Thursday / Sep 04 2014
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیا ہم اس جاگیرداری اورموروثی نظامِ حکومت سے چھٹکارا حاصل کر نے میں کامیاب ہو سکیں گے ، اور ملک اس دور کی طرف آگے بڑھے گا جہاں ایماندار اور ماہرین کی حکمرانی ہوگی جو ہمیں غربت اور بد نصیبی کے اندھیروں سے باہر نکالیں ؟ یاہم اسی خود شکستگی کے راستے پر گامزن رہیںگے جس کے نتیجے میں پہلے ہی آدھا ملک گنوا چکے ہیں اور ملک قرض کے پہاڑ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ پہاڑ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑا ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا وعدہ کہ بھیک مانگنے سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے دھندلا نظر آرہاہے او ر ان سب وعدوں کو فراموش کرتے ہوئے ہم آج بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ حکومت اپنے معاملات چلانے کیلئے روزانہ 4.8 ارب روپے 480 ) کروڑ)قرض لے رہی ہے لہٰذا قومی قرض16.4 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ یہ سراسر غیر قانونی اور مالیاتی ذمہ داری اور ادھار حدود قانون2005 (Debt Limitation Act ) کی کھلی خلاف ورزی ہے جو کہ حکومت کو پابند کرتا ہے کہ اس کے قرضے اس کی 60% مجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) سے تجاوز نہ کرے۔یہ مسئلہ محض اس لئے کھڑا ہوا کہ حکومت نے نہ توگزشتہ حکومت کے بدعنوانوں کو پکڑا نہ ہی ان کو سزائیں دیں اور نہ ہی ان سے وہ ملک کا لوٹا ہوا پیسہ (مثلاً 200 ارب امریکی ڈالر جو انہوں نے سوئس بینک میں جمع کر رکھا ہے ) واپس لا پائے نہ زرعی ٹیکس متعارف کرایا نہ ہی کسٹم اور FBR جیسے اداروں میں رقم کی خرد برد کو روکنے کے لئے توجہ دی ۔ہمارے حکمرانوں کی نظریں صرف چند بڑے پروجیکٹوں پر مرکوز رہیں .جبکہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ٹوٹ کر بکھر گئی ہے اور حکومت کی سب سے کمزور وزارت کی حیثیت سے سامنے آئی ہے جس کے ماتحت ادارے جوہری تباہی کا نقشہ کھینچتے نظر آتے ہیں۔ آج اس کا بجٹ نہایت ہی معمولی رہ گیاہے اس بجٹ کی نسبت جو آج سے 12 سال پہلے تھا۔آج سے آٹھ مہینے پہلے اسی وزارت کے معاملات دیکھنے کے لئے ایک اجلاس طلب کیا گیا تھا جس کی صدارت وزیرِ سائنس و ٹیکنا لوجی اور میں نے کی تھی اور دوسرا اجلاس ایک مہینے میں کرنے کا فیصلہ کیاتھا لیکن وزیر صاحب کی دوسری مصروفیا ت کی بناء پر آج تک یہ اجلاس نہ ہو سکا...یہ نہایت افسوس کا مقام ہے ۔ بین الاقوامی عطیاتی ایجنسیاں معاشی ترقی کے لئے جو ’تراکیب ‘ پر جو عملکرنے پر مجبور کرتی ہیں وہ غریبوں پر ٹیکس کی صورت میں اضافی بوجھ ڈالتی ہیں اور اس طرح غریب اور امیر کے درمیان کا خلاء جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے مزید بڑھ جاتاہے۔ IMF نے قرضہ دیتے وقت آج تک کبھی بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ یہ ادھاررقم ہماری اصل دولت یعنی افرادی قوّت کی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدّت پرخرچ کی جائے ۔ اگر ایسا کیا جاتا تو ہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جاتا۔ افسوس کہ IMF اور دوسرے ایسے اداروں کی شرائط ایسی ہوتی ہیں کہ وسیع پیمانے پر بنیادی منصوبے شروع کئے جائیں جو قوم کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیں اورہمارے بر سر اقتدار معززین کے لئے بدعنوانی کے لئے راستہ کھول دیں۔ یعنی بیماری سے بدتر علاج ہے، تا کہ پاکستانیوں کی نسلیں غیر ملکی قرضوں کے پھندے میں ہمیشہ کے لئے جکڑی رہیں۔ موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کا وعدہ کیاتھا لیکن یہ بھی پچھلی حکومتوں میں وعدوں کی طرح کھوکھلا نکلا ۔ہم اب تک تعلیم پر اپنی GDP کا 2% سے کم خرچ کررہے ہیں جس نے ہمیں دنیا کے تعلیم پر سب سے کم سرمایہ کاری کرنے والے آٹھ ممالک میں شامل کر دیا ہے یہ نہایت شرم کا مقام ہے۔یہ ہمارے جاگیردار زمینداروں اور موروثی حکمرانوں کے مفاد میں ہے کہ عوام ناخواندہ رہیںتاکہ وہ غلام بنے رہیں کیونکہ تعلیم انکے دماغوں کو روشن کرے گی ،ان میں شعور پیدا کرے گی ، معاملات کی سمجھ بوجھ عطا کرے گی، کسی بھی غلط قدم پر وہ سوال اٹھائیں گے جبکہ ناخواندگی کی صورت میں کچھ بھی غلط کام ہوتے دیکھ کر چپ بیٹھے رہیں گے ۔ ’’جمہوری انتخابات‘‘ کا تماشہ جو ہم پاکستان میںکئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں اب بند ہو جانا چاہئے۔ مستند انتخابی اصلاحات متعارف کئے جانے چاہئیں جو مضبوط و مربوط جانچ پڑتال کے نظام سے لیس ہوں اور کوئی بھی امیدوار اس نظام کے معیار پر پورانہ اترتاہو تو اسے غیر سیاسی و غیر جانبدار اراکین کے پینل کی جانب سے نا اہل قرار دے دیا جائے۔ ہمارے تقریباً 90% سے زائداراکینِ اسمبلی اس پیمانے پر پورے نہیں اتریں گے۔ لیکن جب تک سختی سے یہ تبدیلیاں نہیں لائی جائیں گی تب تک ملک اسی طرح تیزی سے تنزّلی کی طرف بڑھتا ہوا خودشکستگی کا شکار ہو جائے گا ۔ عمران خان اور علّامہ طاہرالقادری کے موقف میں بہت وزن ہے کہ صحیح اور شفّاف انتخابات کرانے ضروری ہیں ۔جبکہ موجودہ نظام میں یہ ممکن نہیں ہے لہٰذا فوری انتخابات اس مسئلے کا حل نہیں۔ بڑے پیمانے پرانتخابی اصلاحات نہ بر سرِ اقتدار حکومت کے اراکین کرنا چاہیں گے نہ ہی بیشتر حزبِ اختلاف کی پارٹیاں اس کے حق میں ہوں گی۔ نتیجتاً مزید بدتربدعنوان حکومت کی تشکیل عمل میں آئے گی۔ اس وجہ سے کسی ’سمجھوتے ‘ کا بھی وہی حشر ہوگا جو علاّمہ طاہر القادری کے پہلے’’’ لانگ مارچ‘‘ کے بعد ہو ا تھا یعنی امیدواروں کی جانچ پڑتال کیلئے30 دن نگرانی کا وقفہ مقرر کیا گیا تھا لیکن صرف 7 دن کا وقفہ دیا گیا جو کہ ایک بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں تھا ۔ تین اہم اقدامات جن پر عمل پیر ا ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں: 1 ۔اہم عدالتی اصلاحات: یہ یقین دہانی کی جائے کہ کسی بھی مقدمے کا فیصلہ60دنوںکےاندر کر دیا جائے۔ دہشت گردی اور بدعنوانی کے فوری اور جلد فیصلوں کے لئے خصوصی فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ 2۔ اقتصادی اصلاحات : اسکا واحد نقطہئِ ارتکاز علم پر مبنی معیشت کی راہ پر قدم بڑھانا ہو نا چاہئے تاکہ سماجی و اقتصادی تر قی تیزی سے عمل میں آسکے۔ 3۔انتخابی اصلاحات: اس کیلئے آئین میں مندرجہ ذیل اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ صدارتی نظام جمہوریت کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے . پار لیمنٹ کا بنیادی ڈھانچہ و کردار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ممبران کا کام صرف قانون سازی اور قومی اسمبلیوں پر نظر رکھنا ہونا چاہئے لیکن اراکین کو قانونی طور پر وزارت کے لئے اہل نہیں ہونا چاہئے ۔ اس طرح لالچ اور بدعنوانی کا عنصر جو انتخابات کے درپردہ کارفرما ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ جو بھی حکومتی وزراء مقرر کئے جائیں وہ اپنے شعبے کے اعلیٰ ترین ماہرین ہوں اور انکا انتخاب صدر مملکت خود کریں۔ گزشتہ دور میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ تقریباً 11,000 ارب روپے کی لوٹ مار کی گئی جس نے ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا یہ کسی نے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے انتظامی نظام میںبنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ جمہوریت اپنا کام کرسکے ۔ ان میں سے دو اہم ترین تبدیلیاں ہمارے نظامِ تعلیم اور عدالتی نظام میں لانا ضروری ہیں تاکہ ہم ایک علم پر مبنی معیشت قائم کر سکیں۔ بد عنوانوں کو جلد پکڑا جائے اور فوری عبرت ناک سزائیں سنائی جائیں۔ جب تک ایسا نہیں کریںگے پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ ہمیں ان سب کو جنہوں نے قومی دولت کو لوٹا ہے سخت سے سخت سزائیں دینی ہونگی اور ایسا جمہوری نظام لانا ہوگا جہاں آئندہ لوٹ مار کی کوئی گنجائش نہ ہو یہ کام صرف عدلیہ کی مدد سے ہو سکتا ہے اگر یہ نہ ہوا تو ملک کو مزید نقصا ن ہو گا۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں