ایچ ای سی :مستقبل کے لئے راہِ عمل

Friday / Aug 15 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

اکتوبر 2002 میں ایچ ای سی کے قیام کا مقصد ملک میں اعلی ٰتعلیم کے معیار کی بہتری تھا تاکہ پاکستان مضبوط علمی معیشت کی را ہ پر گامزن ہو سکے ۔ 2008 تک کے چھ سال کے نہایت قلیل عرصے میں ہمارے ملک کی کئی جا معات دنیا کی 400 500, اور 600 اعلیٰ درجہ کی جامعات میں شمار ہو گئی تھیں۔ تعلیم کے شعبے میں برق رفتار تبدیلی نے بھارت کو ہلا کر ر کھ دیا اور اس تیز ترین ترقی کی مکمل تفصیلات بھا رتی وزیرِاعظم کوبتائی گئیں جس کے فوری بعد بھارت نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن بند کرکے ایچ ای سی کے طرز کے مضبوط و طاقتور ادرے کے قیام کا فیصلہ کیا(ملا حظہ فرمائیے: ـ’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ ‘ ، از نیہا مہتا ، ہندوستان ٹائمز 22 جولائی 2006 ۔ لہٰذا بھارتی کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق .کے قیام کی منظوری بھارتی کابینہ سے ہو چکی ہے اور لوک سبھا کی منظوری کا انتظار ہے۔ اس کے بعد کے پانچ سال یعنی 2008 سے 2012 کے دوران PPP کی حکومت نے اس اہم ترین ادارے کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوششیں کر ڈالیں جس میں جعلی ڈگریوں کے حامل ’معزز اراکینِ اسمبلی ‘ بشمول ایک وفاقی وزیر برائے تعلیم جن کی اپنی ڈگریاں بھی جعلی تھیںپیش پیش تھے ۔ اگر سپریم کورٹ نے 2011 میں میری دائر کردہ پٹیشن کے حق میں فیصلہ نہ دیا ہوتا تو آج یہ ادارہ موجود نہ ہوتا۔ جامعات کا معیار ان کی عمارتوں سے نہیں بلکہ انکے اعلیٰ تخلیقی اساتذہ سے ہوتا ہے ۔جو کہ بین الاقوامی مقابلے کے لئے تحقیقی ماحول قائم کر سکیں۔جامعات کی شمار بندی زیادہ تر ان کی تحقیقاتی پیداواری صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے ، ادارے کا رقبہ اور اس کی عمارت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی البتہ Ph. D. اساتذہ کے معیار اور تعدادپر شمار بندی کی جاتی ہے۔ جامعات کے عالمی شماریات کااہم جزو جامعات میں کی جانے والی تحقیقات کی بین الاقوامی حوالے ، جریدوں کا معیار جن میں ان جامعات کی تحقیقات شائع ہوں ، بین الاقوامی اسناد حق ایجاد ، پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کی پیداوار،پی ایچ ڈی سطح کے اساتذہ اور طلبہ کا تناسب، بین الاقوامی اعزازات اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ایچ ای سی کی ترقی کے لئے مندرجہ ذیل اقدام پر فوری عملدرآمد ضروری ہے ۔ 1 ۔ ہماری جامعات کے 20,000 اساتذہ میں سے صرف چوتھائی کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے مگر افسوس ان میں سے بیشتر تحقیق کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اگر ہم عالمی معیار کی جامعات قائم کرنے کے خواہشمند ہیں توایچ ای سی کی کوشش ہونی چاہئے کہ اگلے پانچ سالوں میں تقریباً 10,000 طلبہ ( 2,000طلبہ سالانہ)کو دنیا کی اعلیٰ جامعات میں Ph. D. کرنے کے لئے بیرون ملک بھیجا جائے۔ اور ہر پی ایچ ڈی اسکالر کو وطن واپسی سے ایک سال پہلے ہی نوکری دے دی جائے اور ساتھ ہی 100,000 امریکی ڈالر تحقیقی گرانٹ بھی دی جائے جیسا کہ 2004 سے 2008 کے دوران میری نگرانی میں ہو تا تھا تاکہ بیرونِ ممالک سے پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء فوری طور پر تحقیقی ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیںاور اگلے تین سالوں کے فوری بعد انہیں پوسٹ ڈاکٹرل فیلوشپ کے لئے بھیج دیا جائے جس سے ان کا ہنر اور بھی نکھر جائے۔ ہماری جامعا ت کی ترقی کے لئے یہ اب تک کا واحد اہم ترین پروگرام ہے ۔میں وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اور وزیر برائے تعلیم و تربیت سے درخواست کرتاہوں کہ اس پر جلد از جلد عملدرآ مد کیا جائے ۔ 2 ۔جہاں تمام جامعات کو مضبوط بنایاجائے وہاں ان ہی میں سے دس بہترین جامعات کو منتخب کر کے عالمی معیار کی تحقیقی جامعات بنائی جائیں۔بہت سے ممالک اس حکمت ِعملی پر کامیابی سے عمل کر رہے ہیں۔ان میں سے ہر جامعہ کی مختص کردہ گرانٹ کو تین گنا کر دیا جائے ، کم از کم 10 ارب روپے دس سال کے عرصے میں بطور ترقیاتی فنڈز دئیے جا ئیں تاکہ ان کے پاس تقریباً 1,000 پی ایچ ڈی کی سطح کے اساتذہ موجود ہو جائیں (جو کہ کنٹریکٹ پر رکھے جائیں جن کی باقاعدہ بین ا لاقوامی جانچ کی جائے ور اچھی کارکردگی نہ ہونے کی بناء پر فوری فارغ کر دیا جائے ) اور تقریباً 3,000 پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی طلبہ موجود ہوں۔ 3۔اسی طرح ہمیں اپنے کم ازکم چھ تحقیقی مراکز کو منتخب کرکے مزید ترقی دے کر اعلیٰ سطح تک پہنچانا چاہئے۔ ان مراکز کو ’قومی تحقیقاتی مراکز کے نام سے منسوب کیا جائے اور انہیں بھی اچّھے پی ایچ ڈی اساتذہ ، جدید آلات وتحقیق کے لئے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ بھی IITs اور بھارتی سائنسی اداروں کے بالمقابل کھڑے ہو سکیں۔ہر ایک مرکز میں کم از کم 200 اعلیٰ و معیاری پی ایچ ڈی کی سطح کے اساتذہ اور تقریباً 600 پی ایچ ڈی کی سطح کے طلبہ ہوں ۔ ان کی بھی مختص کردہ گرانٹ تین گنا کر دی جائے اور دس سال کے دوران تقریباً 10ارب کی گرانٹ ان کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دی جائے 4۔ جوذہین و نوجوان طلباء و طالبات تحقیق کو اپناذریعہِ معاش بنا نا چاہتے ہیں انہیں پر کشش تنخواہوں کے ذریعے اس طرف متوجہ کرنا ہوگا۔ 2005 میں میں نے جامعات میںا یک نئی نقلابی اسکیم متعارف کرائی تھی ، یہ ٹینیور ٹریک سسٹم تھاجس کے تحت ایک پروفیسر کی تنخواہ وفاقی وزیر کی تنخواہ سے چار گنا زیادہ رکھی گئی تھی۔ جبکہ تقرری غیر مستقل بنیادوں پر رکھی گئی تھی اور ساتھ ہی ان اساتذہ کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیتوں کی باقاعدہ بین الاقوامی جانچ کروائی جاتی تھی۔ اور جن کی کارکردگی معیاری سطح تک نہیں پہنچتی تھی اس کے کنٹریکٹ کی توسیع نہیں کی جاتی تھی ۔ یہ اسکیم کچھ عرصے تو صحیح چلی لیکن ہماری وزِارتِ خزانہ کی کوتاہ بینی کی وجہ سے ٹینیور ٹریک سسٹم کی تنخواہیں اس تناسب سے نہیں بڑھائی گئیں جیساکہ بی پی ایس سسٹم کی بڑھائی گئیں اس طرح اب ان دونوں سسٹمز کی تنخواہوں میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔ ٹینیور ٹریک سسٹم کو تیزی سے بحال کرنے کی ضرورت ہے اس میں تنخواہیںBPS کے مقابلے میں کم از کم 3 گنا زیادہ ہوں تاکہ ہماری نوجوان نسل تعلیم و تحقیق کی طرف راغب ہو ۔ 5۔ایک اور اہم پروگرام ایچ ای سی کی طرف سے شروع کیاگیا تھا جس کے تحت نئی عالمی معیار کی جامعات کا دیگر اعلیٰ و معیاری عالمی جامعات کے ا شتراک سے قیام ہونا تھاجس میں جرمنی ، آسٹریا، اٹلی اور چین کی جامعات شامل تھیں ۔ یہ انجینئرنگ ، سائنس وٹیکنالوجی کی جامعات BS/MS/Ph.D. کے کورسز کراتیں اور غیر ملکی جامعات کی ڈگریاں پاکستان ہی میں ملتیں ۔اس پروگرام کا ایک اور مقصد یہ بھی تھا کہ ہر جامعہ میں ٹیکنالوجی پارک بھی قائم کئے جاتے جہاں غیر ملکی کمپنیاں اپنی نئی مصنوعات کی تحقیق و ترقی کے مراکز قا ئم کرتیں۔ یہ مثالی پروگرام پاکستانی طلبہ کو پاکستان ہی میں اعلیٰ غیر ملکی جامعات سے ملک ہی میں ڈگریاں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا۔یہ پروجیکٹ ECNEC نے فروری 2008 میں منظور کیا تھا لیکن افسوس مئی 2008 میں اسے جماعتیں شروع ہونے سے تین ماہ پہلے ختم کر دیا گیا۔اسی پروگرام کو مختلف انداز سے شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر مجھ سے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی درخواست کی جائیگی تو میں بخوشی اس کے لئے حاضر ہوں۔ 6۔ 2004 میں ایچ ای سی نے چانسلروں کی کمیٹی قائم کی تھی۔ یہ ایک نہایت ہی اہم کمیٹی ہے جو کہ صدرِ مملکت، وزیرِاعظم، چار گورنروں (جو کہ صوبائی جامعات کے چانسلر بھی ہوں)، صدر آزاد جموں و کشمیر، چاروں وزرائے اعلیٰ (جنہیں مدعو کیا جاتاہے کیونکہ کسی بھی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے ان کی ضرورت پڑسکتی ہے)، ڈپٹی چئیر مین پلاننگ، چئیر مین ایچ ای سی اور مدعو کرنے پر وزیرِ خزانہ پر مشتمل ہے۔یہ کمیٹی اہم فیصلے کر سکتی ہے اور اعلیٰ تعلیمی شعبے کے لئے فنڈز بھی مختص کر سکتی ہے۔لیکن اس اہم کمیٹی کا ایک بھی اجلاس گزشتہ سات سالوں میں نہیں ہواہے۔ اسی سے گزشتہ حکومت کی لا پروائی اورعدم دلچسپی کا اندزہ ہوتا ہے۔ نئی حکومت کی آمد سے امید کا چراغ روشن ہوا تھا کہ اعلیٰ تعلیمی شعبے کو اس کی ضروری مدد و حمایت ملے گی بالخصوص پی ایم یل (ن( کے منشور کی روشنی میں جس میں انہوں نے ایچ ای سی کی خود مختاری اور مضبوطی کاوعدہ کیا تھا۔اس منشور میں اور بھی بہت سے وعدے تھے لیکن سب سے اہم وعدے شعبہ تعلیم سے متعلق ہیں ۔ یہی وقت ہے کہ حکومت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے کیونکہ تعلیم سے ہی ہمارا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں