منفرد جمہوریت اور تعلیم

Monday / Oct 22 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

اپنے قیام سے لے کر اب تک پاکستان ایک مکمل اور سچی جمہوریت سے محروم رہا ہے کیونکہ تعلیم جیسے اہم عنصر سے اس ملک کے عوام کو ہمیشہ دور رکھا گیا۔ ملکی بجٹ میں حکام نے ہمیشہ تعلیم کے بجٹ کو قصداً کم ترجیح دی اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ابتداء ہی سے اس ملک پر جاگیر دارانہ حکام کا تسلط رہا اور اس طبقے نے اپنی جدی پشتی حاکمیت کو قائم رکھنے اور اپنی سیاست کو چمکائے رکھنے کے لئے اس ملک کے عوام کے مستقبل سے کھیلواڑ کیا اور انہیں تعلیم جیسے اہم زیور سے آراستہ نہیں ہونے دیا۔ انہیں مستقل روٹی، کپڑا اور مکان کے جھنجھٹ اور بے تحاشا بڑھتی ہوئی مہنگائی سے لڑنے میں ہی الجھائے رکھا کیونکہ یہ جاگیردار اچھی طرح جانتے تھے کہ تعلیم انسان میں صحیح اور غلط کو سمجھنے کا شعور پیدا کرتی ہے، اگر اس ہتھیار سے عوام لیس ہو گئے تو حقیقی جمہوریت قائم ہو جائے گی اور ان کا جاگیردارانہ نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس کے باوجود یہ ملک اب تک اسی لئے قائم و دائم ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور آٹے میں نمک کے برابر تعلیم یافتہ طبقہ اور دیگر عوام نہایت ہی تندہی سے حب الوطنی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ہر حب الوطن شہری کا خواب ایک شاندار اور مضبوط پاکستان کی تعمیر ہے۔ اب جناب عمران خان کے حکومت میں آنے کے بعد یہ خواب حقیقت بنتا معلوم ہو رہا ہے۔ انجینئرنگ کا شعبہ کسی بھی ملک کے لئے ایک اہم ترین شعبے کی نمائندگی کرتا ہے جو قوم کو خود انحصاری کی جانب گامزن کرتا ہے۔ انجینئرنگ اہم صنعتی شعبے مثلاً مشینری، موٹر گاڑیاں، برقیات، گھریلو استعمال کا سامان، کمپیوٹرز، دھاتیں، کپڑا سازی، کیمیات، دوا سازی وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے۔ جب میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر اور بعد میں چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن تھا، اس وقت میں نے انجینئرنگ کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ بھارت نے 1950کی دہائی میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کے دور میں اپنے انجینئرنگ کے شعبے کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور گزشتہ کئی دہائیوں میں بھارت میں بہت سے عالمی معیار کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ادارے قائم کئے گئے، اس وقت بھارت میں سولہ انڈین انفارمیشن ٹیکنالوجی (IITs) کے ادارے موجود ہیں۔ ان میں سے 10ادارے 2004ء کے بعد قائم کئے گئے۔ بھارت کے مجموعی طور پر تعلیم اور بالخصوص انجینئرنگ جامعات کو مضبوط بنانے کے اس اقدام کی بدولت بھارت کا درمیانی طبقہ جس کی آبادی 32فیصد تک پہنچ گئی ہے، تیزی سے ابھر کر آیا ہے اور اب بھی اس کی رفتار 1فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ 2000میں جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا، اس وقت میں نے انجینئرنگ کی تعلیم اور تحقیق کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام قائم شدہ انجینئرنگ جامعات کے لئے کروڑوں روپے کے سہولت فنڈز قائم کئے تھے تاکہ انجینئرنگ جامعات میں تحقیق کو فروغ حاصل ہو سکے۔ پھر جب میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا بانی چیئرمین بنا تو میں نے تقریباً 5000پی ایچ ڈی کی سطح کے وظائف ملک کے ذہین طلباء کو دیئے جن میں سے 2000وظائف صرف انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے لئے تھے۔ اس طرح انجینئرنگ کو مضبوط کرنے اور فروغ دینے کے لئے کی گئی کاوشیں رنگ لائیں اور ہماری انجینئرنگ جامعات کا شمار عالمی سطح پر 300،400اور 500کی صف میں آگیا۔ اسی طرح ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے آئی ٹی کی صنعت کو پندرہ سالہ ٹیکس کی چھوٹ دی جس کی بدولت 2001ء میں آئی ٹی کی برآمدات 30ملین ڈالر سے بڑھ کر آج 3.2ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہیں، یعنی ان میں 100گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ شعبۂ انجینئرنگ ملکی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے مختلف شعبوں میں مہارت اور معیار ملکی ترقی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ میں نے بھی اس ملک کا ایک ذمہ دار شہری ہوتے ہوئے 2005ء میں بحیثیت چیئرمین ایچ ای سی، غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کا نیٹ ورک قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا اور اگر یہ قائم ہو جاتا تو اس کے تحت ہمارے انٹر پاس اور B.Aپاس نوجوانوں کو ملک میں رہتے ہوئے غیر ملکی جامعات کی تعلیم حاصل ہوتی اور ڈگری بھی مستند غیر ملکی جامعات کی حاصل ہوتی۔ اس کے لئے میں نے ایک انتہائی مربوط نظام ترتیب دیا تھا اس طرح ملک میں رہتے ہوئے انتہائی کم خرچ اور دیگر مسائل کو جھیلے بغیر ہماری نوجوان نسل بین الاقوامی معیار کی تعلیم و ڈگری سے آراستہ ہو جاتی لیکن اب وہ خواب دوبارہ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر حقیقت کاروپ دھارنے جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں ہم نے طے کیا کہ پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم اور تحقیق کو مضبوط کرنے کے لئے ایک اہم قدم‘ عالمی سطح پر کئی غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کا تانا بانا قائم کرنا ہے، اس مد میں منتخب شدہ ماڈل تمام زاویوں سے منفرد تھا، اس کے مطابق طلباء پاکستان ہی میں جرمنی، فرانس، اٹلی، سویڈن، آسٹریا، چین اور دوسرےممالک کی سب سے چوٹی کی انجینئرنگ جامعات کی طرف سے پیش کردہ نصاب میں داخلہ لیتے۔ اس کے علاوہ ہر غیر ملکی جامعہ پاکستانی جامعہ میں صرف ایک یا دو شعبوں کو قائم کرنے کی ذمہ دار ہوتی۔ اس طرح ایک پاکستانی جامعہ کئی غیر ملکی جامعات کے اشتراک سے ’’کثیر غیر ملکی ڈگری جامعات‘‘ کی نمائندگی کرتی، اس طرح کا نظام دنیا میں کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی فائدہ ہوتا کہ ایک پاکستانی جامعہ بہت سی غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کی بہترین خوبیوں سے مستفید ہو سکتی ہے، طلباء غیر ملکی جامعات کےنصاب کا مطالعہ کرتے جو کہ غیر ملکی اعلیٰ معیار کی فیکلٹی کی طرف سے پڑھایا جاتا اور انہیں چوٹی کی غیر ملکی جامعات کی ڈگری بغیر بیرون ملک گئے، مل جاتی۔ ان جامعات کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ہر جامعہ کے احاطے میں ایک ٹیکنالوجی پارک قائم کیا جانا تھا، جامعہ اور ٹیکنالوجی پارک کے اشتراک کا مقصد قابل اور تربیت یافتہ انجینئروں کی پیداوار تھا جو مقامی صنعت کی خدمت کر سکیں، تحقیق و ترقی کے کام کر سکیں اور سب سے اہم کہ غیر ملکی سرمایہ پاکستان میں لا سکیں کیونکہ اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے دستیاب ہو گی۔ ٹیکنالوجی پارک میں اعلیٰ تکنیکی تحقیق و ترقی کے ادارے تجارتی بنیادوں پر مانگ والی مصنوعات کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرتے۔ اس قسم کے چار منصوبے جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور چین کے ساتھ جامعاتی اشتراک میں ایکنیک کے ذریعے فروری 2008میں 160ارب روپے کی لاگت کے دس سال کے لئے منظور بھی ہو گئے تھے انہیں پھر وزیراعظم کے سامنے 12مئی 2008ء کو پیش کیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے اس پروگرام پر عملدرآمد کی منظوری بھی دیدی تھی۔ پھر ایکنیک سے منظوری کے ٹھیک تین مہینے بعد پی پی پی کی کابینہ نے اس پروگرام کو منسوخ کر دیا۔ وہ تمام ممالک جن سے ان جامعات کے قیام اور منصوبوں کے بارے میں کئی سال سے بات چیت چل رہی تھی، انہیں بھی اس اچانک تنسیخ پر افسوس ہوا اور انہوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ البتہ میں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنا نظریہ جناب عمران خان کے سامنے پیش کیا، انہوں نے فوری طور پر بڑے فراخدلانہ انداز سے پاک آسٹرین جامعہ ہری پور ہزارہ میں قائم کرنے اجازت دیدی۔ یہ نئی جامعہ اب تیزی سے تعمیر ہو رہی ہے اور یہ پاکستان کی ترقی میں ان شاء اللہ ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔ پاکستان کو اس وقت ایسی جمہوریت کی ضرورت ہے جہاں تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ ہم ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل ہو سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں