توانائی کے شعبے میں تیزی سے ترقی جاری ہے

Friday / Oct 25 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ مقالے میں میں نے توانائی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت کا زکر کیا تھا اسی سلسلے میں مزید دلچسپ وحیرت انگیز پیشرفت نظرِقارئین ہے جن سے پاکستان بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ photosynthesis کے عمل کے زریعے کرّہِ زمین پر موجود تمام پتّوں سے تقریباً 100 terawatts توانائی جمع ہوتی ہے جوکہ اس کرّہ ارض کی سالانہ توانائی کی ضرورت سے چھ گنا زیادہ ہے۔سائنسدان اس قدرتی عمل کو سمجھنے کی کوشش میں سرگردان ہیں اور مصنوعی پتیّ بھی ایجاد کر رہے ہیں جو زیاد ہ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکے اور ایسے آلات ایجادکررہے ہیں جو کہ شمسی روشنی کے ذریعے پانی کے سالموں کو ان کے عؑنصروں ہائڈروجن اور آکسیجن میں توڑ سکیں گے اس عؑمل سے خارج ہونے والی ہایڈروجن توانائی کی پیداوارمیں اہم کردار ادا کر سکے گی۔ MIT میں کیمیا (Chemistry) کے پروفیسر Nocera اور ان کے ساتھیوں نے ایک ایسا ما دّہ تیّار کر لیا ہے جو کہ پتّوں سے مماثلت رکھتا ہے ۔ یہ مادّہ پتّوں سے باریک ہے اور نہایت سستے کیمیاوی اجزاء سے تیآر کیا گیا ہے ۔ ان مصنوعی پتّوں کو جب سورج کی روشنی کی موجوددگی میں پانی میں رکھا جاتا ہے تو یہ پتّے حیرت انگیز طور پر ایک اوسط گھرانے کے لئے دن بھر کی بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ پتّے قدرتی پتّوں کی نسبت دس گنا زیادہ توانائی فراہم کرسکتے ہیں۔ ایک ٹی وی بنانے والی کمپنی نے دلکش پھولدار ڈیزاینوں والی شیشے کی کھڑکیاں بنائی ہیں جو بجلی فراہم کرسکتی ہیں۔ان شیشوں پر کی گئی دلکش اور رنگا رنگ اسکرین پرنٹنگ نہ صرف گھر کی ا ٓرائش میں خوبصورت اضافہ ہے بلکہ یہ پینٹنگ Dye sensitized solar cells (DSSC) کی آمیزش سے کی گئی ہے ۔ یہ خلئے اتنی توانائی جمع کر لیتے ہیں جن سے گھر کے پنکھے بآسانی چل سکتے ہیں۔ ایک اور کمپنی نے ایسی فلم تیّار کی ہے جسے شیشوں پر چھڑکائو کرنے سے وہ شیشے شمسی توانائی کے پینل میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ اس فلم میں دھات کے نہایت باریک زرّات ایک مخصوص ترتیب سے استعمال کئے گئے ہیں جو شیشوں پر لگنے کے بعد شمسی تونائی حاصل کر کے بجلی میںمنتقل کرتے ہیں۔ شمسی ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور حیرت انگیز پیش رفت ایسے رنگ و رو غن کی ایجاد ہے جن میں شمسی خلیوں کی بدولت بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ایک سوئس سائنسدان نےEPFLلیبارٹری میں مشہور شمی خلئے Grätzel کی کارکردگی بڑھا کر 12.3%. کردی ہے اس اعلیٰ کارکردگی کیلئے انہوں نے photosynthesis کے عمل کی تقلید کرتے ہوئے porphyrin اور cobalt کا استعمال کیا ہے ۔ شمسی خلیوں کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ایک اور مثا ل لچکدا رشمسی خلیوں کی دریافت ہے جنہیں (copper indium gallium [di]selenide [CIGS]) کی مدد سے بنایا گیا ہے۔یہ خلئیے نہ صرف سلیکون خلیوں کے مقابلے میںکم لاگت میں تیّار ہوتے ہیں بلکہ ان میں ضرورت کے مطابق توانائی حاصل کرنے کے طریقوںمیں تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے۔ یہ خلئیے سوئس فیڈرل لیبارٹری میں تیّار کئے گئے ہیں اور ایک نئی کمپنی کے زریعے تجارتی بنیادوں پر دستیاب ہیں۔ ان خلیوں کی کارکردگی عام شمسی خلئیوں ہی کے برابر ہے یعنی 18.5% ۔ یہ ٹرانسپیرنٹ رولوں کی صورت میں دستیاب ہیں جنہیں دوازوں اور کھڑکیوں پر چپکایا جا سکتا ہے تاکہ شمسی توانا ئی کے ز ریعے بجلی حاصل کی جا سکے ۔ انہی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوائی جہاز بھی تیّار کئے جارہے ہیںجو محض شمسی توانائی کے زریعے اُڑ سکیں گے۔ چند سال قبل Qineti کا تیّار کردہ کاربن فائبرپر مشتمل نہایت کم وزن جہازتیّار کیا گیاتھا جسے پائلٹ اور مسافروں کے بغیر 5,000 فٹ کی بلندی پر 14دن سے زیادہ کے لئے اُڑایا گیا تھا جو کہ مکمل طور پر شمسی خلیوں سے حاصل کردہ توانائی سے او راتنے طویل عرصے کے لیئے اُڑایا جانے والا دنیا کا پہلا طیّارہ ہے ۔ اس طیّارے کو لیتھیم آئن بیٹریوں کی مدد سے چلایا گیا ۔ یہ بیٹریاں چارج ہونے کے لئیے شمسی خلیوں سے توانائی حاصل کرتی تھیں جو کہ طیّارے کے پروں میں قطار سے لگے ہوئے تھے ۔ یہ خلئے دن بھر میں اتنی توانائیؑ جمع کر لیتے تھے کہ طیّارہ رات بھر اڑ سکتا تھا۔اس طرح مہینوں کے لئے بھی ایسے طیّاروں کو اُڑایا جا سکتا ہے۔ جرمن بھی شمسی توانائی سے اُڑنے والا ہوائی جہاز بنا چکے ہیں۔ یہ طیّارہ زمینی آ ب و ہوا کی دوسری تہہ میں 15کلو میٹر کی بلندی پر مہینوں تک اُڑ سکتا ہے اسی ٹیکنالوجی کی تصدیق میں "ELHASPA"نامی طیّارے نے آج سے دو سال قبل اپنی پہلی اُڑان لی تھی۔ ایسے زیادہ بلندی پر طویل مّدتی اُڑان کرنے والے طیاّرے HALE جلد ہی مصنوعی سیّاروں کی جگہ لے سکتے ہیں کیونکہ ان کی تیّاری میں مصنوعی سیّاروں کی نسبت 1% لاگت آتی ہے۔اور یہ طیّارے مصنوعی سیّارے کی طرح بہت سے کام 44نہایت کم لاگت پر سر انجام دے سکتے ہیں۔ دوسرا توانائی کا ذریعہ جو بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے وہ ہے حیاتیاتی ذرائع توانائی ۔بائیو ڈیزل بھاری مقدار میں تالابوں میں اُگنے والی کائی یا تخمیر ٹینک سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے کوئی قیمتی زمین پر تیل فراہم کرنے والی فصل کی کاشت نہیں کرنی پڑتی لہٰذا وہ زمین ٰ کسی بھی خوردنی فصل کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔زیادہ مقدار میں تیل فراہم کرنے والی کائی نیلی سبز کائی کو کسی بھی بڑے بر تن میں اُگایا جاسکتا ہے ۔اور پھر جمع کر کے حیاتیاتی ایندھن نکالنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کائی سے حاصل کردہ حیاتیاتی ایندھن کی قیمت زیادہ ہی رہتی ہے اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لئے کافی کوششیں کی جارہی ہیںکہ ایسی کائی دریافت کر لی جائے تاکہ کم لاگت پر عمدہ معیار کا تیل حاصل کیا جا سکے ۔Arizona State University کے سائنسدانوں نے جنیاتی ترمیم سے ایک ایسی نیلی ۔سبز کائی دریافت کی ہے جس میںاتنا تیل پیدا ہوتاہے کہ وہ برجستہ باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے جسے تیل کشیدگی کے قیمتی عمل کے بغیر ہی فوری طور پر جمع کیا جا سکتا ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کے حصول کا ایک اور اہم ذریعہ خلوی مادّہ ہے یہ ایک نامیاتی مادّہ ہے جو اس زمین پر کپاس میں 90% لکڑی میں 50% اور نباتاتی مادّے میں 33% کی مقدار سے بآسانی حاصل ہو سکتا ہے ہ خلوی ماد ہ پودوں کی ابتدائی خلیاتی دیوار کا اہم جزو ہوتا ہے اور کچھ بیکٹیریا (Clostridium cellulolyticum) میں یہ خصوصیت پائی گئی ہے کہ یہ خلوی مادّہ ان کی مرغن غذا ہے اس کو کھانے کے بعدیہ بیکٹیریا دو بہت اہم حیاتیاتی ایندھن خارج کرتے ہیں butanol اور iso-butanolاس اہم معرکے کی نشاندہی امریکی شعبہ توانائی کے مرکزBESCنے کی۔ Isobutanol ایسا حیاتیاتی ایندھن ہے جو کہ براہ راست گاڑی کے انجن کے لئے استعمال ہو سکتا ہے اور اس کا درجہ حرارت پیٹرول کے مثاوی ہے۔ایک دفعہ یہ تجارتی بنیادوں پر تیّار ہو گیا تو ہم "gasoline"کی بجائے "grassoline استعمال کر رہے ہونگے یعنی ٰ گھاس سے حاصل کردہ حیاتیاتی ایندھن۔ توانائی کا ایک اور اہم ذریعہ ہوا ہے ۔ میں نے ایک اور پروجیکٹ ہوا کی توا نا ئی کے لئے شروع کرایا تھا جس کی فنڈنگ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو کردی تھی تاکہ پاکستان میں ہوا کی خاکہ کشی کی جاسکے اس پروجیکٹ کی ذمہ داری شعبہ موسمیات پاکستان کو دی گئی تھی ۔ ان کی جانچ کے مطابق نتائج بہت ضو افشاں تھے۔ سندھ میں کٹی بندر، گھارو اور حیدرآباد کے درمیان کا علاقہ ہوا کے ذریعے تقریباً 20,000میگا واٹ بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ کوئلے اور پن بجلی پلانٹ کو لگانے کے ساتھ ساتھ پن چکّیوں پر بھی ملک گیر توجہ دیں۔ تاکہ ملک سے توانائی کی کمی کو دور کیا جا سکے۔ پاکستان کو چاہئے کہ بایوٹیکنالوجی کے شعبے میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرے کیونکہ صنعتی اعتبار سے اس شعبے میں ترقی کے زبردست مواقع ہیں۔جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا اس وقت میں نے قومی کمیشن برائے بائیوٹیکنا لوجی قائم کیا تھا (قومی کمیشن برائے نینو ٹیکنا لوجی کے ساتھ) اور ایک ارب روپے کے پروجیکٹ کی فنڈنگ بھی حاصل کری تھی تا کہ اس شعبے کو ترویج دی جا سکے۔ لیکن میرے چھوڑنے کے بعد بڑے منظّم طریقے سے پچھلی حکومت نے سائینس و ٹیکنالوجی کے وہ تمام پروگرامزجو میں نے شروع کرائے تھے ایک ایک کرکے بند کردئے ۔ اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ختم کرنے کے لئے پے در پے وار کئے (جن کامیں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت سے کامیابی سے مقابلہ کیا) اور بائیوٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی پروگرام بھی بند کر دئے۔اب امید ہے کہ نئی حکومت ان پروگراموں کو جلد شروع کر وائے گی کیونکہ پہلے ہی ہمارے پانچ قیمتی سال ضایع ہو چکے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں