تعلیم:سماجی و اقتصادی ترقی کی کلید

Friday / Jun 20 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم محض بندروں اور بن مانسوں کے اجتماع کے سوا کچھ نہیں اور ارباب اختیار کے اشاروں پر ہم اس وقت تک ہانکے جاتے رہیں گے جب تک کہ چین، سنگاپور، ملائیشیا، کوریا اور دیگر ممالک کی طرح ہم بھی تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کے لئے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری نہ کریں۔ اس وقت ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں تعلیم ہی سماجی و اقتصادی ترقی کی کلید ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے صنعتی تعمیر و ترقی میں قدرتی وسائل کی دستیابی ہی کافی نہیں بلکہ معیاری افرادی قوت کی موجودگی بھی سب سے اہم عنصر ہے۔ عالمی منڈی میں کم درجہ تکنیکی برآمدات کی کل قیمت میں تیزی سے کمی، درمیانہ درجہ تکنیکی برآمدات کی کل قیمت میں ٹھہرائو اور اعلیٰ تکنیکی برآمدات کی کل قیمت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے لہٰذا اعلیٰ ٹیکنالوجی ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سنگاپور خاص قدرتی وسائل سے مالامال ملک نہیں ہے اس کی پچاس لاکھ نفوس پرمشتمل قلیل آبادی ہے جو کہ کراچی کی ایک چوتھائی آبادی کے برابر ہے اور رقبہ کراچی کے رقبے سے بھی کم تقریباً 865 مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کی کل ترقیاتی پیداوار (GDP) 303ارب ڈالر ہے جو پاکستان کی کل ترقیاتی پیداوار سے کئی گنا زیادہ ہے اور فی کس آمدنی تقریباً 50,000ڈالر ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ یہ سب لی کوان یو کے نظریئے اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جس نے سنگاپور کو اقتصادی دیو بنا دیا ہے۔ انہوں نے سنگاپور پر تقریباً تین دہائی تک حکومت کی۔ بدعنوانوں سے پاک حکومت قائم کی، اعلیٰ معیاری تعلیم کے لئے سر مایہ کاری کی تاکہ ہنرمند افرادی قوّت کی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے۔ انتہائی منظم بنیادی ڈھانچہ وضع کیا تاکہ غیر ملکی سرمائے کی ترسیل فوری اور سہل بنیادوں پر ہو سکے اور مقرر کردہ صنعتی املاک پر جلد کمپنیاں قائم کی جاسکیں اور وہ اپنا کام مہینوں کے بجائے دنوں میں شروع کر سکیں۔ اس قدم نے بھاری پیمانے پر غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دیا نتیجتاً ملک کو کافی منافع حاصل ہوا لہٰذا یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ سنگاپور کی کامیابی ملک میں برآمدات کی وسیع پیمانے پر تیّاری اور اعلیٰ تکنیکی پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ہوئی ۔1980ء میں سنگاپور کا GDPصرف 12ارب امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2013ء میں 303ارب تک پہنچ گیا۔اس وقت تقریباً 3,000 بین الاقوامی کمپنیاں سنگاپور میں مصروفِ عمل ہیں جن میں بہت سی مایہ ناز دوا ساز کمپنیوں نے بھی سنگاپور میں اپنے کارخانے لگائے ہیں۔یہ سب اسی طرح ممکن ہوا جب سنگاپور نے اپنی بہترین جامعات پر توجّہ دی۔ ان میں سنگا پور کی قومی جامعہ (of Singapore National University) سرفہرست ہے جس کا شمار دنیا کی 21ویں اونچی جامعات میں سے ہوتا ہے ۔ سنگاپور کی ترقی کی اصل وجہ ان کے اعلیٰ حکّام کی اپنی قلیل مگر محنتی اور ذہین آبادی پر انحصار ہے کیونکہ سنگاپور نے اپنی ساری توجّہ عالمی معیار کی جامعات اور بہترین کارکردگی کے تحقیقی مراکز قائم کرنے پر مرکوز کر دی تھی تاکہ اعلیٰ تکنیکی صنعت کو معیاری افرادی قوّت بہم پہنچائی جا سکے۔ الیکٹرانکس، ادویات سازی، حیاتی ٹیکنالوجی جیسی منافع بخش مصنوعات کی تیّاری کو اعلیٰ قومی ترجیح دی گئی۔آج سنگاپور کے عام باشندے کی اوسط آمدنی پاکستانی باشندے کی آمدنی سے 40 گنا زیادہ ہے۔ ایک اور مثال کوریا کی بھی ہے جس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرح کوریا بھی1961 ء سے پہلے بدعنوان جمہوریتوں کے عتاب میں تھاجو اس ملک کی ناکامی کا سبب تھیں۔ تب1961ء میں ایک فوجی جنرل،جنرل پارک چنگ حی مسیحا بن کر ابھر ا اس وقت کوریا ایک غریب ملک تھا جہاں کی فی کس آمدنی 72 امریکی ڈالر تھی۔آج اس کی فی کس آمدنی نہایت شاندار طریقے سے بڑھ کر 30,200 امریکی ڈالر ہو گئی ہے اور اس کی مجموعی ترقیاتی پیداوار بڑھ کر 1.423 کھرب امریکی ڈالر ہو گئی ہے۔ جنرل پارک نے عالمی معیار کی جامعات اور تحقیقی ادارے قائم کئے۔ مثال کے طور پر کوریا ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور کوریا ایڈوانس ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی (KAIST) اور سیول قومی جامعہ (Seoul National University) جن کی بدولت الیکٹرانکس، انجینئرنگ سامان، برّی جہاز سازی، گاڑیاں بنانے کے کارخانے اور دیگر دوسری صنعتوں کو اعلیٰ معیاری افرادی قوّت کی شکل میں بے حد منافع میں حاصل ہوا۔ ملائیشیا سے بھی ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 1980ء میں ملائیشیا کا GDP صرف 26 ارب امریکی ڈالر تھا اور اس کی بیشتر معیشت کا انحصار کم منافع بخش زراعت اور کان کنی کے شعبے پر تھا۔مہاتیر محمد کی قیادت میں اعلیٰ تکنیکی مصنوعات سازی کو بےحد ترجیح دی گئی جس کے نتیجے میں 2013ء میں ملائیشیا کی GDP 312ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچی اور آج ملائیشیا دنیائے اسلامی کی کل اعلیٰ تکنیکی برآمدات کا 86.5% حصّہ بر آمد کرتا ہے۔ICT کی صنعت پر بھا رتی ارتکاز کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ تقریباً دو دہائیوں کے اندر ہی بھارتی ICT کی صنعتی پیداوار 44 ار ب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور اب حیاتی ٹیکنالوجی )کی صنعت میں بے پناہ ترقی کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پاکستان میں ایک کے بعد ایک جمہوریت آتی ہے اپنی من مانی سے لوٹ مار اور چور بازاری کا بازار گرم کر تی ہے اور ملک کو قلّاش کر کے چلی جاتی ہے ۔شعبہ توانائی میں دھاندلی ہوئی اس کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی مہربانی سے توانائی کی مد میں بد ترین بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہونے والے شدید بحران کی بدولت ہزاروں صنعتیں بند ہو گئیں اور لاکھوں ملازمین بے روزگار ہوگئے ۔ پانچ سالہ اقتصادی بد حالی جیسی ’مستحکم جمہوریت‘ کے بعد اب پاکستانی عوام کی ساری امیدیں پی ایم ایل (ن) سے وابستہ ہیں ۔ سچ کہوں تو تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی متعارف کراکے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے ’ نہ کرنے سے دیر سے کرنا بہتر ہے ‘۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ غلط فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر 100,000 لیپ ٹاپ بانٹنے کے لئے 4 ارب روپے خرچ کئے جا ئیں گے جبکہ یہ پیسہ عالمی سطح کی جامعہ کو تعمیر کرنے کے لئے بھی لگایا جاسکتا تھا جس سے طلبہ نسل در نسل ان جامعات مستفید ہوتے ۔ 17-23 سال کی عمر کے طلبہ کی اوسط اندراج صرف 8% ہی ہے لہٰذا عالمی سطح کی جامعات کے قیا م کی اشد ضرورت ہے۔ ایچ ای سی کی مضبوطی کے لئے اس کو گزشتہ حکومت سے پہنچے شدید نقصانات کا ازالہ بہت ضروری ہے ۔ یہ نام نہاد ’جمہوریت ‘ جسے ملک کی نجات کا ذریعہ کہہ کر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اس نے گزشتہ 6 سالوں میں ملکی قرضوں کو دگنا کر دیا ہے اور اس ملک کو بیرونِ ممالک سے لئے گئے قرضوں کے سود کے گرد چکّر کاٹنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ 2004ء میں کابینہ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ ا یک ایسا نظریاتی حکمتِ عملی کا منصوبہ تیّار کریں جس سے پاکستان علم پر مبنی معیشت میں منتقل ہو سکے لہٰذا دو سال کی انتھک محنت، کئی ہزار مختلف سرکاری اور نیم سرکاری شعبہ جات کے ماہرین کی مشاورت کے بعد ایک 320 صفحاتی مسوّدہ تیّار کیا گیا جسے اگست2007 ء میں کابینہ نے منظور کیا۔ اس پر عمل درآمد کے لئے بین الوزارتی کمیٹی قائم کی گئی لیکن پھر حکومت تبدیل ہو گئی اور اس کی تجاویز پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔ پچھلے سال میں خود جناب شہباز شریف سے ملا اور یہ مسوّدہ ان کے حوالے کیا لیکن اب تک اس میں سے بہت کم کام کیا گیا ہے۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پر پاکستان جتنے اخراجات کرتا ہے اس نے اسے دنیا بھرمیں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ جبکہ پی ایم ایل کے منشور کے مطابق تعلیم پر زیادہ سے زیادہ اخراجات کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔پاکستان کی کہانی ایسی غمگین کہانی ہے جہاں جاگیردارانہ نظام کے مضبوط شکنجے نے ترقی کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں کیونکہ جاگیردارانہ سوچ تعلیم پرقطعی سرمایہ کاری کے حق میں نہیں ہے ایسا کرنے سے پارلیمنٹ پر ان کا تسلّط قائم نہیں رہ سکے گا۔ حتیٰ کہ یہ لوگ تو فوری اور شفّاف انصاف تک کے حق میں نہیں ہیں بدعنوانی ان کی جڑوں میں موجود ہے۔ صدافسوس کہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں جمہوریت ایک منافع بخش کاروبار کے سوا کچھ نہیں ہمارے ’معزز‘ سیاستدان انتخابات کے دوران 50 لاکھ روپیہ لگاتے ہی اس لئے ہیں کہ حکومت میں آنے کے بعد اس کا کئی گنا کمالیں گے۔ ناخواند گی نے ہمارے عوام کو بندروں اور بن مانسوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے ان حالات میں قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال کی امیدیں اور تخیّلات بھی ماند پڑ گئے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں