اعلیٰ تعلیم میں ایک انقلاب

Saturday / Jun 01 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

کرئہ ارض کی آبادی 17ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور 2050ءء تک یہ تعداد 10ارب تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی پانی، خوراک اور تعلیم تک رسائی کے لیے بہت بڑا چیلنج بن کر سامنے آنے والی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیر تعداد میں نئے کالج اور جامعات کے قیام کی ضرورت ہوگی تا کہ مختلف شعبوں میں حصولِ تعلیم کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ یہ بہت زیادہ تعداد میں نئے کیمپسوں کے قیام سے بھی ممکن ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مناسب تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ دستیاب نہیں ہو سکیں گے۔لیکن ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ گزشتہ دہائی سے تکنیکی علوم میں ترقی کی بدولت نئے موا قع اور راہیں کھل گئی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی آمد سے نہایت سبک رفتار انٹر نیٹ نے ہمیں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اب نہایت طویل فاصلوں سے نہ صرف ایک سیکنڈ سے کم عرصہ میں رابطہ ہو سکتا ہے بلکہ ا نسا نو ں کے 3Dہولو گرافک عکس ہمارے سامنے آکر ہم سے بات چیت کر سکتے ہیں۔عصرِ حاضر میں جامعات اور کالجوں میں ہونے والے کورسز کے انداز میں واضح تبدیلی آگئی ہے اب انٹر نیٹ پر مختلف ذرائع سے بلا معاوضہ لاکھوں کی تعداد میں عمدہ کورسز دستیاب ہیں ۔چیلنج یہ ہے کہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہمارا مطلوبہ مواد کہاں دستیاب ہے اور کیسے اس تک جلد رسائی کی جائے۔ لہذا اس تلاش کے عمل کو آسان بنانے کے لیے ہم نے پاکستان میں اپنے ادارے (بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیاوی وحیاتیاتی علوم ، جامعہ کراچی) میں ویب سائٹ پر بہتر تلاش کا انجن بنایا ہے جو کہ صرف منتخب ذرائع میں تعلیمی مواد کو تلاش کرتا ہے اور پھر سیکنڈوں میں مطلوبہ کورس ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ اس طرح طلباء دنیا کے چوٹی کے ہزاروں عالموں کے عمدہ ریکارڈ کردہ کورسز سے مستفید ہوسکتے ہیں۔اب وہ لیکچروں کے لیے پہلے سے تیار ہو کر آ سکتے ہیں۔لیکچر ہال میں ایک نمایا ں تبدیلی رونما ہو گی۔ اب لیکچر ہال سوالات و جوابات سیشن میں تبدیل ہو جائے گا، تا کہ ہر طالب علم اپنے تصورات کی وضاحت استاد سے حاصل کر سکے۔یہ ہے اعلیٰ تعلیم میں وہ انقلاب جس کا میں حصہ ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری زندگی کا سب سے اہم منصوبہ ہے۔ جس سے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کی نوجوان نسل پر ذو افشاں اثرات مرتب ہوں گے ۔ حال ہی میں بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیاوی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی اور ”پائی پاکستان“ کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کئے گئے ہیں جس کے تحت پاکستان میں مفت تعلیمی چینلز ٹیلی ویژن اور انٹر نیٹ پر شروع کئے جائیں گے جس کے تحت کثیر التعداد کورسز بلا معاوضہ پاکستانی اور بیرونِ ملک مقیم طلباء کے لیے باآسانی دستیاب ہوں گے ۔ اس دلچسپ اور تاریخی منصوبے کے مشاورتی بورڈ کا میں چیئرمین ہوں اور یہ منصوبہ میری اور پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کی نگرانی میں ظہورپذیر ہو رہا ہے۔ سائنسی ، انجینئرنگ، سوشل سائنس اور دیگر علوم میں ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر کے عمدہ ترین اساتذہ کے معیاری کورسز کسی معلوماتی خزانے سے کم نہیں اور چند ہی ہفتوں میں یہ خزانہ ایک مربوط و منظم انداز سے ایک عام شہری کے لیے دستیاب ہونے کی توقع ہے۔ ان ویب سائٹ پر MITمیں دنیا کی چوٹی کی جامعات یعنی MIT۔ ہارورڈ۔ اسٹینفورڈ اور خان اکیڈمی،یوڈلیسٹی ،(ہارورڈ) کے کورسز شامل ہیں۔ 2005ءء میں پاکستان میں HECنے MIT اوپن کورسز کی آئینہ و یب سا ئٹ قائم کی تھی۔ یہ تیزی سے ان کورسز تک رسائی کی سہولت کے لیے کیا گیا تھا۔ MIT پہلا ادارہ تھا جس نے اپنے کورسز تمام دنیا والوں کے لیے بلا معاوضہ بہم پہنچانے کے لیے قدم اٹھایا۔ ان کورسز کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کے بعد کچھ دس ہزار سی ڈی تیار کی گئیں اور ملک بھر کی جامعات کے کمپیوٹر سائنس کے شعبوں تک بھیجی گئیں ۔یہ وہ کورسز تھے جو کہ خود MITکے اساتذہ اپنی انڈر گریجویٹ اور ماسٹرز کے طلباء کو دیتے ہیں۔ یہ کورسز بلا معاوضہ دستیاب ہیں۔ دنیا بھر سے تقریباً11کروڑ طلباء نے ان تک رسائی کی ہے اور اس بیش بہا مواد سے استفادہ کیا ہے۔ تقریباً 215ممالک سے سالانہ 2کروڑ سے زا ئد طلبا ان کورسز تک رسائی کرتے ہیں۔ ایک اور بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والا فاصلاتی علمی نصا ب کورسیرا کوبھی ہمارے پروگرام میں شامل کیا گیاہے ۔چند سال قبل ”کورسیرا “کا قیام اسٹین فورڈ کے کمپیوٹر سائنس کے دو پروفیسروں جناب اینڈریو این جی اور ڈیفنی کولر نے کیا تھا۔ آج ”کورسیرا “ میں20 لاکھ سے زائد طلبا مستفید ہو رہے ہیں۔جہاں 200سے زائد نصاب پیش کیے جاتے ہیں۔ جامعہ ہاروڈ اس فاصلاتی تعلیم کی دوڑ میں اپنا کردار نبھانے میں کیسے پیچھے رہ جاتی۔ جامعہ ہارورڈ نے MIT کے اشتراک سے ”ایڈ ایکس“ Edx کے نام سے ایک آن لائن کورس شروع کیا ہے جس کے لیے دونوں جامعات نے 30ملین ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ایک اور پروگرام جس سے پاکستان مستفید ہو سکتا ہے وہ ہے ”خان اکیڈمی “ کیلیفورنیا کے پیش کردہ کورسز جو کہ تقریباً آٹھ ہزار اسکول اور کالج کی سطح کے کورسز پر مشتمل ہیں۔جن میں سے اکثر کو اردو، عربی اور فرانسیسی زبانوں میں بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہمیں ان تنظیموں کی طرف سے ان کورسز کو ہمارے پروگرام میں ضم کرنے کی اجازت مل گئی ہے تا کہ یہ کورسز غیر تجارتی بنیادوں پر پاکستان اور دیگر ممالک کے طلباء کے لیے دستیاب ہو سکیں۔ ہماری جامعات کو ان کورسز کو اپنے جاری پروگراموں میں ضم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ انکی بنیاد پر امتحانات لیئے جائیں تا کہ ہمارے ملک کے طلبا اس سہولت سے بھر پوراستفادہ حاصل کر سکیں۔ اسی مسابقت سے ایک وڈیو کانفرنسنگ کاپروگرام 2004ءء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پورے پاکستان کی جامعات میں شروع کیا تھا۔ اس کے تحت ,USAیورپ، آسٹریا اور جاپان کے اعلیٰ ترین درجہ پرفیسر بر اہ راست ہمارے طلباء تک 2,000 سے زائد لیکچر دے چکے ہیں۔ 2000 ءء سے 2002ءء میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا اس وقت پاکستان میں IT دور میں داخل ہونے کے لیے پہلے بڑے اقدامات میں نے اٹھائے تھے۔ ڈھائی (2.5) سال کی قلیل مدت جو کہ مارچ 2000ءء سے ستمبر 2002ءء پر محیط تھی پاکستان میں رونما IT اور موبائل ٹیلی فون کی تیز ترین ترقی کی تا ریخ گواہ ہے۔ 2000ءء میں انٹر نیٹ تک رسائی صرف 29شہروں ہی تک محدود تھی ۔ جو کہ اگلے دو سالوں کے دوران وسیع ہو کر 2000 شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں پر محیط ہو گئی۔ فائبر 40 شہروں سے بڑھا کر 1000 شہروں تک پھیلا دیا گیا۔ اس سے پہلے بینڈ وڈ تھ کی قیمت بہت زیادہ تھی یعنی 2MB کی لائن پر 87000 ڈالر مہینہ تھی۔ جو کہ بہت کم کر کے 3,000ڈالر فی مہینہ کیا گیا اور بعد میں اور کم ہو کر 900ڈالر فی مہینہ کر دیا گیا۔ اس طرح پاکستان میں دینابھر سے سستا انٹر نیٹ دستیاب ہونے لگا۔موبائل ٹیلی فون بھی ملک بھر میں صرف 300,000 ٹیلی فون تک محدود تھی۔ اس اہم شعبے کو فروغ دینے کے لیے قمیتوں میں تیزی سے کمی کی گئی ۔ یو فون کو متعارف کرایا گیا ۔ ایک عام شہری اس لئے موبائل فون رکھنے سے ہچکچاتا تھا کہ اس کو کال موصول ہونے کے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے تھے۔اس کو ختم کر دیا گیا اب پاکستان میں جو کال کرتا ہے وہی اسکے پیسے ادا کرتا ہے۔ اس کیلئے " "Calling Party Pays کا نظام متعارف کرایا گیا دوسرے ضروری اقدامات بھی اٹھائے گئے جس کے نتیجے میں موبائل ٹیلی فون کے شعبے نے نہایت تیزی سے ترقی کی۔ اب پاکستان میں 2001ءء کے 3لاکھ موبائل فون کے مقابلے میں حیرت انگیز طور پر ایک کروڑ 20لاکھ موبائل فون ہو گئے ہیں۔ تعلیمی مقا صد کے لئے خلا میں سیارہ(Pak Sat 1) بھیجا گیاجس میں کچھ حصے لاہور میں قائم ورچوئل جامعہ کے فاصلاتی علمی نصاب کیلئے مختص کر دیئے گئے۔ آج ورچوئل جامعہ ایک لاکھ سے زائد طلبا ء کو معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہے۔IT ساخت سازی میں تیزی سے ترقی نے مجھے حوصلہ دیا کہ بحیثیت چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے میں اس اعلیٰ تعلیمی شعبے کو مزید مستفید کر سکوں لہٰذا ایک ڈیجیٹل لائبریری قائم کی گئی جس کی بدولت 220بین الاقوامی کمپنیوں کے شائع کردہ پچیس ہزار بین الاقوامی جرنلوں اور 65ہزارنصابی کتب تک ہماری جامعات کے طلباء کو رسائی ممکن ہو ئی۔وہ آن لائن کورسز جو کہ وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے چند ہفتے بعد ٹی وی اور انٹر نیٹ کے ذریعے پورے پاکستان میں مہیا کئے جارہے ہیں ایک بہت بڑا تعلیمی انقلاب برپا کر یں گے اور اس سے اسکول کا ٰلج اور یونیورسٹی کا تعلیمی معیار بہت تیزی سے بلندی کی طرف بڑ ھے گا اور پاکستان کی تاریخ میں یہ انشااللہ ایک سنہری باب تصوّر ہوگا یہ نہایت ہی طاقتور قدم ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو تیزی سے مغرب کے برابر پہنچانے کی ضمانت ہے۔ معیار تعلیم میں بہتری ہماری نوجوان نسل کیلئے روزگار کے بہت سے مواقع فراہم کر سکتی ہے۔تا کہ ہم آج اور آنے والے کل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اچھی طرح تیار ہوں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں