Saturday / Feb 15 2014
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
گزشتہ مقالے میں میں نے حیاتیات کے میدان میں رونما ہوئی پیش رفتیں گوش گزار کیں جس میں ترقّی میں تیزی پودوں اورجانوروں بشمول انسانوں کی جنیاتی ساخت کی بہتر سمجھ بوجھ سے متعلق تھی۔ تقریباً 3ارب’حروف ‘ (سالمے۔ molecules) انسانی جینوم میں موجود ہوتے ہیں۔حیرت انگیزطور پر یہ ترتیب بندروں کے جنیات میں موجود ترتیب سے 99% مماثلت رکھتی ہے۔تقریباً 2.985 ارب حروف انسانوں اور بندروں میںیکساں پائے گئے ہیں جبکہ بندروں کے جینوم میں صرف 1% فرق پایا گیا۔بلاشبہ یہ بہت سے لوگوں کے لئے ناقابلِ یقین ہوگا کہ بندروںکی ظاہر ی ساخت ، شکل و صورت، ہاتھوں کی بناوٹ، ذہانت ، قوّتِ گویائی سے محرومی وغیرہ جیسے فرائق بآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جینوم کا ایک حصہ دماغ کی ساخت و حجم کے لئے مختص ہوتا ہے جبکہ دوسرے حصّے جسمانی خدوخال ، نشاستہ ہضم کرنے کی صلاحیت ۔ کسی بھی اوزار کو پکڑنے کا طریقہ اور دیگر مخصوص اندازسے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک امتیازی وصف جارحیت ہے۔کوئی بھی جانور اپنی نسل کو اس بری طر ح سے ختم نہیں کرتا جس طرح انسان نے مختلف جنگوں کے ذریعے کیا ہے جن کی مثالیں ہماری تاریخ میں رقم ہیں۔یہ حقیقت تو سب ہی جانتے ہیں کہ کچھ لوگ اوروں کی نسبت زیادہ جارحیت پسند ہوتے ہیں ۔انتہائی معاملات میں یہ جارحانہ صلاحیتیں انہیں مجرم بنادیتی ہیں اور پھر وہ سنگین جرائم کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔کیا ہم منتخب افزائش نسل کے طریقوں سے یہ جارحانہ خاصیت ختم کر سکتے ہیں ؟ یہ تجربہ جانوروں پر کیا جا چکاہے اور انسانوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ 1970 ء روس کے شہرنوووسی برسک(Novosibirsk ) میں علم الخلیات و جینیات کے ادارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیاگیا جس میں چوہوں کو ایک نسل سے جدا کرکے 30 سال تک جارحیت اور سدھانے کی صلاحیتوں کی افزائش کی گئی نتیجتاً روّیوں کے لحاظ سے حیرت انگیز طور پر دو مختلف گروپ کے چوہوں کی نسل وجود میں آئی ایک گروپ مانوس چوہے جبکہ دوسرے جنگلی اور خطرناک چوہے۔لہٰذا اس تجربے اور جینز پر کئے گئے دیگرتجربات کی بناء پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ انسانوں اور جانوروں میں مجرمانہ صلاحیتوںکی موجودگی مخصوص جینز کی بدولت ہوتی ہے ۔ اس کرّہِ ارض پر امن و امان کے لئے ضروری ہے کہ پُرتشدد مجرموں کے لئے ایک مخصوص جراحی سے گزرنا لازمی قرار دے دیا جائے جو کہ انکی اگلی نسل میں جارحانہ و مجرمانہ صلاحیت کے جین منتقل نہیں ہونے دیگا لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے سے جرائم کا بڑی حد تک خاتمہ ہوجائیگا۔اسطرح جینیات (genetics) کی اچھی سمجھ بوجھ اور اسکا صحیح استعمال دنیا میں امن پھیلا سکتا ہے۔ جینیات ہمیں لمبی اور صحتمند زندگی گزارنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔Kings College لندن کے سائنسدانوں نے کچھ ایسے جینز کی شناخت کی ہے جن کا تعلق انسانوں میں عمر رسیدگی کے عمل سے ہے ۔ ان کے مطابق اگر ان جینز کے عمل میں رکاوٹ ڈال دی جائے اور کچھ بیرونی عوامل جیسا کہ غذا اور ماحول میں تبدیلی کر دی جائے تو لمبی اور صحت مند زندگی کی چابی ہمارے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ دریافت پروفیسر Tim Spector اور Dr.Jordana Bell نے مختلف عمر کے کئی سو َ جڑواں لوگوںکی جنیاتی سا خت میں مشابہت او ر فرق کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے بعد پیش کی۔ ان کے مطابق چاراہم جینز صحتمند عمر اور امکانی عمر درازی پر اثر انداز ہوتے ہیں جو کہ کولیسٹرول، پھیپھڑوں کی کارکردگی اور مادری عمر درازی کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اس دریافت سے نہ صرف عمر درازی کے خلاف نئے علاج کے دروازے کھلے بلکہ عمردرازی کے عمل کو مزید گہرا ئی سے سمجھنے کی راہیں بھی کھول دیں۔ اب ہم دوسرے وصف کا احاطہ کرتے ہیں۔دیگر حیوانات سے غیر مشابہ انسانوں میں قوّت گو یائی کی صلاحیت .....حیوانات میں موجود اس انوکھی خصوصیت کے لئے کیاچیز ذمہ دار ہے؟ جس طرح جین کا ایک حصّہ منہ کی بناوٹ کا ذمّہ دار ہے اسی طرح آلہ صوت (larynx ) بھی قوّتِ گویائی کا ذمّہ دار ہے ۔لہٰذا نظریاتی طور پر اب بولنے والے چوہے یا بندر ممکن ہیں۔ برطانوی سائنسدان ـــ’لسانی جین ‘ "language gene" دریافت کرنے میں اس وقت کامیاب ہوئے جب وہ ایک خاندان کے کچھ افراد میں قوّتِ گویائی کے نقائص کے بارے میں جانچ پڑتال کر رہے تھے۔آکسفورڈ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ مخصوص جین ((FOXP2 gene ان نقائص کا ذمّہ دار ہے جو بعد میں ’لسانی جین ‘ "language gene" کے نام سے مشہور ہوا۔انہیں معلومات کے مدّنظر Max Planck Institute for Evolutionary Anthropology کے جرمن سائنسدان Wolfgang Enard کے زیرِ قیادت گروپ جینیاتی طور پر ایسے ترمیم شدہ چوہوں کی پیدائش میں کامیاب ہو گیا جو کہ انسانی ’لسانی جین‘ بنا سکتے تھے ۔ ان چوہوں میں آواز کے حوالے سے کافی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں یہ جین قوّتِ گویائی سے متعلق ضروری اعضاء زبان، لب، آلہئِ صوت اور پھیپھڑوں میں آپس میں ربط کا ذمہ دار تھا۔یہ جین دماغی افعال کو بھی بہتر بنا سکتا تھا تاکہ نئے خیالات بھی ظاہر ہو سکیں۔لہٰذا فی الوقت انسانوں کی طرح بولنے والے کتّے، بلّی، چوہے اور بندر بنا نا ممکن ہو جائے گا! یعنی ڈاکٹر ڈولٹّل (Dr. Dolittle ) کی منظر کشی کو حقیقی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ جینیاتی سمجھ بوجھ نے دیگر امراض کے خلاف دفاعی لڑائی کرنے میں بھی مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر سالانہ تقریباً 200 کروڑ افراد ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے سالانہ 800,000 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ان میں سے اکثریت 90%) سے زائد ( اموات سب سہاار ، افریقہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں بچّے زیادہ متاثر ہیں ۔یہ بیماری مادہ مچّھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔ڈینگی بخار اور پیلیا بخار بھی مچّھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ملیریا کے خلاف مشہور دوائیchloroquine کی افادیت مچّھروں میں بڑھتی مدافعت کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے ۔ اب ملیریا بخار سے نمٹنے کا اور دلچسپ طریقہ جینیاتی طور پرترمیم شدہ مچّھروں کی پیدائش ہے۔ان مچّھروں میں نقصان پہنچانے والی مادہ اقسام کی آبادی کو ختم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جامعہ کیلیفورنیا ، اروِن (Irvine) کے سائنسدان جنیاتی طور پر ایسی ترمیم شدہ مچّھروں کی اقسام بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ مادہ مچّھروں کی اڑنے کی صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں جب پانی میں لاروا انڈوں سے پھوٹتے ہیں تو نر مچّھر اُڑ جاتے ہیں جبکہ مادہ مچّھر نہ اُڑنے کی وجہ سے پانی ہی میں مر جاتے ہیں ۔ لہٰذا جنیاتی ترمیم والے نر مچّھر جب دوسری مادہ مچّھر سے ملاپ کرتے ہیں تو ان میں بھی وہی ’جنیاتی نقص‘ سرایت کر دیتے ہیں چنانچہ اگلی نسل میں بھی یہ نقص منتقل ہو جاتا ہے۔ اس طرح ـ’جینیاتی نسل کشی‘ ("genetic genocide") ملیریا کے مرتکب مچّھروں کی آبادی میں کمی لاکھوں انسانی زندگیاں بچانے کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ بچّوں کو ماں کا دودھ پلانے کے بہت سے فوائد ہیں کیونکہ ماں کے دودھ میں موجود امینو اایسڈ (جس سے پروٹین بنتا ہے)،شکر، چکنائی، معدنیات، اینزائمز اور وٹا منز نہ صرف صحت کے لئے موزوں ہوتے ہیں بلکہ زود ہضم بھی ہوتے ہیں اور ہاضمے کے عمل کو بھی درست کرتے ہیں۔ماں کے دودھ میں موجود جراثیم سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے لڑنے والے مدافعتی سالمے (antibodies) بچّوں کو دیرینہ اور وقتی امراض کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔مگر بہت سی مائیں اپنے بچّوں کے لئے مناسب مقدار میں ںدودھ مہیّا کرنے سے قاصر ہوتی ہیں۔اب چینی سائنسدان ایسی گا ئیں بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن کا دودھ انسانی دودھ سے مماثلت رکھتا ہے ۔اس کے لئے انسانی دودھ کے جینز کو گا ئے کے مضغہ (embryo ) میں جنیاتی پیوندکاری کے زریعے داخل کیا گیا۔پھر اسے دوسری مددگار گائے میں داخل کیا گیا اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچھڑے بعد میں انسانی دودھ جیسی خصوصیات رکھنے والا دودھ دینے کے قابل تھے۔ سائنس کی اس حیرت انگیز دنیا میں جہاں سچّائی تخیّل سے بھی زیادہ اجنبی ہے وہاں جینیات ہمیں جرائم سے چھٹکارا دلا سکتی ہے، صحتمند اور لمبی عمر عطاء کر سکتی ہے اور ہم اپنی خواہش کے مطابق خصوصیات کے حامل جانوروں کی اقسام جنیاتی طریقوں سے تخلیق دے سکتے ہیں۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں