علمِ حیاتیات کی پھیلتی سرحدیں

Tuesday / Mar 27 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس دان جیمسن واٹسن نے انسانی جنیوم کی ترتیب بندی گذشتہ سال محض دو ماہ کے عر صے میں مکمل کی ،جس میں ایک ملین (دس لاکھ ) امریکی ڈالر خرچ ہوئے۔جب کہ اس سے پہلے انسانی جنیوم کی ترتیب بندی میں 60 ملین (6 کروڑ ) امریکی ڈالر کی لاگت آئی تھی اور اس کو مئی 2006ء میں مکمل کیا گیا تھا ۔ اس کے ابتدائی خاکے کا اعلان 2003 ء میں کیا گیا تھا اور یہ 13 سال کی طویل کوششوں کے بعد ممکن ہوا تھا ۔ اب اس جدید دور میں ایسی مشین تیار کی جارہی ہے ،جس کے ذریعے یہ کام چند دنوں میں اور چند ہزار ڈالرز میں مکمل ہوجائے گا ۔ جینیاتی تجزیہ کی ایک سادہ سی شکل میں جو کہ صر ف چند سو ڈالرز میں انجام پاتا ہے ،انسانی جسم میں موجود اور متوقع بیماریوں کے متعلق مکمل اطلاعات مل جاتی ہیں اور اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے جسم میں لحمیات ہوتے ہیں جوچھوٹے سا لما ت سے بنے ہوتے ہیں جنھیں امائنو ایسڈ بھی کہا جاتا ہے ۔ نظری طور پر امائنو ا یسڈ دو شکلوں میں ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ ان کی طبعی خصوصیات یکساں ہوتی ہیں سوائے اس وقت جب وہ گردش کرتے ہیں اور ان کے اندر سے روشنی گزرتی ہے۔گزشتہ سال امپریل کالج لندن کی زیٹا مارٹین اور ان کے ساتھیوں نے زندگی کے پہلے غیر ارضی مالیکیول کے شواہد حاصل کئے۔42ارب سال پرانا شہابیہ Meteroid جوکہ 1969ء میں آسٹریلیا کے مقام پر زمین پر آکر گرا تھا ،جس کے بارے میں ماہرین کو یہ انکشاف ہوا تھا کہ اس میں دو مسالمے uracilاورXanthineموجود ہیں جوکہ RNAاور ڈی این اے تشکیل دیتے ہیں ۔ تا بعدار بیکٹیریا آج کل روبوٹس کا استعمال مختلف صنعتوں میں کیا جارہا ہے ۔موٹر گاڑیوں کی صنعت میں گاڑی سازی کا اکثر کام روبوٹک مشینوں کے ذریعے ہورہا ہے ۔ گھریلو کاموں کے لیے بھی روبوٹ تیار کیے جارہے ہیں ،جن کی ذہانت اور صلاحیتوں میںوقت کے ساتھ ساتھ اضافہ بھی کیا جارہا ہے ۔اس ضمن میں سائنس دان حیاتیاتی روبوٹس پر کام کررہے ہیں ،اس میں حیاتیاتی اجسام کو جینیاتی مشینری کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ،اس طرح یہ روبوٹ پہلے سے طے شدہ مخصوص کام انجام دے سکتے ہیں ۔ بیکٹیریا جس کو کئی بیماریاں پیدا کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے ،پہلے ہی کئی مفید مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ان مفید کاموں میں بعض خام مادوںکو تبدیل کرنا مثلاً Molassesکو سڑک ا یسڈمیں تبدیل کرنا صنعتی انزائم کی تیاری اور دوائوں کی صنعت میں استعمال شامل ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب ایسے Stripped Down بیکٹیریا ( جنیاتی طور پر ترمیم شدہ خردنی اجسام ہیں ) ’’مائیکر وغلام‘‘کے طور پر کام کریں گے ۔اس حوالے سے ازخود صاف ہوجانے والے کپڑوں کی تیاری کا کام بھی جاری ہے ۔ ان کپڑوں میں بعض بے ضررجراثیم پیوست کردئیے جائیں گے جوکہ بغل سے خارج ہونے والے پسینے کی ناپسندیدہ بو کا خاتمہ کردیں گے ۔یہ پسینہ اور اس میں شامل پروٹین کو کھاجائیں گے ۔ بعض دوسرے جراثیم ایسی حفاظتی تہہ خارج کریں گے، جو نہ صرف کپڑے کی زندگی بڑھائے گے بلکہ دافع عفونت یا اینٹی سیپٹک خصوصیات کے حامل کیمیائی مادوں کا اخراج بھی کرے گی ۔علاوہ ازیں ان کو مرہم پٹی یا بنڈیج میں بھی استعمال کیا جاسکے گا ۔ مستقبل میں اسٹیم سیل کا استعمال خراب دل،گردوں اور دوسرے ٹشوز کی مرمت میں اہم کردار ادا کرے گا،جس سے بیماریوں کے علاج میں انقلابی تبدیلی کی توقع ہے ۔ چوہے کی جلد سے تیار کیا جانے والا پہلا چوہاچینی اکیڈمی آف سائنس بیجنگ میں کام کرنے والے سائنس دانوں Zhou et alنے تیار کیا ہے، اس کے ساتھ اس بات کو بھی تصدیق ملی ہے کہ جسم کے تمام حصوں میں اسٹیم سیل موجود ہیں۔اس طریقے سے اگر چوہے کو پیدا کیا جا سکتاہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم انسانوں کو بھی اس طریقے پر عمل کرکے بنالیں گے۔ Taser Stun Gunمیں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کوکینسر کے علاج کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ جب کینسر کے خلیوں پر نینو سیکنڈ ہائی وولٹیج پلس کا استعمال کیا جا تا ہے تو یہ خلیے خود کو تباہ کرلیتے ہیں ۔ اس طریقہ کار کو کینسر کے علاج کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔یہ نینوسیکنڈپلسز،مائیکرو سیکنڈ پلس کے مقابلے میں زیادہ دیرپا اثرات کی حامل ہیں جن کو Taser Gun میں استعمال کیا جا تا ہے ان کے اثرات بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں ۔ مصنوعی شعاعی تالیف قدرتی طور پر شعاعی تالیف کے عمل میں ( جوکہ پودے الجی اور دوسرے جراثیمی انواع میں وقوع پذیر ہوتا ہیں )فضا ء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سورج کی روشنی کی موجودگی میں شکر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہر سال 100بلین ٹن کاربن بایوماس میں تبدیل ہوجاتی ہے، چناں چہ اس سے 100 ٹیرا واٹ توانائی حاصل ہوتی ہے ،جوکہ ہمارے کرہ ارض پر استعمال ہونے والی توانائی سے6گناہ زیادہ ہے۔ ماضی میں سائنس دانوں نے محدود کامیابی کے ساتھ مصنوعی طور پر شعاعی تالیف کاعمل انجام دینے کی کوشش کی ہے۔ امریکا میں Cincinnati یونیورسٹی کے محقق نے پودے سے حاصل ہونے والے انزائم کے حامل فوم سے شعاعی تالیف کے مواد کی تحقیق کا طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ یہ انزائم پودوں ، بیکٹیریا ،مینڈک اور فنجائی سے حاصل کیا جا تا ہے ۔ یہ فوم سورج کی روشنی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو شکر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔یہ شکر بعدازاں ایتھنول اور دوسرے با یوفیول میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ فوم کے استعمال کا خیال سائنس دانوں کو بعض مخصوص اقسام کے مینڈکوں (Tungaraمینڈک )سے آیا جواپنے ٹیڈپول کی نشونما کے لئے مضبوط اور پائیدار فوم تیار کرتے ہیں اس فوم میں روشنی اور ہوا کے نفوذکی شاندار صلاحیت ہوتی ہے ،اس فوم میں جمع ہونے والے انزائم کو مصنوعی شعاعی تالیف کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین اس فوم کے بے شمار فوائد کا دعویٰ کر رہےہیں ۔اس کے لئے مٹی کی ضرورت نہیں ہوتی لہٰذا یہ بغیرمٹی کے سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہوئے شکر تیار کرلیتا ہے ،جوکہ عام طور پر پودوں میں شعاعی تالیف کے عمل کے لئے ضروری ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ سورج سے حاصل ہونے والی تمام توانائی کو شکر میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جب کہ پودے اس توانائی کا کچھ حصہ شکر کی تیاری اور کچھ حصہ دوسرے افعال کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پٹھے (مسلز )بنانا کس قدر مشکل ہے۔ اس میں اگر سال نہیں تو مہینے تو لگ جاتے ہیں، جس میں سخت ورزش، ثابت قدمی اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔نیدر لینڈ کی Eindhovenیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے بایو انجینئرنگ کی مدد سے خون کی شریانوں کے ساتھ پٹھوں کی بافتوں کو بنانے کا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ پٹھوں کی بافتوں کو اس طریقے سے منظم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ تمام ایک ہی سمت میں رہیں ،تاکہ قوت پیدا کی جاسکے، اور ہر پٹھے تک خون کی فراہمی جاری رہے، تاکہ ان تک خون اور غذائیت سےبھر پور انداز میں پہنچ سکے۔اس حوالے سے کی جانے والی کوششیں اب تک ناکام رہی تھیں، کیوں کہ نئے بنائے ہوئے ٹشوز بکھر جاتے تھے۔یونیو رسٹی آف ٹیکنالوجی کی ٹیم دوسروں کے مقابلے میں اس لیے کامیاب رہی کہ اس نے ٹشوز کی نمو کے لیے خون کی نالیوں کے خلیات اور اسٹیم سیل کا استعمال کیا ہے۔ مسلز کی ایک یکساں سمت میں ترتیب alignmentکا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ velcroکا استعمال کرتے ہوئے ٹشوز کے ٹکڑوں کو سختی سے باندھ دیا گیا۔نمو کے عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے مسلز اور خون کی نالیوں کو بے ترتیب جڑنے کے بجائے ایک قطار میں جوڑ دیا۔سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ اس طریقے کا اطلاق ان مریضوں پر بھی کریں جن کے اعضاء حادثے، زخم یا کینسر کے آپریشن کے نتیجے میں ضایع ہو گئے ہیں۔ امریکا میں ناسا میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے زندگی کی ایک نئی شکل دریافت کی ہے، جس میں زندگی کے عمل میں فاسفورس کے بجائے آرسینک کاا ستعمال ہورہا ہے۔زندگی کے لیے چند عوامل کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے، جس میں کاربن، ہائڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، فاسفورس، اور سلفر شامل ہیں۔ اب ماہرین نے ایسے زندہ جسم کا انکشاف کیا ہے ، جس میںفاسفورس کے بغیر زندگی ہے یہ ایک ہلا دینے والی دریافت ہے۔ فاسفورس ڈی این اے میں ہوتا ہے جوکہ زندگی کے لیے لازمی ہے۔ناسا کے سائنس دانوں نے جو جرثومہ دریافت کیا ہے۔ اس نے فاسفورس کو آرسینک سے تبدیل کیا ہےاور وہ اب تک زندہ ہے۔ امریکا میں مونولیک سے تعلق رکھنے والی سائنس دان Felisa Wolf Simonنے یہ جرثومہ جس کا نام (code name) GFAJ-1 ہے ،علیحدہ کیا ہے۔ بعد ازاں اس کو ایک میڈیم جس میں فاسفورس کی انتہائی قلیل مقداراور آرسینک کی بڑی مقدار شامل تھی ، اس میں نمو کی گئی۔ مشاہدے سے یہ معلوم ہوا کہ بیکٹیریم اپنی ریڑھ کی ہڈی کے ڈی این اے میں فاسفورس کے بجائے آرسینک کا استعمال کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ اگر ناسا کے سائنس دانوں کا کام درست ثابت ہوگیا تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے سیارے کے باہر بھی زندگی ارتقاء پذیر ہو سکتی ہے،جو کہ دوسرے عناصر کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے سیارے پر موجود زندگی سے بالکل مختلف انداز میں ارتقاء پذیر ہوگی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں