپ لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے رائفل گولی تک سگنل بھیجا جاتا ہے تاکہ یہ مطلوبہ جگہ پر جاکر پھٹ جائے ۔اس قسم کے اسمارٹ اسلحہ کی تیاری جدید مائیکرو چپ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے ۔یہ جدید اسلحے گزشتہ دو سالوں میں عراق اور افغانستان میں استعمال ہوئے ہیں۔ اگر دشمن کی سرزمین سے کئی میل کے فاصلے سے ایٹم بم کے ذریعے جوہری دھماکہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میںپیدا ہونے والی برقی مقناطیسی حرکت دشمن کی نگرانی کے آلات اور دوسرے آلات کو جام کر دیگی مگر اس کے ساتھ دونوں اطراف وسیع نقصان ہوگا ۔امریکی فوج اب ایک نیاہتھیار استعمال کررہی ہے جس میں برقی مقناطیسی حرکت کا گیگاواٹ برسٹ استعمال کیا جاتا ہے جو10نینو سیکنڈ طویل ہوتا ہے - اسے بجلی کے ننگے تاروں میں دوڑادیتے ہیں جس کے نتیجے میں ریڈار،سیٹلائٹ ڈش اور دیگر برقی آلات تباہ ہوجاتے ہیں ۔یہ ہتھیار انسان کے بغیر چلنے والی اسٹیلتھ گاڑی) (UAVسے فائر کیا جاتا ہے اس طرح بوئینگ نے ایک خاص اسٹیلتھ کا حاملUAV Phanton Ray تیار کیا ہے جو کہ دشمن تک پہنچ جاتا ہے اور دشمن اس کے بارے میں لاعلم رہتا ہے ۔ امریکی فضائیہ نے اس میں مزید ترقی کے لئے 40ملین امریکی ڈالر وقف کئے ہیں تاکہ زیادہ طویل فاصلے پر مار کرنے والے ہتھیار تیار کئے جاسکیں ۔جنرل ضیاء لحق کے جہاز کو غالباً اسی قسم کے ہتھیار سے گرایا گیا تھا۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں