اگر ہمارے تحقیقی ادارے مضبوط ہوں

Tuesday / Mar 11 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس میں اس موجودہ دور میں حیرت انگیز دریافتیں ہو رہی ہیں۔ ایک خاص مسئلہ جس سے بہت سے خاندانوں کے کافی افراد اثر ا نداز ہوتے ہیں وہ ہے موٹاپا ۔ یہ ذیابطیس، دل کی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کی جڑ ہے۔عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق دنیا کی ایک تہائی آبادی اس ’موٹاپے‘ کے مرض میں مبتلا ہے۔ یعنی تقریباً دو ارب سے زائد افراد اس کا شکار ہیں۔اس کی کئی وجوہات دریافت کی گئی ہیں جن میں جنیاتی، ماحولیاتی اور متعدی عوا مل شامل ہیں۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ موٹاپا خاندانوں میں چلتا ہے یعنی اگر والدین موٹے ہیں تو ان کے بچّے بھی زیادہ تر موٹے ہی ہوتے ہیں۔ ’موٹاپے کا جین ‘ (جسے FTOبھی کہتے ہیں)اب سے کچھ ہی سال پہلے دریافت ہوا ہے اور 16% یورپیوں میں یہ پایا گیا ہے۔ایک اور وجہ جس سے موٹاپے کا تعلق ہے وہ ہے نیند کی کمی۔حیرت کی بات ہے کہ جب کوئی جاگ رہا ہوتاہے تو وہ زیادہ حرارے استعمال کررہا ہوتا ہے بہ نسبت سوتے ہوئے۔ ایک امریکہ کے ادارے نے اپنے ایک مطالعے کے دوران جس میں 87,000 امریکی شامل تھے دریافت کیا کہ موٹاپے کا تناسب ان لوگوں میں زیادہ پایا گیا جو کہ دن بھر میں چھ گھنٹے سے کم نیند لیتے تھے بہ نسبت ان لوگوں کے جو دن بھر میں 6-9ھنٹے کی نیند پوری کرتے تھے۔نیند کی کمی کی وجہ سے بھوک لگنے والے ہارمونز (ghrelin اور leptin ) میں بے تر تیبی کے نتیجے میں زیادہ بھوک لگتی ہے اور نمکین و میٹھی غذا کی طرف رغبت بڑھ جاتی ہے۔موٹاپے سے متعلق ایک اور دلچسپ دریافت یہ ہے کہ موٹے بچّوں اور بڑوں میں ایک مخصوص وائرس (Adenovirus36) دریافت ہوا ہے۔ یہ وائرس مرغیوں اور جانوروں میں بھی شرحِ تحول کو سست کر دیتا ہے جس کے نتیجے میںوہ موٹے ہو جاتے ہیں بہت سے دیگر محرکات بھی شناخت ہوئے ہیں جن میں ایک مرکّبBPA (bisphenol A) ہے جو کہ کھلونوں، پلاسٹک لفافوں، دانت برش اور پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ یہ مرکّب قدرتی ہارمون ایسٹروجن کی نقل کرسکتا ہے اور اسطرح فربہی نظام اور تحول کو بے ترتیب کر سکتا ہے ۔ بہت سے لوگ پرہیزی مشروبات لیتے ہیں یہ سوچتے ہوئے کہ اس میں کم حرارے ہونگے اور یہ انہیں دبلا کرنے میں مدد دینگے لیکن حیرت انگیز دریافت یہ ہے کہ وہ مشروبات جن میں مصنوعی مٹھاس ہوتی ہے وہ دراصل آپ کو مزید موٹا کرتے ہیں ! امریکی محققین (Terry Davidson اور ان کے ساتھی) یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ جب مصنوعی مٹھاس والی غذا چوہوں کو دی گئی تو ان کا وزن بڑی تیزی سے بڑھا۔ یہ دریافت ہوا کہ ا س مصنوعی مٹھاس کی وجہ سے ہمارے جسموں میں موجود قدرتی حرارے ناپنے کا نظام بے ترتیب ہو جاتا ہے نتیجتاً غذا کی طلب بڑھ جاتی ہے اور کھانا زیادہ کھایا جاتا ہے ۔ایک اور حیرت انگیزبات پتہ چلی ہے کہ چربی کا کم کرنا بھی چربی ہی کی ایک قسم سے ممکن ہے۔ یعنی کتھئی چربی ۔ اس چربی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ خاص چربی حرارے جلانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ لہٰذا جو غذا ہم کھاتے ہیں اسے فوری استعمال کرتے ہوئے حرارت میں تبدیل کرتی ہے۔ تقریباً 50گرام کتھئی چربی 500حرارے بغیر کسی ورزش کے جلانے کے لئے کافی ہے۔اس کتھئی چربی کے خلیوں میں ایک خاص پروٹین ہوتا ہے۔جو غذا کو حرارت میں تبدیل کر نے میں مدد دیتا ہے ۔جبکہ یہ خاص پروٹین عام چربی میں نہیں ہوتا۔کتھئی چربی کچھ لوگوں میں موجود ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ بات اب سمجھ میں آگئی ہے کہ کیوں کچھ لوگ موٹے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ دبلے جبکہ دونوں ایک ہی مقدار کے حرارے لے رہے ہوں۔کتھئی چربی چھوٹے بچّوں میں زیادہ مقدار میں ہوتی ہے جو کہ عمر کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتی ہے اور 40سال کی عمر میں یہ مکمل طور پر غائب بھی ہو سکتی ہے۔اس چربی کو کسی طرح محفوظ کر نے کے لئے بھی تحقیق کی جارہی ہے۔ بہت سی کمپنیاں بھوک نہ لگنے کی دوائیاں تیار کر رہی ہیں لیکن ان سب کے مضر اثرات ہیں۔لہٰذا موجودہ صورتحال میں وہی پرانا طریقہ یعنی ورزش اور اس کے ساتھ غذا پر قابو ہی اس موٹاپے سے نجات کا حل ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ کھانے جن میں ریشہ ہوتا ہے صحت کے لئے زیادہ مفید ہوتے ہیں کیونکہ انہیں ہضم کرنے کے لئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نتیجتاً کم حرارے حاصل ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح موٹے دردرے آٹے کی روٹی ہضم دیر سے ہوتی ہے اور تقریباً 30% سے زیادہ خوراک بغیر ہضم ہوئے فضلہ بن کر نکل جاتی ہے بہ نسبت اس روٹی کے جو کہ باریک پسے ہوئے آٹے سے تیّار کی جائے۔مراکامی اور ان کے ساتھیوں نے جامعہ ٹوکیو میں 450 خواتین کا سر وے کیا تو ان خواتین کی کمریں کم ناپ کی تھیں جو سخت کھانا کھاتی تھیں ان خواتین کی نسبت جو نر م غذا کھاتی تھیں (بآسانی زود ہضم) ۔غذا میں اعتدال برتنے کے بہت سے فوائد ہیں ان میں سے ایک لمبی عمر بھی ہے ۔اس کا مشاہدہ مٹّی میں رہنے واے کیڑوں ، مکھیوں، چوہوںاور بندروں میں کیا گیا ہے۔ Richard Weindruch اور ان کے ساتھیوں نے بندروں پر 20سال پر محیط ایک تجربہ کیا گیاتھا جس میں بندروں کو 30% کم حرارے والی غذا دی گئی اور ان کی عمریں دوسرے عام بندروں سے قدرے بڑی نکلیں۔ Charles Mobbs اور ان کے ساتھیوں نے ایک مطالعے میں کم غذا کھانے اور لمبی عمر سے تعلق کا مشاہدہ کیا ہے۔اور وجوہات سمجھنے کی کوشش کی ہے۔لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ زیادہ غذا کھانے سے آکسیڈیٹو (oxidative) توڑ پھوڑ کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے گلوکوز تحلول کی وجہ سے خلیوں پر دبائو پڑتا ہے اور خلیوں کی تیزی سے توڑ پھوڑسے کینسر بھی ہو سکتا ہے۔اس سے نجات پانے کے لئے غذا کم کھانے سے خلیوں کے افعال کو (کچھ جینز کی مدد سے) بہتر کیا جاسکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ بھوکے رہنے سے بھی زندگی کا دورانیہ لمبا نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم کھانے سے یہ ممکن ہے۔ایک سوسائٹی' جس کےتین ہزار رکن ہیں (جنہیں CRONIES بھی کہتے ہیں) یہ لوگ محدود حراروں پر مبنی سبزیوں پر مشتمل متوازن غذا کو ترجیح دے رہے ہیں اور نتیجہ صحتمند فوائد۔جامعہ واشنگٹن کے ایک پروفیسر کے مطابق اس سوسائیٹی کے اراکین کے دل 15 سال کم عمر پائے گئے جب انکا موازنہ ان ہی کی عمر کے دوسرے امریکیوں سے کیا گیا۔ ہمارے مذہب میں کم کھانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ اور جدید سائنس بھی اسی مشورے کی تقلید کررہی ہے۔ جن تحقیقات کا یہاں ذکر ہواہے وہ مغرب کی جامعات اور تحقیقی اداروں میں ہوئی ہیں۔ یہ سب کام پاکستان میں بھی ممکن ہے اگرہمارے تحقیقی ادارے مضبوط ہوں۔ پاکستان میں ہماری جامعات میں بڑی ضوافشاں تبدیلیاں رونما ہوئیں بالخصوص اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے پہلے چھ سالوں میں 2002ء سے 2008 تک۔سب سے زیادہ توجہ اساتذہ کی تربیت کو دی گئی لہٰذا ہزاروں ذہین طلبہ کو تربیت اور تعلیم کے لئے یورپ اور امریکہ کی سب سے عمدہ جامعات میں بھیجا گیا۔ وہ اب وہاں سے لوٹ آئے ہیں اور نمایاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ اعلیٰ بین الاقوامی تحقیقی جریدوں میں 2000 میں شاعر ہونے والے 700 تحقیقی مقالے فی سال کی تعداد اب بڑھ کر 2013 میں9000 اشاعت فی سال ہوگئی ہے جو کہ بھارت کی فی لاکھ آبادی کی تحقیقی اشاعت کے تناسب سے زیادہ ہوگئی ہے ۔موجودہ حکو مت کو چاہئے کی ایچ ای سی کے چئیر مین کے لئے بین الاقوامی شہرت یافتہ شخص جو کہ بہترین انتظامی ٓامور اور عمدہ قیادت کی خوبیوں کا حا مل ہو اس کا انتخاب کرے ۔تاکہ وہ انقلاب جو 2003 میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آنا شروع ہوا تھا اسے جاری رکھا جاسکے اور پاکستان بھی حیاتیاتی سائنس اور دیگر شعبوں میں ترقی کرے جس کا براہ راست اثر صحت ، زراعت اور انجینئرنگ پر پڑتا ہے۔ اس طرح سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل کوتیز کیا جاسکتا ہے۔ ایچ ای سی کے قانون مین یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ اس کا چیئر مین تحقیق کی بنیاد پر عالمی شہرت کا حامل ہو۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ سیاسی بنیاد پر تقرّری نہ کرے بلکہ قانون کی اس شق کا احترام کرے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں