جمہوریت اور ہمارا قومی مزاج

Friday / Feb 27 2015

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

کوئی اٹھارہ برس بعد جنگ جیسے قومی اور اردو زبان کے سب سے بڑے اخبار میں دوبارہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔ادارے کی فراخدلانہ پیشکش ،سینئر صحافیوں اور ادارتی عملے کے بھرپور تعاون کے نتیجے میں1997کے بعد اس اخبار کے ذریعے پاکستان کے کونے کونے اور دنیا بھر میں اردو زبان پڑھنے والے خواتین و حضرات کی خدمت میں اپنے ناقص علم و فہم اور ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر حاضر ہوں۔ جنگ آج سے دو دہائیاں قبل بلکہ اس سے بہت عرصہ پہلے سے پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے قومی اخبار کا درجہ اور مقام رکھتا ہے اور آج بھی اسی حیثیت سےافق صحافت پر اپنی چمک دمک دکھا رہا ہے۔ اس دوران اسے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے ایک برس کے دوران میں اسے جس آزمائش سے دو چار ہونا پڑا اس نے ہمارے یہاں آزادی صحافت اور حقیقی جمہوری قدروں کی پذیرائی کے حوالے سے چونکا دینے والےسوالات پیدا کئے اور صرف صحافت نہیں ریاست پاکستان کے جمہوری مستقبل کے بارے میں بھی سوچ اور فکر کے نئے زاویوں کو ابھارا ہے۔ ایک سوال جو ان دونوں اہل فکر و نظر اور اہم صحافتی حلقوں میں پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے یہ ہے آیا ہم بطور قوم جمہوریت کے ساتھ مناسبت بھی رکھتے ہیں یانہیں۔ اس سے قطع نظر کہ موجودہ حالات کے اندر یہ سوال کن عوامل کی بنا پر زیر بحث لایا جا رہا ہے اور اس کا پچھلےدنوں بپا ہونے والے حقیقی یا مصنوعی سیاسی بحران سے کیا تعلق ہے۔ امرواقع یہ ہے اگر جمہوریت ہمارے قومی مزاج میں رچی بسی نہ ہوتی تو اس ملک کا وجود میں آنا سخت مشکل ہوتا۔ کون نہیں جانتا کہ 46-1945 کے انتخابات نے جو انگریزی راج کے آخری دور میں متحدہ ہندوستان کے اندر منعقد ہوئے قیام پاکستان کی جدوجہد کو فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا تھا۔ اس زبردست اور تاریخی چنائو کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ہر لحاظ شفاف جمہوری اور آئینی طریقے سے اپنے لئے علیحدہ اور آزاد مملکت کے حصول کو حتمی نصب العین قرار دیا۔ تب قوم کی قسمت کافیصلہ اس کی اپنی ووٹ ڈالنے کی طاقت کے علاوہ ایک ہندوستان گیرسیاسی جماعت مسلم لیگ اور اس کے آخری حد تک آئین دوست سویلین لیڈر کے ہاتھوں میں تھا۔ روایتی اسٹیبلشمنٹ نام کی طاقت ہم پر مسلط نہ تھی۔ برطانوی سامراج کا آخری سانس لیتا ہوا دور تھا اور ملک کی اکثریتی ہندو آبادی کا سیاسی سماجی اور اقتصادی تفوق۔یہ مسلمانان ہند کا اسلامی جذبہ اور جمہوری عزم اور شعور تھا جو اپنی عوامی قوت کے بل بوتے پر دونوں مخالف قوتوں کاسینہ چیرتا ہوا ساحل مراد تک جا پہنچا۔ ایک ایسے ملک کے بارے میں جس کا عالم وجود میں آنا اتنی بڑی تاریخ ساز جمہوری تحریک کا رہین منت ہے یہ سوال اٹھاناکہ جمہوریت اس قوم کے مزاج کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے یانہیں بجائے خود غیر فطری ہے۔ لیکن ہمارے یہاں بار بار کے غیرجمہوری ادوار نے جو ہم پر زبردستی مسلط کئے گئے اور آزاد قوم کی حیثیت سے ہماری اب تک کی تاریخ کے آدھے حصے پر محیط ہیں ایسے عوام اور حالات پیدا کردیئے جن کی وجہ سے اس قسم کےسوالات اٹھے بھی اور اٹھائے بھی جا رہے ہیں اس کے باوجود اس حقیقت سے سرمو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کے اذہان و قلوب کے اندر فطری اور تاریخی طور پر جو جمہوری شعور اور جذبہ پایا جاتا ہے اس کی بدولت غیرجمہوری اور غیر آئینی نظام ہائے حکومت کو ہمیشہ مسترد کیا گیا اور قوم نے بار بار آئین کی بالادستی اور جمہوری اداروں کے آزادانہ قیام کو اپنا مطمع نظر قرار دیا۔ آئین مملکت کو ایک نہیں کئی مرتبہ پامال کیا گیا۔ لیکن پاکستانی قوم کی بھاری اکثریت نے ہمیشہ سے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اصل حالت میں بحال کیا، اس کے اسلامی تشخص اور جمہوری مزاج و کردار پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ یہ امر بجائے خود اس پر دلالت کرتا ہے کہ جمہوریت ہمارے اجتماعی قومی ضمیرکی آواز اور مزاج کا حصہ ہے۔ پچھلے دنوں معروف تھنک ٹینک پلڈاٹ کی جانب سے شائع کی جانے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 16 جون 2014 کو ماڈل ٹائون لاہور میں پیش آنے والے درجن سے زائد افراد کے قتل کے واقعے اور دھرنوں نے موجودہ دور کی جمہوریت کو اس سے ماقبل پانچ سالہ عہد کے مقابلے میں کمزور کیا ہے۔ اس بات میں یقیناً صداقت کا عنصر پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ دھرنوں کے فوری اور ما بعد اثرات کے نتیجے میں غیر آئینی عناصر کو فیصلہ سازی پر براہ راست اثر انداز ہونے کا موقع ملا ہے۔ لیکن انہی دھرنوں کے دوران یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ اسی مدت کے اندر منتخب پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں کا جومشترکہ اجلاس جاری رہا اس کے ذریعے وفاق اور خاص طور پر اس کے چھوٹے یونٹوں کے عوامی نمائندوں نے کھل کر آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ اپنی بھرپور اور غیر متزلزل وابستگی کا اظہار کیا۔ اس طرح دھرنے اپنے علانیہ اہداف کے حوالے سے کامیاب ثابت نہ ہوئے۔ البتہ دو عوامل ایسے ہیں جو اب تک ہمارے ملک میں جمہوریت کی کمزوری کا باعث بنے ہوئے ہیں اور ان کی ذمہ دار روایتی اسٹیبلشمنٹ اتنی نہیں جتنے ہمارے منتخب کہلانے والے سیاسی قائدین ہیں جو خوشدلی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے پر آمادہ نظر نہیں آتے اور ملک کے اندر کڑے اور بے لاگ احتساب کے نظام کو جاری و ساری کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ ان دو منفی عوامل کی بنا پر جن کے ذمہ دار بہرصورت ہمارے جمہوری کہلانے والے سیاستدان ہیں جمہوریت کی جڑیں مضبوط نہیں ہو پا رہیں اور ہمارا ملک عملی طور پر قانون کی حکمرانی کے تصور سے بیگانہ چلا آ رہا ہے۔ جب تک یہ ناپسندیدہ صورت حال برقرار رہے گی جمہوریت کو خطرات لاحق رہیں گے۔ ذمہ داری سیاستدانوں پربھی آئے گی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں