دنیائے سائنس میں تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبوں میں مادی سائنس ایک امتیازی حیثیت کاحامل ہے ۔ یہ شعبہ اس قدر وسیع ہے کہ تمام سائنسی شعبات سے منسلک ہےمکڑی کا سخت ریشم سب سے زیادہ سخت فائبر سمجھا جاتا ہے۔ و
کسی بھی ملک و قوم کی تر قی کے چار بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ اعلیٰ ومعیاری تعلیم ،سائنس و ٹیکنالوجی کاروبار میں جدّت طرازی اور ایک ایسی حکومت جو علم پر مبنی معیشت (knowledge Economy) کی اہمیت کو سمجھتی ہو
نواز شریف حکومت کے جانے کے بعد ابھی حالیہ انتخابات میں عوا م نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے ۔ اگر پاکستان عمران خان کے تحت ترقی کرنا چا ہتا ہے تو،اس کے لئے ایک انتہائی منظ
اپنے قیام سے لے کر اب تک پاکستان ایک مکمل اور سچی جمہوریت سے محروم رہا ہے کیونکہ تعلیم جیسے اہم عنصر سے اس ملک کے عوام کو ہمیشہ دور رکھا گیا۔ ملکی بجٹ میں حکام نے ہمیشہ تعلیم کے بجٹ کو قصداً کم ترجیح
جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کررہی ہے اور دیگر سائنسی علوم میں پیش رفت ہو رہی ہے وہاں تشخیص کے دوران جدید علوم بھی ارتقاء پزیر ہو رہے ہیں ۔ مادی سائنس بھی انہیں سائنسی علوم میں سے ابھرتا ہواشعبہ ہے
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قیام سے لے کر موجودہ حکومت کے آنے تک ہم اکثر حکومتوں میں مخلص حکمرانوں سے محروم رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بدعنوانی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے اور بری طرح سےاسے کھوکھلا کر
ہماری کائنات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 7.13بلین سال پرانی ہے۔ہمارے مشاہدے میں آنے والی کائنات کا منظر تقریباً 93بلین نوری سال کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روشنی کو ہماری کائنات کے ایک کن
اسٹیم سیل(جزعیہ خلیہ)جو زندگی کا بہت بڑا شاہ کار ہے اور سائنس کی دنیا میں اس کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے۔ اسٹیم سیل جاندار کے جسم کا ایسا خلیہ ہے جو تقسیم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جمہوری نظام کی بنیادیں جس اہم عنصر پر قائم ہوتی ہیں وہ ہے تعلیم۔ جب میں 2001ء میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر اور بعد میں 2008 ء تک چیئر مین اعلیٰ تعلیمی کمیشن تھا تو مجھے اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر ت
عالمی سطح پر ہونے والی تیز ترین ترقی علم ، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی ہی کے بل بوتے پر ممکن ہوئی ہے ۔ جہاں سائنس نے ارضی شعبہ جات میں بھر پور ترقی کی ہے وہاں خلائی سائنس کا شعبہ بھی پیچھے نہیں رہا
پاکستان کی بنیادوں میں کچھ طبقات ایسے رچ بس گئے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت اس ملک میں پنپ نہیں سکی۔ میں پچھلے مقالوں میں ایک مختلف نظام جمہوریت کے قیام کی طرف اشارہ کرتا رہا ہوں جو اس طرح قائم کی جائے ک
اس صدی میں جو اقوام ترقی کرکے چوتھے صنعتی انقلاب کا حصہ بننا چاہتی ہیں ۔ انہیں اپنی ترقیاتی پالیسیوں کومضبوط علم پر مبنی معیشت سے منسلک لازمی کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے قومی وسائل کو تعلیم، سائنس، ٹیکنالوج
میں اپنے گزشتہ مقالوں میں یہ تذکرہ کر چکا ہوں کہ مختلف نا اہل حکومتوں کی وجہ سے پاکستان ، تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ کسی بھی حکومت نے دور اندیشی سے اس ملک اور اسکی عوام کو طویل مدتی فوائد پہنچانے کی
پاکستان کی ترقی اور بہترمستقبل کے لئے سستی توانائی نہایت اہم ہے ، تاہم توانائی کا شعبہ گزشتہ تین دہائیوں میں اقتدار کی جانب سے بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوگیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطا
آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کی بنیاد تعلیم، سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر منحصر ہے اور اس ترقی کے حصول کے لئے معیاری افرادی قوت کی تشکیل ضروری ہے جو
دور حاضر تعلیم اورسائنس وٹیکنالوجی کا دور ہے ۔اس وقت وہ ہی ممالک ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں،جنہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے اور خود کو وقت کے مطابق ڈھال دیا ہے ۔اسی بناء پر علمی وسائنسی شعبہ جا
ستر سالہ دور آزادی میں پاکستان میں متعدد حکومتیں آئیں اور ہر ایک نے ملکی ترقی اور عوام کے لئے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے سبز باغات دکھائے اور اپنے منشور کا اہم حصہ بنایا لیکن ان سب زبانی کلامی دعو
بد عنوانی ، دہشت گردی، اور انصاف کی عدم فراہمی پاکستان کی جڑوں کو تیزی سے کھوکھلا کررہی ہے۔ یہی وہ سماجی مسائل ہیں جن کی وجہ سے ملک میں غربت، انتشار بے چینی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ لہٰذا اسوقت جس قد
معزز قارئین پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے جس کی وجہ مختلف مسائل ہیں جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹے جارہے ہیں ۔ لیکن ان میں سے دو منسلکہ مسائل سرفہرست ہیںاول ناخواندگی اور جہالت، جس کی ب
موجودہ دور میں سماجی و معاشی ترقی کا واحد اوراہم ترین ستون علم ہے۔ اب قدرتی وسائل کی اہمیت کم سے کم ہو رہی ہے اور سائنس، ٹیکنالوجی و جدت طرازی قوموں کی ترقی کے لئے کلیدی اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ جن مم
سائنس دان جیمسن واٹسن نے انسانی جنیوم کی ترتیب بندی گذشتہ سال محض دو ماہ کے عر صے میں مکمل کی ،جس میں ایک ملین (دس لاکھ ) امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔جب کہ اس سے پہلے انسانی جنیوم کی ترتیب بندی میں 60 ملین (
کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے علم پر مبنی معیشت قائم کرنا نہایت اہم ہے۔ علمی معیشت کے قیام کے تین اہم ترین ستون جامعات، صنعتیں اور حکومتی پالیسیاں ہیں، یہ تینوں ستون اہلیت کی بنیادوں پر قائم ہونا لازمی ہ
عالمی حالات حاضرہ کا تقا ضا ہے کہ پاکستان کو اپنی درست سمت کا تعین کرتے ہوئے ایک مضبوط ’’علم پر مبنی معیشت‘‘قائم کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ وہ ممالک جو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری نہیں
ملکی سطح پر تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت کے فوائد ان دنوں کافی زیر بحث ہیں ۔ بہت سےلوگوں کا یہ خیال ہے کہ تکنیکی ماہرین کی حکومت کے قیام کیلئے جمہوریت کو کالعدم قرار دینا ضروری ہےجبکہ یہ درست نہیں ہے
آزاد ماہرین اقتصادیات کے مطابق، پاکستان کو ایک بہت سنگین اقتصادی صورت حال کا سامنا ہے ۔ ملک بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور مالی بدانتظامی کی وجہ سے معاشی زوال کا شکارہے ۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے عد بھ
آناتول لیوین کے ساتھ ایک انٹرویو بعنوان ’پاکستان ایک مشکل مملکت‘ میں معروف پاکستانی ماہر معیشت جناب محبوب الحق نے کہا تھا کہ’ ہر دفعہ ایک نئی سیاسی حکومت بر سر اقتدار آتی ہے اور یہ نئی سیاسی حکومتیں
پاکستانی معیشت نہایت تشویش ناک صورتحال سے دو چار ہے ۔ ہمارےملک کے بجٹ کاخسارہ محتاط تخمینے کے مطابق 1,276ارب روپے کے بجائے 1,864 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔ 2014 ء سے 2015ء میں 12.4 فیصد بیرونی قرض بجٹ
اس تیزی سے بدلنے والی دنیا میں، نئی نئی ایجادات موجودہ صنعت کے لئےایک بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ ایک امریکی ماہر ایلون مسک نے ایک خلائی کمپنی قائم کی جس کا نام “space X”ہے۔یہ کمپنی راکٹ کو خلا تک پہنچانے می
پاکستانی معیشت اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے اس کا یہ حال کیا ہے ۔ ہمارے بعض کمزور اور بدعنوان اداروں نے مل کر قائداعظم محمد علی جناح کی کو ششو ں اور قر با نیو
مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی ترقی حقیقت میں ذہن کو چکرا دینے والی پیش رفت ہے۔ ڈاکٹر رے کروزویل(Dr. Ray Croswell)جو کہ مستقبل کی پیش گوئی کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں، کا کہنا ہے کہ2045ءتک ہم(s
آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں اسکی معیشت کا دارومدار تعلیم ، سائنس ، ٹیکنالوجی،تحقیق وجدّت طرازی پر ہے ۔ جامعات اور تحقیقی مراکزقوم و ملّت میں اس تبدیلی کو لانے میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں۔
سائنس کے تقریباً ہر شعبے میں حیرت انگیز دریافتیں وقوع پزیر ہو رہی ہیں جو کہ ہماری زندگی میں ایک غیر متوقع انداز سے اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا شعبہ جس رفتار سے ارتقا پذیر ہے اس سے اس سیارے س
پاکستان میں 1947سے ایک مستحکم جمہوری نظام کے قیام کی کوششیں کی جارہی ہیں، تاہم سیاستدانوں کی وسیع پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے نہ صرف حکومتوں کو برطرف کرنا پڑا بلکہ اس کی وجہ سے کئی دفعہ فوج کو مداخلت کر
حال ہی میں ہماری حکومت نے تمام جامعات کے ترقیاتی بجٹ میں ساٹھ فیصد کمی کرکے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ کو ایک مہلک مالی دھچکا پہنچایا ہے۔2016-2017میں پاکستانی جامعات کو مختص کیا جانے والا اصل بجٹ
پاکستان کی آبادی لگ بھگ 22کروڑ افراد پر مشتمل ہے جن میں دس کروڑ افراد بیس سال سے کم عمر کےہیں ۔ نو جوانوں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ہمیں سماجی واقتصادی ترقی کے لئے ایک منفرد موقع فراہم کرتی ہے کیو
زمانہ قدیم سے انسان ہمیشہ جوان رہنے اور طویل عمر کے راز کی تلاش میں ہے۔ اس کا جواب غالباًچوہوں کی لمبی صحت مند زندگی سے مل سکتا ہے۔ بڑھاپے کی وجہ دراصل آکسیجن کی ایک فعال شکل سے شروع ہونے والا تکسیدی
گزشتہ ایک ماہ میں دو اہم پیش رفت ہوئی ہیں جو قابل توجہ ہیں۔ ٹیسلا( Tesla) کےبرقی موٹرگاڑی ساز ادارے نے امریکی موٹر گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنی فورڈ (Ford) کی، مارکیٹ قیمت پرسبقت حاصل کر کےتاریخ رقم کی ہ
گزشتہ دو سال کے دوران میں نے پاکستان میں اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جامعات قائم کرنے کیلئے آسٹریا، اٹلی اور فرانس کا سفر کیا ہے۔ان ممالک میں سفر کا مقصد وہاں کی بہترین جامعات کا جھرمٹ (con
لاکھوں افراد کیلئے اندھے پن کا صرف ایک ہی علاج سمجھا جاتا ہے اور وہ ہے دوسرے افرادکاکارنیا (Cornea)عطیہ میں مل جانا،جوکہ بہت ہی کم ہوپاتاہے،چنانچہ ہرسال ایک بڑی تعدادکارنیا نہ ملنےکی وجہ سےنابیناپن کا
( گزشتہ سے پیوستہ) 2050 تک دنیا کی آبادی 9ارب تک پہنچنے کی توقع ہے، جس کی وجہ سے ہمارے سیارے پر قابل کاشت علاقےمحدود ہوجائیں گے نتیجتاً بہت سے ممالک میں خشک سالی اور بڑے پیمانے پر قحط پڑنے کے امکانا
ہماری تمام(genetic information) ہمارے جین میں محفوظ ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹے سے خوردبینی ہار کا تصور کریں جس میں چار رنگوں کی تین بلین موتیاں پروئی ہوئی ہیں(دراصل چار اقسام کے سالمے ہیں جن کو نیوکلیک ایسڈک
10جولائی 1947کو پاکستان کےقیام سے دو ماہ قبل ، قائد اعظم محمد علی جناح نے بقلم خود اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ جمہوریت کا صدارتی نظام پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ برطانوی پارلیم
پاکستان ایک اہم تاریخی دوراہےپرکھڑاہے۔کچھ معاملات میں اگرپاکستان پیشرفت کررہاہےتو دوسری طرف بہت سےمعاملات میں تیزی سے تنزلی کی جانب گامزن ہے اور بیرونی قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ 2001ء میں جب م
اکتوبر 2002میں میں نے جب سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کے عہدے کو خیرباد کیا اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے بانی چیئرمین کے طور پر عہدہ سنبھالا اس وقت پاکستان کی ایک بھی جامعہ کا شمار بین ا
وسکونسن میں قائم Wicab، نامی کمپنی کے سائنسدانوں نے ایک آلہ ’’برین پورٹ‘‘ (Brain Port)تیار کیا ہےجو نابینا افراد کو اپنی زبان سے دیکھنے میں مدد کرتا ہے ! اس کمپنی کے بانی، پال بیکِ ریٹا کے مطابق، درا
شمسی خلیات (solar cells) بجلی پیدا کرنے کیلئےسورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں. سورج کی توانائی فوٹانز (photons) کی شکل میں ہوتی ہے. اس طرح پیدا ہونے والی بجلی براہ راست رو (Direct Current, DC) میں حاصل ہ
گزشتہ دو دہائیوں میں جنگوں کی نوعیت میں بڑی تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ شخصی ذہانت اور طاقت کو مصنوعی ذہانت کا سہارا مل گیا ہے، مستقبل میں مشینوں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں میں انسانوں کے مقابلے م
ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں جناب عثمان سیف اللہ خان صاحب کی زیر صدارت منعقدہ سینیٹ کی قا ئمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی، جناب رانا تنویر صاحب نے حکومت
آپ تصور کریں کہ آپ ایک گاڑی چلا رہے ہیں کہ اچانک گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے اور گاڑی کو کافی نقصان پہنچتا ہے لیکن آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاڑی ’’یاداشت دہاتی مرکب‘‘ سے بنی ہوئی ہے۔ اس
چین پاکستان اقتصادی راہداری میں پاکستان کو آج کی ترقی یافتہ دنیا میں پہنچانے کی کافی صلاحیتیں موجود ہیں۔ آج قدرتی وسائل کے بجائے افرادی قوت سماجی و اقتصادی ترقی کا مضبوط زریعہ ہیں۔ CPEC کو محض چین س
پاکستان گزشتہ سال کی چند اہم کامیابیوں کی وجہ سےجشن منا سکتا ہے۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل نے 21نومبر 2016ء کو پیرس، فرانس میں منعقدہ ایک باقاعدہ تقریب میں جامعہ کراچی کے ’’بین الاقوامی مرکز برائے کیمی
عالمی درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق ہمالیہ کے برفیلے تودے پگھل رہے ہیں حتیٰ کہ یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اس طرح ایشیا، افریقہ، امریکہ اور جنوب
موجودہ دور میں جدید ایجادات اس برق رفتاری سے دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور یہ ترقی معیشت پر بھی بھرپور انداز میں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ روایتی ٹیکنالوجیاں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہی
اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ا ن دنوں افرا تفری کا عالم ہے کیونکہ اس وقت بیک وقت تین اعلیٰ تعلیمی کمیشن موجود ہیںجو جامعات کا نظام سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ صورتحال سندھ اور پنجاب کے ایچ ای سی قائم ہو
توانائی کے میدان میں نہایت برق رفتاری سے حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہور ہی ہیں۔ اور جلد ہی ہم اس روایتی توانائی کی بجائے صاف اور قابل تجدید توانائی استعمال کر رہے ہونگے۔ قابل تجدید توانائی کی بہت کم قی
دنیا بہت حیرت انگیز رفتار سے تبدیل ہو رہی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی اس تبدیلی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ممالک مثلاً کوریا اور آسٹریا نے اپنے وزراء بر
پاکستان میں سائنس کے میدان کی اہم پیش رفت یہ ہے کہ یونیسکو نے پاکستان کے ایک سائنس و تحقیق کے ادارے کو کیمیائی سائینسز میں علاقائی سطح پر بہترین کارکردگی کا مرکز نامزد کیا ہے۔ اس مرکز کا نام بین الاقو
گزشتہ دنوں میں نے اقوام متحدہ کمیشن کی قائم کردہ جنوب وسطی ایشیائی خطے کے اقوام متحدہ مشاورتی بورڈ برائے سائنس ، ٹیکنالوجی اورجدت طرازی کے اجلاس کی صدارت کی ۔یہ کمیشن62 ممالک کا احاطہ کرتا ہے۔ اس اجلا
تصور کریں کہ آپ ایک لڑاکا طیارے کے پائلٹ ہیں اور خفیہ مشن پر دشمن کے علاقے پر پرواز کررہے ہیں کہ اچانک بغیر کسی ظاہری وجہ کے آپ طیارے پر قابوکھو بیٹھتے ہیں اور طیارہ قلابازیاں کھاتا ہوا زمین کی جانب
کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں تعلیم وتحقیق کا انتہائی اہم کردار ہو تاہے۔ وہ جامعات اور کمپنیاں جو حکومت کی مدد سے جدید تحقیقات پر عمل پیرا ہیں وہ اپنے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کررہی ہیں اور
دنیا نہایت تیزرفتاری سے تبدیل ہورہی ہے اور ہر ہفتے نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں جن میں سے بیشتر ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تحقیق کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سا
جنوب ایشیائی ممالک کی اقتصادی صورتحال کا موازنہ کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان ممالک کی GDP کے مقابلے میں آج پاکستان کی معیشت کتنی سست رفتاری سے بڑھ رہی ہے مثلاً میانمار کی معیشت 8.6%ہے، بھوٹ
اس بات کے لاتعداد شواہد موجود ہیں کہ وہ ممالک جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے وہ ہی بڑی تیزی سے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔پاکستان کو بھی سائنس و
وقت رواں کے ساتھ جیسے سائنسی علوم میں وسعت ہورہی ہے ویسے کائنات کی تخلیق میں ان اہم عناصر کا کردار عیاں ہوتا جارہا ہے جن کے بغیرکائنات کا وجودممکن نہیں ہو تا۔ مثال کے طور پر ایک جاندار خلیے کا پیچیدہ
آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہاں علم اور بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی کا راج ہے ۔کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کا سب سے اہم ذریعہ اب علم بن چکا ہے۔ جیسے جیسے علم کی حدود میں اضافہ ہورہا ہے و
حال ہی میں ایک خوش خبری سننے کو ملی کہ ایچ ای سی کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں شاندار ترقی ،بہترین انتظامی نظام اور اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں "3G - Global Good Governance - Excellence in Hi
میں نے گزشتہ مقالے میںقارئین کی آگاہی کے لئے چند مثالیں پیش کی تھیں کہ کس طرح سائنس کی بدولت جدت طرازی ملک و ملت کی معیشت کو تبدیل کرکے ترقی کا سبب بن رہی ہے۔وہ ممالک جو ان شعبوں پر وسیع پیمانے پرسرم
چین پاکستان اقتصادی راہداری کا قیام ایک انتہائی اہم قد م ہےاس سے پاکستان کی تقد یر بدل سکتی ہے اگر اسے پیشہ ورانہ طریقے کے سا تھ ایک علم پر مبنی معیشت کا حصہ بنا یا جائے ۔ ابھی حا ل ہی میںــ ــ ’’بیجن
گزشتہ صدی سے عالمی اقتصادی حالات میں ڈرامائی انداز سے تبدیلی آئی ہے جہاں اب علم نے قدرتی وسائل پر سب سے اہم ستون کی حیثیت سے سبقت حاصل کر لی ہے ۔ مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان علم میں فرق کی حد یہ ہ
مورخہ 10اگست 2015ء کو نیو یارک ٹائمز میں ایک مقالہ شائع ہوا جس میں پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں گزشتہ برسوںمیںجو قابل رشک پیش رفت ہو ئی ہے اسکا ذکر کیا گیا تھا۔ مقالہ کچھ یوں تھا ’’پاکس
شعبہ صحت میں شاندار پیش رفت ہو رہی ہے۔ بنیادی کیمیا کے حیاتیاتی عوامل کی تفہیم کے نتیجے میں بیشمار امراض کے علاج معالجے کے نئے نقطہ نظر سامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تحقیق عمر درازی کے عمل کو سمج
عالم اسلامی اور مغربی ممالک میں علمی قابلیت کے فرق کا اندازہ اس حیرتناک اور افسوسناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 90 نوبل انعامات انگلستان کی صرف ایک ہی جامعہ، جامعہ کیمبرج کے فیکلٹی ممبران کو ملے ہیں
سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں جدت طرازی ایک اہم عنصر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جدت طرازی اب صرف ترقی یافتہ ممالک ہی کا استحقاق نہیں رہ گئی بلکہ کچھ ترقی پزیر ممالک نے بھی قومی ترقیاتی منصوبوں اور ا
ماہرین ِطبعیات نے حال ہی میں،کشش کی ثقل لہروں کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے جبکہ آئن اسٹائن نے ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں ایک صدی پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی۔ماہرین فلکیات کے مطابق یہ لہریں آج سے
کسی بھی ملک و قوم کی تر قی کے چار بنیادی ستون ہوتے ہیں 1۔اعلیٰ ومعیاری تعلیم 2۔سائنس و ٹیکنالوجی 3۔ کاروبار میں جدّت طرازی 4۔ ایک مربوط انتظامی نظام جس میں انفرادی صلاحیت کو ترجیح دی جائے اور فوری انص
اگرچہ پاکستان میں کافی انجینئرنگ جامعات ہیں لیکن عملی نقطہء نظر سے تربیت یافتہ فارغ التحصیل انجینئروں کی صنعتی ضروریات ومسائل سمجھنے کی قلّت پائی جاتی ہے ۔کچھ ممالک مثلاً جرمنی ، آسٹریا اور کئی دیگر
پاکستان کے بیشتر مسائل کی اصل وجہ جاگیردارانہ نظام حکومت ہے جسے میں ’’جاگیرداریت‘‘ کہتا ہوں یہ فرسودہ و نا اہل نظام ہمارے جاگیرداروں نے رائج کیا ہوا ہے جس کے تحت ملک بھر میں بدعنوانی اور بدامنی کا راج
گزشتہ کالم میں جدت طرازی کی اہمیت پر روشنی ڈالی تھی کہ یہ کس طرح ملکی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے ایک اہم جز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم شعبہ زراعت کا ہے جس میں جدت طرازی کی شدید ض
پاکستان میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا دریائی نظام ہے اور پاکستان میں پن بجلی کی پیداواری صلاحیت کا تخمینہ 46,000 میگا واٹ لگایا گیا ہے جبکہ ہم صرف اسکی 14% پیداواری صلاحیت استعمال کررہے ہیں۔ تقریباً 4
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ملک میںسماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کے لئے سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کے اہم کردار پر زوردیاتھا۔ مضبوط قومی معیشت کے قیام میں قدرتی وسائل کی اہمیت اب کافی حد تک کم ہوگئی
علم پر مبنی دنیا میں وہی ممالک ترقی کر سکتے ہیں جو اپنی اصل دولت یعنی اپنے ملک کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر سرمایہ کاری کررہے ہیں ۔جو ایسا نہیں کر رہے وہ غربت کا شکار ہیں اور وہ بین الاقوامی مالیات
نینو ٹیکنالوجی (nanotechnology)کیا ہے ؟ یہ سائنس کی وہ صنف ہے جس میں مادّوں کو نہایت چھوٹی جسامت میں استعمال کیا جاتا ہے۔اتنی کم جسامت کہ ایک میٹر کاایک ارب حصّہ جسے نینومیٹر کہتے ہیں۔ اس کا اندازہ آ
دور حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کسی بھی ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کےاہم عناصر ہیں۔ دنیادو اقسام کے ممالک میں بٹ گئی ہے ۔ ایک وہ ممالک ہیں جومعیاری تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول کیل
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح پہلے ہی پارلیمانی طرز حکومت کی خامیوں سے آشنا تھے انہوں نے 68سال پہلے ہی یہ اندازہ لگا لیا تھاکہ جاگیر دارانہ نظام حکومت میں یہ جاگیردار اپنے ذاتی مفادات کے لئے جمہو
آج، تعلیم ٹیکنالوجی اور ہنر ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے سب سے اہم عناصر ہیں۔جن ممالک نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے ا نہوں نے اپنی افرادی قوّت کو اعلیٰ ترین سطح پر لانے کیلئے شعبہ تعلیم پروسیع پیمانے
پاکستان تیزی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے ، اس کی معیشت ڈوبتی جارہی ہے ۔جن لوگوں نے جان پرکنز (John Perkins) ایک امریکی سابق سی آئی اے ایجنٹ کی تصنیف کردہ کتاب بعنوان "The Confessions of an E
جیساکہ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا کہ سیاسی ہواؤں کا رخ تبدیل ہورہا ہے جنرل راحیل شریف اور پاک افواج کے جانباز سپاہیوں کی بدولت فضا میں وہی تازہ مہک سرایت کر رہی ہے جس کا خواب ہمارے آباؤاجداد نے
بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر کی پاکستان آمد اور باہمی مذاکرات کے بعد اہم تنازعات کے حل ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہے یا نہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا کیونکہ 1954ے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے وسیع پیمانے پر قدرتی وسائل سے نوازاہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان ذخائر کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا۔مثال کے طور پر ہمارے صوبہ سندھ میں موجود کوئلے کی کانیں تقریباً 185ارب ٹن
کوئی اٹھارہ برس بعد جنگ جیسے قومی اور اردو زبان کے سب سے بڑے اخبار میں دوبارہ لکھنے کا اعزاز حاصل ہورہا ہے۔ادارے کی فراخدلانہ پیشکش ،سینئر صحافیوں اور ادارتی عملے کے بھرپور تعاون کے نتیجے میں1997کے بع
سائنس کے میدان میں جو حیرت انگیز ترقی ہو رہی ہے وہ ایک زمانے کے جادو بھرے قصے کہانیوں سے کم نہیں۔ ان نئی دریافتوں کی وجہ سے اربوں ڈالر مالیت کی کمپنیاں قائم ہو رہی ہیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک تیزی سے تر
آج کی دنیا علم کی دنیا ہے اور جو ممالک سائنس وٹیکنالوجی اور جدّت طرازی پر زور دے رہے ہیں وہی ممالک تیزی سے ترقّی کی راہ پر گامزن ہیں۔سب سے پہلے ہم زراعت کی طرف نظر ڈالتے ہیں: کیا غذائی دھماکہ ہونے وا
پاکستان اس وقت تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیا ہم اس جاگیرداری اورموروثی نظامِ حکومت سے چھٹکارا حاصل کر نے میں کامیاب ہو سکیں گے ، اور ملک اس دور کی طرف آگے بڑھے گا جہاں ایماندار اور ماہرین کی حکمران
آج پاکستان تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیایہ بدعنوان فریبی جمہوریت ملک کو اسی اندھیرے میں رہنے دے گی جہاں اکثر بدعنوان لوگ پارلیمنٹ کا حصّہ بنتے ہیں اور اربوں کھربوں کی لوٹ مار اور ہیرا پھیری
اکتوبر 2002 میں ایچ ای سی کے قیام کا مقصد ملک میں اعلی ٰتعلیم کے معیار کی بہتری تھا تاکہ پاکستان مضبوط علمی معیشت کی را ہ پر گامزن ہو سکے ۔ 2008 تک کے چھ سال کے نہایت قلیل عرصے میں ہمارے ملک کی کئی جا
پچھلے انتخابات میں ہوئی بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے ۔ سب کا اتفاق رائے یہی ہے کہ یہ انتخابات قطعی شفّاف نہیں تھے حتی کہ انتخابی سیاہی میں بھی دھاندلی کی گئی تھی تا
جیسے جیسے عالمی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اگلے 25 سال میں9ارب سے بھی تجاوز کر جائے گی اسی تناسب سے کا لجوں اور جامعات میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعدادمیں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ جامعات میں مح
اگر پاکستان غربت، بھوک ، محرومی ، بے روزگاری اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ ہم اپنی اصل دولت... یعنی افرادی قوت پر انحصار کریں اور کم منافع بخ
پاکستان کو ایک ناقابل ِ رشک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ تعلیم پر اپنی مجموعی ترقیاتی پیداوار کا 2% سے بھی کم خرچ کرتا ہے جس کی بدولت اس کا شمار دنیا کے آٹھ تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک میں ہو
پاکستان میں جمہوریت پے در پے کیوں ناکام ہوتی رہی جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اس کی کارکردگی کافی بہتر رہی؟ بدعنوان سیاستدان ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ فوج کی بارہا مداخلت کی بدولت جمہوریت
تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم محض بندروں اور بن مانسوں کے اجتماع کے سوا کچھ نہیں اور ارباب اختیار کے اشاروں پر ہم اس وقت تک ہانکے جاتے رہیں گے جب تک کہ چین، سنگاپور، ملائیشیا، کوریا اور دیگر ممالک کی طرح
گزشتہ چھ سالوں میں پاکستان نے شدید نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ جو جمہوریت اس ملک میں موجود ہے وہ کچھ اور نہیں محض دھوکہ ہے۔ایک گھنائونہ کاروبار ہے جہاں اکثر داغدار کردار کے مالک لوگ لاکھوں روپے کی سرمایہ
اب جب بجٹ آرہا ہے تو ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ ہماری حکومت بالخصوص وزیرِخزانہ اس ملک کو ایک کمزور زرعی معیشت سے ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل کرنے کیلئے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ پاکستان کو بجٹ کا بڑ
سائنسی شعبہ جات میں رونما ہونے والی حیرت انگیز ترقیاں واقعی تہلکہ خیز ہیں اور یہ ترقیاں کسی بھی شعبے میں اس قدر نمایاں نہیں جتنی کہ حیاتیاتی سائنس میں ہے کیونکہ زندگی اور اس میں کارفرما دیگر کیمیائی ع
اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اپنے قیام کے ابتدائی دور 2002ء سے 2008ء میں وہ شاندار ترقّی کی کہ ملکی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کے میدان کی کایا ہی پلٹ دی تھی ۔ افسوس کہ یہ ادارہ آج اپنی بقا کیلئے سسک رہا ہے۔موجو
سائنس کے مختلف شعبوں میں رونما ہونے والی حیرت انگیز دریافتیں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر مختلف اطوار سے اثرانداز ہورہی ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مواصلاتی نظام میں برپا انقلاب کے ہم سب گواہ ہیں۔ بالکل اسی ط
سائنس میں اس موجودہ دور میں حیرت انگیز دریافتیں ہو رہی ہیں۔ ایک خاص مسئلہ جس سے بہت سے خاندانوں کے کافی افراد اثر ا نداز ہوتے ہیں وہ ہے موٹاپا ۔ یہ ذیابطیس، دل کی بیماریوں اور دیگر بیماریوں کی جڑ ہے۔ع
گزشتہ مقالوں میں میں نے شعبۂ حیاتیاتی سائنس میں رونما ہونے والی حیرت انگیز دریافتوں کا ذکر کیاتھا جن میں نابینا افراد کا اپنی زبان کے ذریعے جزوی بینائی حاصل کرنا، معذور افراد کا سوچ کے ذریعے کنٹرول کے
گزشتہ مقالے میں میں نے حیاتیات کے میدان میں رونما ہوئی پیش رفتیں گوش گزار کیں جس میں ترقّی میں تیزی پودوں اورجانوروں بشمول انسانوں کی جنیاتی ساخت کی بہتر سمجھ بوجھ سے متعلق تھی۔ تقریباً 3ارب’حروف ‘
اسلام میں پارلیمانی نظامِ جمہوریت کا کوئی نظریہ نہیں ہے ۔ یہ نظام ہمیں برطانویوں سے وراثت میں ملا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کے اطلاق میں شدید کوتاہیاں سامنے آئی ہیں۔اسلامی نظریئے کے تحت ’شوریٰ ‘ ہے جو ک
پچھلی حکومت کے دوران اعلیٰ سطح پر کی گئی بدترین بدعنوانی کے نتیجے میں قومی قرضے دگنے سے بھی زیادہ ہوگئے اور مہنگائی آسمانوں سے باتیں کرنے لگی۔ اب سوال یہ ہے کہ مو جو دہ حکومت کو ان مسائل سے نمٹنے کے ل
اعلیٰ تعلیمی کمیشن ایک بار پھرحملے کی زد میں ہے اور اس بار حکومت سندھ کی جانب سے۔ پچھلی حکومت کی جانب سے تعلیم کے لئے بیرونِ ملک بھیجے گئے ہزاروں طلبہ کے وظائف روک لئے گئے تھے حتیٰ کہ تعلیم جاری رکھنے
شیکسپئیر نے جولیس سیزر میں ایک دفعہ لکھا تھا کہ ـ’’برائیاں انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی یاد رہتی ہیں جبکہ اسکی اچّھائیاں اسکے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں‘‘۔ جس طرح کسی بھی انسان سے غلطیاں سرزد
شعبہ حیاتیات میں حقیقتاً بڑی حیرت انگیز دریافتیں ظہور پذیر ہو رہی ہیں ۔پودوں اور جانوروں کی زندگی سے منسلک تمام معلومات ان کے DNA میں درج ہوتی ہیں۔ DNA خلیے کے اہم مرکوزے (nucleus) میں موجود ہوتا ہے ا
گزشتہ مقالے میں میں نے توانائی کے میدان میں حیرت انگیز پیش رفت کا زکر کیا تھا اسی سلسلے میں مزید دلچسپ وحیرت انگیز پیشرفت نظرِقارئین ہے جن سے پاکستان بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ photosynthesis کے عمل کے
اس دریافتوں کی حیرت انگیز اور دلچسپ دنیا میں حقیقت تخّیل سے بھی زیادہ عجیب اور حیران کن ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ مقالے میں ہوشیار جنگٰی ہتھیاروں کا ذکر کیا تھا کہ کیسے دیوار کے پیچھے چھپے دشمن کو ایک مخص
میں نے اپنے گزشتہ مقالوں میں جینیات اور نینوٹیکنالوجی کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا تھا کہ کس طرح یہ دونوں شعبے معروف و مقبول ہو رہے ہیں اور ہماری روز مرّہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک شعبہ
جیسا کہ گزشتہ مضمون میں میں نے گوش گزار کیا نینوٹیکنالوجی نے الیکٹرانک، دوا سازی اور دیگر شعبوں میں کس قدر موثر اثرات مرتب کئے ہیں ۔اسی طرح حیاتی سائنس میں بھی گزشتہ چھ دہائیوں سے دلچسپ پیشرفت ہو رہی
جدید ٹیکنالوجی کے نمود نے ترقّی پذیر ممالک کے لئے ترقّی کی بہترین راہیں ہموار کر دی ہیں ۔انہی میں سے ایک شعبہ نینو ٹیکنالوجی ہے۔ اس شعبے کی خصوصیات بڑے دلچسپ انداز سے آشکار ہوئی ہیں جب کسی بھی مواد کو
پاکستان کی معیشت تباہ حال ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں غیر ملکی قرضے دگنے سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں اور ملک تقریباً دیوالیہ ہو گیا ہے۔ اس دلدل سے باہر نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈر ملکی پالیسیوں پر
دنیا ی آبادی سات ارب سے تجاوز کر چکی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق 2050ءء تک یہ تعداد 9ارب سے بھی مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ جو کہ ہماری بقاء کے لئے شدید خطرہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ زمینی تپش میں اضافے (global
کرئہ ارض کی آبادی 17ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور 2050ءء تک یہ تعداد 10ارب تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پانی، خوراک اور تعلیم تک رسائی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آنے والی ہے۔ اس
انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ پچھلی حکومت کی طرف سے رچایا گیا لوٹ مار کا بازار اب ایک بھیانک خواب کی طرح پیچھے رہ گیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ روشن مستقبل کے حصول کیلئے ہم سب مل کر کمر بستہ ہو جا
ہم اُس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ترقی کی پیمائش جدت طرازی کے بل بوتے پر کی جاتی ہے۔ جہاں حقیقت خواب و خیال سے کہیں زیادہ حیرت انگیز ہے۔ جدت طرازی جس معرکة الآرا انداز سے ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہ
اس ملک کو دیوالیہ بنانے اور تباہی پر لا کھڑا کرنے میں ہمارے ملک میں بدقسمتی سے رائج ایک روایت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جس میں وزارتوں اور دیگر اونچے عہدوں پر فائز لوگ جب حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو لوٹ مار مچاتے
گزشتہ پانچ سالوں سے الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے بدمعاشوں کی حمایت میں عجب ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ یہ مہربانی اُن ارکانِ پارلیمینٹ کی حمایت میں ہے جو جعلی ڈگریوں کے سہارے 2008 ء کے انتخابات
آج پاکستان وسیع پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کے عوض تباہ حال کھڑا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پنج سالہ دور پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور تھا، جہاں 18کھرب سے زائد ر
چار مارچ 2013ء کو ملائیشیا کی سب سے بڑی جامعہ، یونیورسٹی ٹیکنالوجی مارامیں پروفیسر عطاء الرحمن تحقیقی ادارہ چار برائے قدرتی مرکبات کی دریافت کا افتتاح ایک شاندار تقریب کے ذریعے منعقد ہوا۔ یہ ملائیشیا
اکیس(21) فروری 2013ء کو سندھ اسمبلی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کا قانون جاری کیا۔ جس کے تحت تمام صوبائی جامعات کا اختیار صوبائی ہائر ایجوکیش
بڑی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ترقی پذیر ممالک اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ انکی سماجی و اقتصادی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہے۔ بالخصوص اعلیٰ تعلیم پر۔ وہ واحد اور سب سے اہم عنصر جس پر تعلیم کا معیار م
ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)شاید وہ واحد ادارہ ہے جو جزوی طور پر حالیہ برسوں میں قومی اداروں کی منظم تباہی سے بچ گیا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی یہ بھی تباہ ہو جائے گا اس پر کئی حکومتی حملے ہو چکے ہیں
ملک کی سیاسی فضا میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اس امید کے ساتھ کہ پاکستان میں بدعنوانی، غربت اور ”جاگیرداریت‘ (میرا ایجاد کردہ لفظ جو جاگیردارانہ نظامِ جمہوریت“ کے غلبے کی بہترین عکاسی کرت
سالِ نو کی آمد کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کی سیاسی فضائیں بھی تبدیل ہو رہی ہیں، ہر ایک کی نظر میں ایک امید کی کرن جاگی ہے کہ اس نئے سال کی شروعات بدعنوانیوں سے پاک پاکستان سے ہو۔ جن افراد نے اس سرزمین
آج پاکستان کی حالت اُس دہانے پر ہے کہ اس کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جا سکتا ہے۔ جعلی رینٹل پاور منصوبوں کی بدولت صنعتیں بدترین بدحالی کا شکار ہیں۔ جس میں چند بااثر شخصیات نے اربوں روپے بیرونِ ممالک خ
دو ہزار تین ء سے دو ہزار آٹھ ء عرصہ پاکستان کی تاریخ کا وہ باب ہے جس میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں معرکتہ الآرا تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی بدولت جامعات کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔ 2000 ء تک بین الاقوامی جر
بمطابق وولف گنگ وولٹر مشہور جرمن پروفیسر 2002ء تا 2008ء پاکستان کی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم کے میدان کا سب سے سنہری دور تھا۔اور اپنے ان خیالات کا اظہار پاکستان کے ایک مشہور اخبار نومبر 2005ء میں ”سنہری د
عصرِ حاضر میں وہ واحد عنصر جو ایک قوم کی قسمت اور سماجی و اقتصادی ترقی کا تعین کر سکتا ہے، وہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی۔ یہ سائنسدان اور انجینئر ہی ہیں جو اس دنیا کو تبدیل کر رہے ہیں۔اس کا واضح ثبوت ٹیکن
آج پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس کی ترقی کی شرح اسی خطے کے دوسرے ممالک (مثلاً بنگلا دیش، سری لنکا، انڈیا) کے مقابلے میں کہیں کم ہے جبکہ یہ ممالک نہایت سبک رفتاری سے ترقی کی راہوں پر گامز
پچھلی دہائی میں جدید مشینوں کی تخلیق میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی ہے ۔ برقی آلات مختصر ترین صورت میں تشکیل ہو رہے ہیں۔جن کا استعمال جاسوسی اور دفاعی مقاصد کے لیے بھی ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک دریافت rob