ایچ ای سی کی تباہی

Wednesday / Feb 27 2013

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)شاید وہ واحد ادارہ ہے جو جزوی طور پر حالیہ برسوں میں قومی اداروں کی منظم تباہی سے بچ گیا ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی یہ بھی تباہ ہو جائے گا اس پر کئی حکومتی حملے ہو چکے ہیں۔ اسے تحلیل کر کے صوبوں میں ضم کرنے کے عزائم اس وقت پایہٴ تکمیل تک نہ پہنچ سکے جب اپریل 2011ء میں میری درخواست پر سپریم کورٹ نے حکومت کے اس قدم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ چند ہی ماہ قبل دوسرا حملہ ہوا جب وزیراعظم آفس کی جانب سے غیر قانونی طور پر سیکریٹری برائے تعلیم کو ایگزیکٹو ڈائریکٹر(HEC) کی حیثیت سے مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔ میں نے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور کورٹ نے پھر اس قدم کو غیر آئینی قرار دیا۔ اب پھر تیسری کوشش جاری ہے اس دفعہ اس قانون میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے تحتHEC قائم ہوئی تھی تاکہ اسے پرانےUGC میں تبدیل کر دیا جائے جو پہلے ہی بری طرح ناکام رہی تھی۔ اس کوشش کے پیچھے ہمارے ”معزز اراکین پارلیمینٹ“ کے کیا عزائم ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ 1۔آئندہ انتخابات کا ایک اہم مطالبہ یہ بھی ہو گا کہ امیدواروں کو آئین کی شق نمبر 62، 63 میں طے کردہ شرائط کے تحت دیانت اور ایمانداری کی شرائط پر پورا اترنا ہو گا۔ اس وقت تقریباً 393/اراکین پارلیمینٹ ایسے ہیں جن کی ڈگریاں جعلی ہیں کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی صریحاً نافرمانی کرتے ہوئے اپنے دستاویزی ثبوت فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا تاکہ انہیں نااہل قرار دیتے ہوئے اگلے انتخابات میں حصہ لینے سے روک نہ دیا جائے۔HEC نے یہ بھی معلوم کر لیا تھا کہ ان معزز سیاستدانوں میں سے 51/افراد یقینی طور پر دھوکے اور غیر قانونی طریقے سے جعلی ڈگریوں کے سہارے پارلیمینٹ کا حصہ بن گئے۔ اب یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ ادارہ وزارتِ تعلیم کا حصہ بن کر ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن جائے۔ 2۔HEC کا سالانہ بجٹ 44/ارب روپے ہے جو کہ ایک شفاف فنڈنگ فارمولے کے تحت (طلبہ کو پڑھائے جانے والے مضامین پر منحصر) تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس تقسیم کی منظوری18رکنی کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے جس میں معزز اور قابل شہری اور ماہرینِ تعلیم شامل ہیں۔ ساتھ2 وفاقی سیکریٹری اور چار صوبائی سیکریٹری بھی شامل ہیں تاکہ شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمارے” معزز“ اراکینِ پارلیمینٹ اس خطیر بجٹ کے ادارے پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں۔3۔ قومی جامعات کی زمینوں کی مالیت خود ہزاروں ارب روپے کی ہے۔ بہت سے سیاستدان ان اثاثوں کو ہڑپ کرنے کی کوشش کریں گے۔4۔HEC کے ذریعے طلبہ کو ہزاروں وظیفے میرٹ کی بنیادوں پر جاری کئے جاتے ہیں۔ یہ بدعنوان سیاستدان اپنے چہیتوں کو یہ وظائف جاری کریں گے بجائے اس کے کہ مستحق اور قابل طلبہ (جو کہ عموماً نچلے اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں)۔ ان وظائف سے مستفید ہوں۔ یہ واضح رہے کہ HECکی زبردست کامیابی کے جو مثبت اثرات اعلیٰ تعلیم پر اثر انداز ہوئے ان کا ذکر بین الاقوامی ایجنسیوں اور حکام نے کئی مضامین کے ذریعے مثالی قرار دیا ہے اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھی اس کی پیروی کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان ایجنسیوں میں عالمی بنک، برٹش کونسل، USAID، رائل سوسائٹی (لندن) اور اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی شامل ہیں۔HEC کی ترقی کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری چھ جامعات اب دنیا کی سب سے اچھی 600 جامعات کی صف میں شامل ہیں جبکہ2003ء تک ان میں سے ایک بھی شامل نہیں تھی۔ HECکے تحت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی شاندار ترقی کے بارے میں بھارتی وزریر اعظم کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جو کہ بھارت کے انگریزی اخبار میں شائع ہوئی (بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ ،ہندوستان ٹائمز نہیا مہتا۔23جولائی 2006ء)۔ جس کے بعد بھارت نےUGC کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور HEC ہی کی طرز کا زیادہ اختیارات کا حا مل اور خود مختار ادارہ نیشنل کمیشن آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(NCHER) قائم کرنے کا ارادہ کیا جس کے قیام کی منظوری بھارتی کابینہ سے ہو گئی ہے اور اس وقت منظوری کے لئے لوک سبھا میں موجود ہے۔ قصہ مختصر کہ بھارت تو پاکستان کیHECکی تقلید میں دوسرا ادارہ بنا رہا ہے اور یہاں ہمارے بدعنوان سیاستدان اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جواہر لال نہرو کی شاندار قیادت میں اوائل ہی میں بھارت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہی پر بھارت کی ترقی منحصر ہے۔ جس کے لئے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھارت کا IIT کے اداروں کا شمار دنیا کے بہترین اداروں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی ترقی کے بعد بھارت نے موجودہ پنج سالہ منصوبے میں 80,000 کروڑ روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں 200نئی جامعات، IITکی تعداد 7سے بڑھا کر 16/اور دیگر40/اعلیٰ کارکردگی کے مراکز کا قیام بھی شامل ہے۔ اس طرح 17-23 سال کی عمر کے نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی 17%سے بڑھ کر 30% تک ہو جائے گی جبکہ پاکستان میں یہ شرح محض8%ہے جو کہ موجودہ حکومتی تعلیمی پالیسیوں کی بدولت تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ بھارت نے گزشتہ50سالوں میں جو بھاری سرمایہ کاری تعلیم کے میدان میں کی تھی اب وہ بڑے پیمانے پر اس کا پھل حاصل کر رہا ہے۔ جہاں بھارت کیIIT برآمدات کا تخمینہ 60/ارب ڈالر سالانہ ہے، اس کی دواسازی کی صنعت نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔ اس تیزی سے ترقی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ان بھارتیوں کی تعلیم کا نتیجہ ہیں جو بہت بڑی تعداد میں بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے آئے اور اپنے ملک میں اس تعلیم کو استعمال کیا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ”بھارت کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کا سہرا اعلیٰ ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے بھارتی تارکینِ وطن کو جاتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں تقریباً دو لاکھ ہندوستانی تارکینِ وطن مقیم ہیں جو کہ امریکہ میں مقیم سب سے بڑی تارکِ وطن عوام ہے۔ دو تہائی تارکِ وطن نے امریکی جامعات سے ڈگریاں حاصل کر لی ہیں۔ دوسرے بھارتی امریکی کمپنیوں میں اہم سینئر عہدوں پر فائز ہیں۔ جیسا کہ IBA، جنرل الیکٹرک، انٹیل، مائیکرو سافٹ، CISCO اور امریکن ایکسپریس وغیرہ۔ تقریباً یہ تمام کمپنیاں جب بھی سرمایہ کاری کرتی ہیں تو یہ تارکینِ وطن بھارتی، ہندوستان کی مدد کرتے ہیں چاہے وہ رقوم کی ترسیل ہو، نیٹ ورکس ہوں، عملی ذرائع تک رسائی ہو یا عالمی منڈیوں تک ترسیل ہو یا دیگر ذرائع ہوں“۔ (عالمی بینک کو رپورٹUnleasning India's Innovation potential, 2007) حال ہی میں شروع ہوئیHEC کو تباہ کرنے کی مہم جس میں اس کے آرڈیننس میں ترمیم کر کےHEC کو دوبارہUGC میں تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں یہ جانتے ہوئے کہUGC بری طرح سے ناکام رہا۔ وزارتِ تعلیم کے اس طرح کے اقدامات کے خلاف مزاحمت کی جانی چاہئے کیونکہ اس سے ملک کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ان کے اس قدم کے خلاف یکجا ہوجانا چاہئے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے اور اسے وزارتِ تعلیم کے زیرِ سایہ ناکامUGC میں تبدیل ہونے سے ہرممکن روکیں۔ اے محبِ وطن پاکستانیو! بالخصوص، طلبہ اور اساتذہ ملک کے کونے کونے سے اس عظیم ادارے کو جس نے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سطح پر ہمارا سر فخر سے بلند کیا، برباد کرنے کے شیطانی عزائم سے روکنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ سپریم کورٹ پہلے ہی اپریل2011ء میں HECآرڈیننس کو وفاقی قانون ساز کی فہرست نمبر 6,7,12,13 کے تحت قومی اور صوبائی مفادات میں محفوظ کر چکا ہے۔ HECترمیم کا بل سراسر غیر قانونی طور پر Council of Common Interestsکے سامنے پیش کئے بغیر منظور کرانے کی غیر قانونی کوشش ہو رہی ہے۔ سپریم کورٹ کو اب ازخود اس معاملے کی روک تھام کے لئے قدم اٹھانا ہو گا کیونکہ یہ معاملہ ہے قوم کے100 کروڑ شہریوں کا جن کی عمریں 23سال سے کم ہیں۔ ہمارا مستقبل اس معیارِ تعلیم پر منحصر ہے جو ہمارے بچے حاصل کر رہے ہیں۔ کچھ بدعنوان سیاستدان محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہماری قسمت سے کھیل رہے ہیں جس کی انہیں ہر گز اجازت نہیں دینی چاہئے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں