انتخابی اصلاحات

Friday / Aug 08 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پچھلے انتخابات میں ہوئی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے ۔ سب کا اتفاق رائے یہی ہے کہ یہ انتخابات قطعی شفّاف نہیں تھے حتی کہ انتخابی سیاہی میں بھی دھاندلی کی گئی تھی تاکہ تصدیق کے لئے انگو ٹھوں کے ان مٹ سیاہی کے نشانات ہی نہ ملیں۔جمہوریت کی اس فریب کاری میں تمام نہیں تو زیادہ تر سیاسی پارٹیاں شامل ہیں۔ جمہوریت کی مستقل ناکامی نے گزشتہ دہائیوں میں فوج کو مداخلت کرنے پر کئی بار مجبور کر دیا تاکہ بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانیوں کو روکا جا سکے اور ملک کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ صحیح معنوں میں جمہوریت لانے کے لئے انتخابی نظام میں بنیادی اصلاحات لانے کی سخت اور فوری ضرورت ہے اگر ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ فوری اور شفّا ف انصاف مہیّاکیا جائے تاکہ کوئی بھی بدعنوان افسر بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور بدعنوانی کرن والوں کو ایسی مثالی سزائیں دی جائیں کہ کوئی دوسرا شخص ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہ کرے۔ گزشتہ حکومت بلا شبہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بدعنوان حکومت تھی۔ بمطابق ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (Transparency International) تقریباً 8,500 ارب روپے حکومت کے پہلے چار سال میں لوٹے گئے اور پانچ سال تک یہ لوٹ مار 11,000 روپے (جو تقریباً 150 امریکی ڈالر اس وقت کی قیمت بدل کے حساب سے) تک پہنچ گئی جسے افسوس آج ہم 5 سالہ’ ’کامیاب جمہوریت ‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اکثر اعلیٰ عہدیداران ان ہیراپھیر یوں میں شامل تھے حتیٰ کہ سابق وزیراعظم صاحب کے توانائی کے منصوبے (rental power projects ) کی وجہ سے تمام صنعتیں تباہی کے دہانے پر آکھڑی ہوئیں ۔ سابق وزیر خزانہ نے فرمایا تھا کہ صرف FBR میں ہر سال 500 ارب روپے بدعنوانی اور رشوت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ان بد ترین بدعنوانیوں کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت 60 روپے فی ڈالر سے 110روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی، ملکی قرضے دگنے ہوگئے اور لاکھوں کو غربت کے اندھیروں میں جھونک دیاگیا جن میں سے بہت سوں کو خودکشی کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ یہ وہ ’جمہوریت ‘ نہیں ہے جس کا خواب ہمارے قائد نے دیکھاتھا، جہاں بدعنوان لوگ حکومت میں آتے ہیں اور اورعام آدمی کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں؟ بہت سی امیدیں نئی پی ایم ایل (ن) سے وابستہ تھیں کی بر سرِ اقتدار آتے ہی سب سے پہلے ان مجرموں اور کو بدعنوانوں کو خواہ وہ کتنے ہی طاقتور ہوں مثالی سزائیں دیتی لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔بلکہ مخالف پارٹیوں کا یہ کہنا ہے کہ پی ایم ایل (ن) پی پی پی کے خلاف کوئی قدم اس لئے نہیں اٹھائے گی کیونکہ یہی سلوک پی پی پی کی حکومت اگلی مرتبہ بر سرِ اقتدار آکر ان کے ساتھ کرے گی ۔یہ ہمارے ملک کے لئے نہایت شرم کا مقام ہے اور جمہوریت اس وقت تک پنپ نہیں سکتی جب تک کہ فوری اور مؤثر انصاف نہ قائم کیا جا ئے۔ انتخابی اصلا حات کے لئے سب سے ضروری یہ ہے کہ انتہائی طاقتور اور شفاف انتخابی نظام قائم کیا جائے تا کہ اس کے تحت جو بھی منتخب ہو وہ ایماندار اور قابل ہو۔ ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں کوئی بھی پارلیمنٹ ("Majeleis") کا رکن اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک کہ اسکے پاس کم از کم ماسٹرز کی ڈگری نہ ہو ۔ اس سے یہ یقین دہانی ہو جاتی ہے کہ کم ازکم پارلیمنٹ کے اراکین ملک کے مشکل مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور قانون سازی میں بھی اچھا کردار ادا کر سکیں گے۔ لیکن پاکستان میں افسوس کہ ہم اس کے بر خلاف چل ہیں۔ بیچلرز ڈگری کی شق متعارف کرائی گئی تھی لیکن یہاں تو جعلی ڈگریوں کا تھوک کا بازار گرم ہو گیا اور تقریباً 200 اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جعلی ڈگریوں کے ساتھ منتخب ہوگئے۔ بلکہ ہم تو گنیز کتاب برائے عالمی ریکارڈ (Guinness Book of World Records) میں اندراج کے مستحق ہیں جہاں گزشتہ حکومت کے ایک جعلی ڈگری اور اسناد کے بل بوتے پر منتخب ہوئے اور پھر وفاقی وزیر بھی بن گئے۔ ان ’معزز‘ حضرات کو جیل کی ہوا کھا نی چاہئے تھی لیکن انہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیں اور اب قومی ٹیلی وژن پر پی ایم ایل (ن) کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ان میں سابق وفاقی وزیر برائے تعلیم بھی شامل ہیں۔ کچھ مخصوص اقدام جن کی بدولت پاکستان میں صحیح اور مکمل جمہوریت قائم کی جا سکتی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: 1 ۔نظامِ عدل میں بنیادی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے تاکہ جلد اور صحیح انصاف کو یقینی بنایا جا سکے اور فیصلے کے لئے دو مہینے سے زائد وقت درکار نہ ہو۔ اس کے لئے ہزاروں نئے ججوں کی تقرری کی ضرورت ہوگی اور ان کو فیصلے سختی سے مقررہ وقت تک سنانے کی تنبیہ ہو گی۔ورنہ ان کو برخاست کر دیا جائے گا۔ 2۔ قومی اور صوبائی ممبران کے لئے تعلیمی قابلیت کی کم از کم حدماسٹرز ڈگری متعارف کرنے کی ضرورت جو کہ پہلے ہی پڑوسی ملک ایران میں کامیابی سے رائج ہو چکی ہے۔ 3 ۔ ایک خود مختار عدالتی کونسل قائم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ وفاقی اور صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے امیدوار کی قابلیت اور ساکھ کی اچّھی طرح سے جانچ پڑتال کریں۔ اس مقصد کے لئے تقریباً 120 دن کا وقت دیا جانا چاہئے نہ کہ صرف سات دن کا جو کہ قوم کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ اس عدالتی کونسل کے اراکین سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ہونے چاہئیں اور انہیں حکومت کی بجائے چیف جسٹس پاکستان مقرر کریں ۔ 4۔ موجودہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دینا چاہئے اور اس کی جگہ چیف جسٹس پاکستان ایک نیا الیکشن کمیشن قائم کریں جو ججوں اور غیر جانبدار شہریوں پر مشتمل ہواورجو غیر سیاسی اور بے داغ کردار کے کے مالک ہوں ۔ موجودہ الیکشن کمیشن کے پانچ میں سے چا اراکین دو اہم سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے رکھے گئے تھے۔ جنہوں نے انتخابی کمیشن کو جاندار اورمضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ -5 انتخابات فوج کی مدد سے ہونے چاہئیں فوجیوںکی تقرری ہر پولنگ اسٹیشن کے اندرہونی چاہئے (صرف باہر ہی نہیں )۔ تاکہ پوری انتخابی مہم اور حق ِ رائے دہی کے عمل کو قابو میں رکھ سکیں اور کسی بھی قسم کی دھاندلی کی فوری خبر الیکشن کمیشن کو دیں۔ 6 ۔برقی نظامِ حق رائے دہی متعارف کرایا جائے جیسا کہ بھارت میں کیا گیا ہے ۔ اور ہر پولنگ اسٹیشن میں کیمرے لگائے جائیں جو کہ ایسی اہم جگہوں پر نصب ہوں کہ انتخابی مہم کی پوری ریکارڈنگ کر سکیں اور اگر دھاندلی ہو رہی ہو تو اس کے ثبوت مہیّا ہو سکیں ۔ 7 ۔نادرا (NADRA) کو حق رائے دہندگان کی سیاہی اور biometric عمل کی شناخت کے لئے استعمال کیاجائے اور صرف ان کی تصدیق شدہ مہر بند سیاہی کو استعمال کیا جائے ۔ 8 ۔ انتخابات کے لئے عبوری حکومت کے سربراہ کو چیف جسٹس پاکستا ن ا ور معزز شہریوں کے مشورے سے تعینات کیا جائے اور ا س میں سیاسی پارٹیوں کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ 9 ۔برطانوی پارلیمانی نظامِ حکومت پاکستان میں نا کام ہو گیا ہے ۔ کیونکہ سیاست بدعنوانوں کے لئے ایک کھیل بن گئی ہے ۔ ہماری سیا ست یہ ہے کہ 5کروڑ خرچ کریں اور 50کروڑ حکومتی فنڈ سے لوٹ کر کمائیں۔ اسے تبدیل کر کے صدارتی نظام جمہوریت کے نفاذ کی ضرورت ہے ۔ جہاں پارلیمنٹ کا کام صرف قانون سازی اورحکومتی پروجیکٹ کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔ اس صدارتی نظامِ جمہوریت میں وزراء پارلیمنٹ کے ممبران میں سے نہیں بنائے جا سکتے بلکہ وفاقی و صوبائی وزراء کاانتخاب بھی صدر کرتاہے جو کہ ٹیکنوکریٹ ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ کے ممبر نہیںہوتے ۔اس طرح ایک ہی قدم سے صوبائی اور قومی اسمبلی میں شامل ہونے کےلا لچ کا عنصر بھی فوری طور پر ختم ہو جائے گا۔ 10 ۔ آخر میں سب سے اہم یہ ہے کہ تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کو اوّلین ترجیح دینے کی ضمانت آئینی طور پر حاصل کی جائے تاکہ پاکستان زیادہ منافع بخش، علم پر مبنی معیشت (Knowledge Economy) کی طرف راغب ہو اور اپنی اصل دولت یعنی20سال سے کم عمرنوجوان جن کی آبادی تقریباً 10کروڑ ہے وہ ملک کا مستقبل روشن کر سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں