کیاالیکشن کمیشن تباہی مچا رہا ہے؟

Friday / Apr 19 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ پانچ سالوں سے الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک کے سب سے بڑے بدمعاشوں کی حمایت میں عجب ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ یہ مہربانی اُن ارکانِ پارلیمینٹ کی حمایت میں ہے جو جعلی ڈگریوں کے سہارے 2008 ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل قرار پائے تھے اور اقتدار میں آتے ہی ملک کے کھربوں روپے لوٹ مار کر کے کھا گئے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں ان برسرِاقتدار اراکین نے تقریباً 8000/+ / ارب روپوں کی لوٹ مار کی ( 100 کروڑ کو 18,000 ہزار سے ضرب دیں تو یہ رقم بنتی ہے) اور ملک کو بھاری قرض کے بوجھ تلے دبا دیا۔ یہ لوٹی ہوئی رقم تقریباً 180/ارب ڈالر کے برابر ہے جبکہ ہم امریکہ سے 2/ارب ڈالر سالانہ کی امداد کس مشکل سے حاصل کر پاتے ہیں لہٰذا اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کس پیمانے پر ملکی اثاثوں کی بربادی کی گئی ہے۔ پاکستان کو بری طرح سے نچوڑا گیا ہے اور آج پاکستان درحقیقت ایک دیوالیہ ملک ہے۔ ہم عالمی مالیاتی فنڈ(IMF) کو اگلی قسط اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک ہم اپنی مدد کے لئے کہیں اور سے قرض نہ لے لیں۔یہ تمام کارنامے ہماری عدلیہ اور فوج کی نظروں کے سامنے ہوتے رہے اور وہ خاموش تماشائی بنے اس لوٹ مار کے بازار کو چلتا دیکھتے رہے۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن نے چار سال پہلے جاری کردہ ملک کے اعلیٰ عدالتی فیصلے کو بھی نظر انداز کر دیا جس میں ان ”معزز“ اراکانِ پارلیمینٹ کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کیلئے واضح احکام تھے۔ دوسری طرف ملکی خزانہ دن دہاڑے لٹتا رہا۔ ان حرکتوں سے پیدا ہونے والے بحران کی بدولت ملک شدید غربت کا شکار ہو گیا ہے۔ جس نے امن و امان کی صورتحال کو تہس نہس کر دیا۔ بیروزگار نوجوان اپنے پیاروں کو بھوک و افلاس سے تڑپتا دیکھ کر سڑکوں پر نکل آئے اور پہلے چھوٹی موٹی چھینا چھانی مثلاً موبائل فون چھیننا وغیرہ سے لے کر پستول کے زور پر لوٹ مار جیسے سنگین جرائم کی طرف رخ کرنے لگے۔ اسی دور کے ایک سابق وزیرِ اعظم پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات ہیں جن میں متروک قیمت کی حد سے بہت زیادہ قیمت پر توانائی کے پیداواری بوسیدہ پلانٹس کو کرائے پر لینے کا الزام بھی شامل ہے۔ اس سے توانائی کی قیمت 50روپے فی یونٹ تک آ گئی ہے ۔برخلاف دوسرے پلانٹس کے جہاں کی توانائی 6سے 8روپے فی یونٹ ہے۔ سارا لوٹا ہوا مال بیرونِ ملک اکاؤنٹس میں جمع کرادیا گیا ہے جبکہ ملکی صنعتیں تباہ حال کھڑی ہیں جس کی بدولت لاکھوں افراد بیروزگار ہو گئے ہیں۔ وہ جمہوریت جس کاحسین خواب قائدِاعظم نے دیکھا تھا وہ ایک بھیانک تعبیر کی مانند ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے پانچ سال پہلے ہی اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نبھایا ہوتا اور انتخابی امیدواروں کی دستاویزات کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی ہوتی تو آج ان میں سے بہت سے امیدوار جو صاحب اقتدار ہیں وہ اس قسم کی بدعنوانی کرنے کے لئے موجود ہی نہ ہوتے اور پاکستان جس تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اس سے محفوظ رہتا۔ سب سے خطرناک صورتحال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اب بھی ”بدمعاشوں کو تحفظ دو“ کی پالیسی پر چل رہا ہے اور ہر ممکن کوشش میں ہے کہ کسی بھی طرح ان ”جعلسازوں“ کو جانچ پڑتال سے چھٹکارا مل جائے اور اگلے انتخابات میں پھر سے بحیثیت امیدوار اہل قرار پا جائیں ۔ ان کے اس منصوبے کا اندازہ اس خط سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جوHEC کے چیئرمین نے حال ہی میں الیکشن کمیشن کو بھیجا ہے۔ جس کی نقل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھی بھیجی گئی ہے جس سے الیکشن کمیشن کے ارادے صاف ظاہر ہو رہے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے کسی سیاسی دباؤ یا کسی اور پُرکشش پیشکش کی وجہ سے ان 27/ارکان کو اہل قرار دے دیا ہے جن کی ڈگریوں کوHEC نے جعلی قرار دے دیا تھا۔ یہ بات واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کو کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ڈگریوں کو جعلی یا مستند قرار دے۔HEC آرڈیننس کے تحت یہ اختیار صرف اس ادارے کو حاصل ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے اُن 27/ارکان کی ڈگریوں کو مستند قرار دینے کا فیصلہ غیر قانونی ہے اور ان عزائم کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہی بدمعاش پھر برسرِاقتدار آئیں گے۔ اسی طرح سے لوٹ مار مچائیں گے اور بغیر سزا پائے ہمیشہ کی طرح بچ نکلیں گے۔HEC نے باقاعدہ باضابطہ طریقے سے4مارچ 2013ء کو بھیجے گئے خط میں الیکشن کمیشن کو 27/اراکینِ پارلیمینٹ کی ڈگریوں کو مستند قرار دینے کے عمل کو غیر قانونی اورناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس بات کا ازخود برجستہ نوٹس لیا ہے اور اگر الیکشن کمیشن ان کارروائیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے اور ”بدمعاشوں کو تحفط دو“ کا عمل جاری رکھنے کا مرتکب قرار پاتا ہے تو فوری طور پر نیا کمیشن قائم کرنے کا حکم جاری کرنا چاہئے۔ ایک اور خطرناک صورتحال یہ بھی ہے کہHEC کی طرف سے گزشتہ ڈھائی سال سے بارہا یاد دہانیوں کے باوجود 189 پارلیمینٹ کے ایک بڑے گروپ نے اپنی دستاویزات جانچ پڑتال کے لئے جمع کرانے سے صاف انکار کر دیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے اور وہ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ محض جانچ پڑتال سے انکار کرنے سے ان کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی۔ ان تمام لوگوں کی ڈگریوں کو جعلی قرار دے دینا چاہئے جنہوں نے بھی تک اپنی دستاویزات جمع کرانے سے انکار کیا ہے اور انہیں اگلے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دینا چاہئے اور بلاتاخیر ان کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کئے جانے چاہئیں۔ اس سلسلے میں بھی سپریم کورٹ کا حالیہ حکم قابلِ تحسین ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پانچ سال تک سونے کے بعد الیکشن کمیشن اس وقت جاگا ہے جب ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ والا واقعہ ہوا ۔ اس کے نتیجے میں ثناء اللہ ملک، ڈائریکٹر (قانونی امور) نے ایک خط جاری کیا جس میں 249 سابق ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو 22فروری تک کا وقت دیا گیاکہ وہ اپنے تمام دستاویزات جمع کرادیں اور نہ جمع کرانے کی صورت میں ان کی ڈگریوں کو جعلی تصور کیا جائے گا اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی جائے گی۔ اس خط میں اسکول کی اسناد بھی جمع کرانے کے احکامات شامل تھے۔ یہ اس لئے ضروری تھا کہ کچھ ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے سیاسی دبدبہ استعمال کرتے ہوئے جعلی ڈگریاں جامعات سے جاری کرائی تھیں۔ اس معاملے میں ڈاکٹر نذیر مغل، شیخ الجامعہ سندھ یونیورسٹی کا ایسی ڈگریاں جاری کرنے میں بڑا گہرا ہاتھ کہا جاتا ہے۔ مستقل سیاسی دباؤ اور دوسری ”وجوہات“ کی بنا پر اب الیکشن کمیشن نے اپنے 22فروری کے خط میں جاری کئے گئے احکامات سے انحراف کرتے ہوئے ان 249/ارکان پارلیمینٹ کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی کرنے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 22فروری کی مدت گزر جانے کے ہفتوں بعد بھی الیکشن کمیشن نے ان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے نہ ہی ان 189قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کئے ہیں۔ جنہوں نے اپنی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے فوری طور پر الیکشن کمیشن پر اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتنے پر سخت تنبیہ کی ہے۔ جن کی حمایت کی بدولت ان جعلسازوں کو راہ فرار مل رہی ہے۔ یہ واضح رہے کہ جب بھی کوئی عام شہری اپنی ڈگری تصدیق کے لئے جمع کراتا ہے تو HEC اس سے اس کے اسکول کی اسناد بھی جمع کرنے کی درخواست کرتا ہے، یہHEC کا معمول ہے پھر کوئی وجہ باقی ہی نہیں رہ جاتی کہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو اپنی دستاویزات جمع کراتے وقت اسکول کی اسناد جمع کرانے میں چھوٹ دی جائے یا نرمی برتی جائے۔ حال ہی میں یہ بات کھلی کہ وقاص اکرم سابق وزیرِ تعلیم و تربیت کی A لیول اسکول کی سند بھی جعلی ثابت ہوئی اور وہ موصوفHEC کو تباہ کرنے کے لئے بری طرح سے تلے ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن اب ان حضرت کے خلاف قانونی اقدام اٹھانے کا پابند ہے۔ پاکستان اس وقت ایسے مقام پر کھڑا ہے کہ اس کو بچانے کے لئے ہمیں حکومت کے لئے صاف شفاف کردار کے مالک افراد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کام کو یقینی بنانے کے لئے الیکشن کمیشن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے مگر افسوس کہ الیکشن کمیشن ”بدمعاشوں کو تحفظ دو“کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ ”معززین“ کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کئے جانے چاہئیں جنہوں نے جانچ پڑتال کے لئے دستاویزات جمع کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے189 ارکان ہیں جنہوں نے ایسا کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن اب بھی ان کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکا۔ اخبارات میں یہ بھی خبریں شائع ہوئی ہیں کہ الیکشن کمیشن اگلے انتخابات کے امیدواروں کے سارے کاغذات ویب سائٹ پر نہیں شائع کر رہا تاکہ وہ7دن گزر جائیں اور ایسے افراد جنہوں نے غلط کاغذات داخل کئے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو پائے۔ یہ پوری قوم کے مستقبل کے خلاف سازش ہے۔ جانچ بڑتال کے لئے کم از کم 30دن ہونے چاہئیں تھے لیکن حکومتی اور مخالف پارٹیوں نے مل کر یہ7دن کا ڈرامہ رچایا ہے تاکہ بدمعاش پھر بچ کر حکمران بن جائیں،یہ ملک کے لئے شرم کا مقام ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں