معیاری افرادی قوت اور اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کی ضرورت

Friday / Jul 04 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان کو ایک ناقابل ِ رشک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ تعلیم پر اپنی مجموعی ترقیاتی پیداوار کا 2% سے بھی کم خرچ کرتا ہے جس کی بدولت اس کا شمار دنیا کے آٹھ تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے ، یہ انتہائی شرم کا مقام ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدمیں اس وقت کے اخراجات آج سے 13 سال پہلے جب میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی تھا کے اخراجات کا محض ایک مختصر سا حصّہ رہ گئے ہیں اور موجودہ اور پچھلی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ 2002ء سے2008ء کے چھ سالہ قلیل عرصے میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی شاندار ترقی نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں تھیں اتنا ہی نہیں بلکہ بھارتی وزیرِاعظم کو 22 جولائی 2006 ء کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ترقی پر ایک مکمل رپورٹ پیش کی گئی جس کی تفصیلات 23 جولائی 2006 ء کو نیہا مہتا نے ہندوستان ٹائمز میں ’بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ ‘ کی شہ سرخی کے نام سے شائع کیں۔ افسوس کہ یہ ترقی بہت قلیل مدّت ہی قائم رہ سکی کیونکہ PPP حکومت نے آتے ہی اس ادارے کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کر ڈالیں جن میں وفاقی وزیر برائے تعلیم بھی شامل تھے جنہوں نے یہ کرسی حاصل کرنے کے لئے جعلی ڈگری استعمال کی تھی اس کے ساتھ انہیں ان 200 ارکان پارلیمنٹ کی شہ بھی حاصل تھی جن کی بھی ڈگریاں جعلی تھیں۔ انہوں نے ایچ ای سی پر بارہا حملے کئے اس کے اختیارات اور بجٹ میں بہت زیادہ کٹوتی کردی اور بڑی بے رحمی سے اس ادارے کو تباہ کرنے کا پرعزم ارادہ کرلیاتھا۔ایچ ای سی کی تحلیل کا نوٹس بھی جاری کردیا گیا تھا کہ اس کے ٹکڑے کر کے ہرصوبے میں الگ الگ بانٹ دئیے جائیں تاکہ ایچ ای سی کو ڈگریوں کو جعلی قرار دینے کا ’سبق سکھایا جا سکے‘۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان میری پٹیشن دائر کرنے پر فوری عملدرآمد نہ کرتا اور ان کے اس نوٹس کو غیر قانونی قرار نہ دیتا تو آج ایچ ای سی تاریخ کا حصّہ بن چکا ہوتا ۔ خوش قسمتی سے پی ایم ایل (ن) نے میرے موقف کی تائید کی اور محترمہ ماروی میمن سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں میری پٹیشن کی ساتھی پٹیشنر تھیں۔ اس ادارے کی خود مختاری اور مضبوطی کے لئے یہ ضروری تھا۔اس کے ساتھ ساتھ میں پی ایم ایل ۔ق ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا بھی نہایت شکر گزار ہوں جنہوں نے اس قانونی جنگ میں ، اس ادارے کی بقاء کے لئے پی پی پی کے خلاف میراساتھ دیا۔ سپریم کورٹ نے میری دائر کردہ پٹیشن کے حق میں دئیے گئے فیصلے میں بالکل صاف صاف بتا دیا ہے کہ ایچ ای سی وفاق کاحصّہ ہے اور اٹھارویں ترمیم کے تحت اس کے حقوق آئین کے تحت محفوظ ہیں۔سندھ ایچ ای سی کا قیام نہ صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ توہینِ عدالت بھی ہے۔ میری اور محترمہ ماروی میمن (پی ایم ایل ۔ن)کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن کافی عرصے سے طوالت کاشکار ہے۔امید ہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ اس مقدمے پر غور کریں گے اور اس سے پہلے کہ اس اعلیٰ تعلیمی ادارے کو مزید نقصان پہنچے،صحیح فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ 2002 ء سے2008 ء میں ایچ ای سی کی حاصل کردہ شاندار ترقی نے بہت سی بین الاقوامی ایجنسیوں سے داد و تحسین وصول کی جن میں اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور برٹش کونسل شامل ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے پروگراموں کا تجزیہ پروفیسر مائیکل روڈے (Prof Michael Rode)، چئیرمین اقوام متحدہ کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی نے 2008ء میں مندرجہ ذیل الفاظ میں تحریر کیا، ’’دنیا کے مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیمی رتبے کو دیکھا جائے تو بلاتفریق رائے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ان حالیہ برسوں میں جس ملک نے بین الاقوامی سطح پر بڑی برق رفتاری سے ترقی کی ہے وہ ہے پاکستان۔ کسی بھی ملک میں اعلیٰ تعلیمی میدان میں ایسی شاندار ترقی دیکھنے میں نہیں آئی جو پاکستان نے ان چھ سالوں میں حاصل کی‘‘۔ ایچ ای سی پروگراموں کے مفصل تجزئیے کے بعد یو ایس ایڈ نے اپنی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق ’’جب ایچ ای سی قائم ہوئی ابتدا ہی سے اس کا قابلِ ذکر پہلو یہی رہا کہ اس کے ہر عمل میں اعلیٰ معیار اور بہترین کارکردگی کو اوّلیت دی جائے۔ معیار کی سربلندی پر مخصوص توجہ رکھتے ہوئے ایچ ای سی کی قیادت کا اندازِ فکر یہ تھا کہ’’مقدار سے زیادہ ضروری معیار ہے‘‘۔ پی ایم ایل (ن) نے اپنے منشور میں ایچ ای سی کی خود مختاری اور اس ادارے کی مضبوطی کا وعدہ کیا تھا لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے بجٹ کا تعین نہایت افسوسناک ہے۔ حتیٰ کہ مہنگائی کے حساب سے اور گزشتہ حکومت سے جو بھی نقصان پہنچا تھا اس کے حساب سے کسی بھی قسم کی مراعات اس نہایت ہی اہم شعبے کو نہیں دی گئیں۔ایچ ای سی کے بہت سے پروگرام سیاست کی چکّی میں پس کر بند ہو چکے ہیں۔اس میں سب سے اہم پروگرام اساتذہ کو بڑی تعداد میں پی ایچ ڈی کرنے کیلئے ملک سے باہر چوٹی کی جامعات میں بھجوانا تھا ۔2008ء میں تقریباً ایک ہزار طلبہ پی ایچ ڈی سطح کی تربیت کے لئے بھیجے گئے تھے اور 2002ء کے بعد 11,000 وظائف بیرونِ ملک مختلف تربیتی پروگراموں کے لئے دیئے گئے تھے۔ جن میں سے کچھ 5000 طلبہ پی ایچ ڈی سطح کی تربیت اور مابعد ڈاکٹریٹ (postdoctoral) تربیت یا پھر ملکی اور غیر ملکی دونوں اساتذہ کا مشترکہ تربیتی پی ایچ ڈی ( Ph. D sandwich) پروگرام کے لئے بھیجے گئے تھے۔ فنڈ کی کمی کی وجہ سے یہ پروگرام تقریباً بند ہو چکا ہے۔ ایچ ای سی کو چاہئے کہ اس پروگرام کو فوری طور پر بحال کرے اور کم از کم 2000 طلبہ سالانہ (یعنی 10,000 طلبہ اگلے پانچ سالوں میں) مندرجہ بالا پروگراموں میں بھیجنے چاہئیں۔ 2008ء Times Higher Education rankings کے شمار کے مطابق ہماری پانچ جامعات دنیا کی 500 اعلیٰ جامعات میں شمار کی جانے لگی تھیں (جبکہ 2000 میں ایک بھی جامعہ اس صف میں نہیں تھی )۔اب ان میں سے گھٹ کر صرف ایک باقی رہ گئی ہے (نیشنل جامعہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی۔ایک اور پروگرام جومعطل پڑا ہے وہ ہے تحقیق عطیاتی پروگرام ۔ یہ ایچ ای سی کی جانب سے متعارف سست افسری طریقوں کی نذر ہو گیا ہے۔ تیسرا پروگرام جس پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے وہ ہے سائنسی آلات تک مفت رسائی، یہ بھی طوالت کا شکار۔ ایچ ای سی میں افسروں کو سبک رفتار ہوناچاہئے۔ ڈاکٹر مختار احمد سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ بحیثیت چئیرمین ایچ ای سی ان سب معاملات پر نظر رکھیں گے اوراس ادارے میں ایسی جان ڈالیں گے کہ یہ دوبارہ اسی طرح چلنے لگے جیساکہ میرے زیرِسایہ چل رہا تھا۔ اگلے سال کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ نہ تو بڑھے ہوئے افراط زر کی ضرورتوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے نہ تو اس خمیازے کا ازالہ کرتی نظر آتی ہے جو نقصان ایچ ای سی کو گزشتہ حکومت نے پہنچایا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے طلبہ کے اس بڑھتے ہوئے اندراج کا بھی اندازہ نہیں کیا ہے کہ 2003ء میں طلبہ کا شمار 2.7 لاکھ تھا جو اب13 لاکھ تک جا پہنچا ہے۔ ڈگری جاری کرنے والی جامعات کا تناسب بھی 2003ء میں 59 جامعات سے بڑھ کر 159 تک پہنچ گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی شعبے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا ہے وہ پی ایم ایل (ن) کے اعلان کردہ منشور اور عوام سے کئے گئے وعدوں کو صاف جھٹلاتا ہے اور اس سوچ کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ عوام کو ناخوادہ اور تکنیکی طور پر نااہل رکھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حکومتی قیادت کو یہ باور کرنا ضروری ہے کہ ممالک صرف سڑکیں، پُل اور ہزاروں لیپ ٹاپ بانٹنے سے نہیں بنتے۔ ہم اس جدید دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں آپ اس وقت تک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکتے جب تک کہ کم منافع بخش زرعی معیشت سے زیادہ منافع بخش علمی معیشت کی طرف قدم نہ بڑھالیں۔ہمیں سنگاپور، چین اور کوریا سے سیکھنا چاہئے۔ سنگاپور کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی ہے اور وہاں کوئی قدرتی وسائل نہیں ہیں پھر بھی اس کی GDP 300ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ سب سنگاپور نے صرف ایک اہم پہلو پر توجہ مرکوز کرنے سے حاصل کیا۔وہ ہے معیاری افرادی قوت اور اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کا قیام،پاکستان کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں