ملائیشیامیں پاکستانی سائنسدان کے نام سے ادارہ قائم

Tuesday / Mar 26 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

چار مارچ 2013ء کو ملائیشیا کی سب سے بڑی جامعہ، یونیورسٹی ٹیکنالوجی مارامیں پروفیسر عطاء الرحمن تحقیقی ادارہ چار برائے قدرتی مرکبات کی دریافت کا افتتاح ایک شاندار تقریب کے ذریعے منعقد ہوا۔ یہ ملائیشیا کی سب سے بڑی جامعہ ہے جس کے 20 کیمپسوں میں تقریباً 2 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور عالمی معیار کا تحقیقی ڈھانچہ تشکیل دینے کے عمل میں سرگرداں ہیں۔ اس تحقیقی ادارے کے قیام کا اعلان گزشتہ سال ملائیشیا کے بادشاہ سلطان میان زین العابدین نے عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان میں میرے سائنس و اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں اعزازی ڈگری برائے ڈاکٹریٹ آف سائنس کے موقع پر کیا۔ 4مارچ کی شاندار افتتاحی تقریب امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، جاپان اور دنیا بھر سے دیگر ممالک کے اعلیٰ سائنسدانوں سے مزین تھی۔ بحیثیت مہمانِ اعزازی مجھ خاکسار کیلئے یہ یقیناخوش نصیبی اور مسرت کا موقع تھا کیونکہ عموماً کسی تحقیقی ادارے کا کسی سائنسدان کی زندگی میں اس کے نام سے منسوب ہونا ایک اچھوتی بات ہے۔ البتہ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملائیشیا کیوں اسلامی ممالک کی کمیونٹی میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے جس کی تقلید ہم سب کو کرنی چاہئے۔جدید ملائیشیا کے معمار ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم بننے کے فوراً بعد مجھے اندازہ ہوا کہ ملائیشیا کی اصل ترقی کا راز تعلیم میں پوشیدہ ہے لہٰذا حکومتِ ملائیشیا نے فوری طور پر تعلیم پر زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرنا شروع کر دیا جبکہ ایسا کرنے کیلئے انہیں دوسرے شعبوں کی سرمایہ کاری میں کٹوتی کرنا پڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملائیشیا گزشتہ 30سالوں سے تعلیم پر30% بجٹ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ آج قابلِ ذکر حقیقت یہ ہے کہ دنیائے اسلام کی کل اعلیٰ تکنیکی برآمدات کا 86% صرف ملائیشیاء برآمد کرتا ہے جبکہ بقیہ صرف 14% برآمدات تمام 56/او آئی سی رکن ممالک کے ذریعے ہوتی ہے۔ ملائیشیا کی اہم برآمدات میں مائیکرو چپس، سپر کنڈکٹرز، ٹیلی وژن اور دیگر گھریلو مصنوعات شامل ہیں۔ 1970ء میں ملائیشیاایک غریب ملک تھا جس کی مجموعی پیداواری صلاحیت صرف 26ملین امریکی ڈالر تھی اور اس کی معیشت کا انحصار نچلے درجے کی زراعت پر تھا۔ 2011ء تک اس کی مجموعی پیداواری صلاحیت بڑھ کر حیرت انگیز طورپر 280بلین امریکی ڈالر ہو گئی۔پاکستان کو ازخود پیدا کردہ موجودہ اقتصادی بدحالی سے باہر نکلنے کے لئے علم پر مبنی معیشت کی منتقلی کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے کچھ اہم شعبوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ علم پر مبنی معیشت پر پندرہ سالہ منصوبے کا مسودہ2004 ء اور 2005ء میں میری قیادت کے زیرِسایہ تیار کیا گیا تھاجو اگست2007ء میں کابینہ سے منظور بھی ہو گیا تھا۔ اس کے تحت مختلف شعبوں میں مخصوص منصوبوں کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ اس کی کی تیاری میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ملکی و غیر ملکی ماہرین جن میں نجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور وفاقی وزارتوں کے نمائندے اور ماہرین اقتصادیات کی مشاورت شامل تھی۔ اس 300صفحاتی مسودے کی تیاری میں کوریا، سنگاپور، تائیوان اور ملائیشیا کی کامیابیوں اور ان ممالک نے جدت طرازی اور سرمایہ کاری کے لئے جن پالیسیوں کو اختیار کیا ان کا بھی گہرائی سے جائزہ پیش کیا گیا تھا۔1960ء میں کوریا کی صورتحال پاکستان کی موجودہ صورتحال سے مختلف نہیں تھی۔17 سے23سال کی عمر کے محض5% نوجوان اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کر پاتے تھے اور اس کی برآمدات کی شرح صرف 30بلین امریکی ڈالر تھی۔ جنرل پارک کی متحرک قیادت کے زیرِسایہ جنوبی کوریا نے بڑی تیزی سے ترقی کی طرف قدم بڑھائے اور 2010ء تک تقریباً90فیصد 17سے 23سال کی عمر کی نوجوان نسل جامعہ کی سطح پر تعلیم سے مستفید ہونے لگی۔ جنوبی کوریا کی درآمدات کی شرح 350بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کوریا میں تکنیکی ترقی کی حوصلہ افزائی کیلئے ایک قانون جاری کیا گیا جس کے تحت تمام انجینئرنگ کے منصوبے مقامی کمپنیوں کو دیئے جائیں گے اور وہ اس کے بڑے ٹھیکیدار کی حیثیت سے کام کر سکتے ہیں جبکہ غیر ملکی کمپنیاں چھوٹے ٹھیکیداروں کی حیثیت سے محض شراکت داری پر ان منصوبوں پر کام کر سکتی ہیں اس کے علاوہ مقامی کمپنیوں کو تکنیکی صلاحیتوں کے فروغ اور تکنیکی شعبے میں سیکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کیلئے مالی ترغیبات بھی دی گئیں۔دوسرا ملک جس سے ہم مزید سیکھ سکتے ہیں وہ ہے تائیوان۔ ہن شو سائنس و صنعتی پارک چین کی طرف سے تکنیکی بنیادوں پر کمپنیوں کے قیام کو فروغ دینے کیلئے کئے گئے بہت سے اقدامات میں سے ایک ہے۔ اس سائنس پارک میں 40%سے زائد کمپنیاں امریکی تعلیم یافتہ تائیوانیوں ہی نے شروع کیں۔ اس عمل کی سہولت کے لئے پارک ہی سے متصل جدید اور عمدہ طرز کی رہائشی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ ساتھ ہی قانونی اور مالی خدمات کی بھی سہولت پارک میں فراہم کی گئی۔ یہ پارک 1980ء میں وجود میں آیا اور جلد ہی ایک بڑی کامیابی بن گیا اور20سال کے عرصہ 0 102,00 کارکنوں کو ملازمتیں فراہم کیں جن کے ذریعے تقریباً 28بلین امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری کا سب سے تیز ماحاصل اور غربت کے خاتمے کیلئے سب سے زیادہ اثر انگیز شعبہ زراعت میں ترقی ہے کیونکہ اضافی زمین اور پانی کے وسائل محدود ہیں، تو ہمیں اپنی فصلوں کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے تکنیکی طور پر پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لئے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ فصلوں کی پیداوار ہمارے ملک میں ترقی یافتہ ممالک کی پیداواری صلاحیت سے نہایت کم ہے بلکہ چند ترقی پذیر ممالک سے بھی کم ہے۔ اس کی سب سے اچھی مثال گندم ہے جو ہماری مجموعی پیداواری صلاحیتGDP کا2.9% حصہ ہے تاہم گندم کی پیداوار نہایت کم ہے یعنی ملکی اوسط صرف 2.3ملین ٹن فی ہیکٹر(2.3 MT/HA)ہے جبکہ ترقی پسند کسان اسی پیداوار کو دگنا کر سکتے ہیں لہٰذا زراعت کے مناسب طریقے استعمال کئے جائیں تو بہت زیادہ پیداوار ی صلاحیت موجود ہے اور تقریباً2% -3% اضافی حصہ ہم اپنی GDP کے لئے حاصل کر سکتے ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی تکنیک کے استعمال سے کیڑے مکوڑے کی قوتِ مزاحمت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ زرعی عوامل کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے جس میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کیلئے جدید تکنیکی عوامل شامل ہیں اور بائیوٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت سی فصلوں مثلاً گندم ، چاول، کپاس، پھل، سبزیاں اور پھولوں کی ایسی اقسام حاصل کی جا سکتی ہیں جن میں بیماری نہ لگے اور جس سے ان فصلوں کی پیداواری صلاحیت بڑھے۔دوسرا سب سے اہم شعبہ انجینئرنگ ہے۔ انجینئرنگ کے شعبے میں گھریلو مصنوعات کی تیاری بحری جہازوں کی تعمیر، ہوائی جہازوں کی تیاری سے لے کر بجلی کی مصنوعات مثلاً کمپیوٹر اور کمپیوٹر چپس، دفاعی آلات اور صنعتی مشین وغیرہ شامل ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جس زمانے میں، میں HEC کا چیئرمین تھا HECنے انجینئرنگ کی تعلیم کو مضبوط بنانے پر بھرپور توجہ دی تھی۔ مزید دیگر شعبے جو توجہ کے طلبگار ہیں وہ ہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی ،ذرائع مواصلات ،دواسازی کی صنعت، توانائی، کپڑا سازی کی صنعت، چمڑے کی صنعت ، معاشی اور سماجی سائنسز بھی شامل ہیں۔ ان سب شعبوں کے لئے معیاری انسانی وسائل اور عمدہ کارکردگی کے مراکز کے قیام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ سرمایہ کاری اپنی اصل دولت یعنی نوجوان نسل پر کرنی چاہئے تاکہ ہمارے ملک کے 19سال سے کم عمر کے ایک کروڑ سے زائد نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جا سکے، ترقی کے لئے ملک کو اپنیGDP کا کم از کم7% حصہ تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا۔ جس کا ایک چوتھائی حصہ اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص ہو۔ اس کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پروگراموں میں بھی توسیع کرنی چاہئے۔ افسوس کہ جعلی ڈگریوں کے حامل 200پارلیمانی اراکین اس ادارے کو تباہ کرنے پر تلے ہیں کیوں کہ ان کے غلط عزائم کو اس ادارے سے خطرہ ہے۔ ہم علم و آگاہی کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں اور صرف وہی ممالک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں جو اعلیٰ و معیاری تحقیق اور نئی مصنوعات کی مد میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ ملائیشیا کی سب سے بڑی جامعہ کی طرف سے ایک تحقیقی مرکز کو میرے نام سے منسوب کرنے کالیا گیا فیصلہ صرف اس بات کی عکاسی نہیں کرتا کہ یہ ایک سائنسدان کے لئے اعزاز ہے بلکہ دراصل اس کی علامت ہے کہ ملائیشیا کس حد تک تحقیق کو اہمیت دیتا ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں