پاکستان کو نئے چیلنجز کا سامنا

Saturday / Dec 15 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

نواز شریف حکومت کے جانے کے بعد ابھی حالیہ انتخابات میں عوا م نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کیا ہے ۔ اگر پاکستان عمران خان کے تحت ترقی کرنا چا ہتا ہے تو،اس کے لئے ایک انتہائی منظم اور ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا تاکہ گزشتہ دہائیوں سے ملک جن بحران کا شکار رہا ہے ان کا کم سے کم وقت میں ازالہ کیا جاسکے اور ساتھ ہی ترقی کی جانب قدم بھی بڑھایاجا سکے۔ اسکے لئے ملک میں بہترین پیشہ ورانہ اور تکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک قومی ٹاسک فورس قائم کرنے کی ضرورت ہےجس کو ایک اعلی سائنسدان یا انجنیئر کی سر پرستی جبکہ وزیر اعظم کو اس کا نگراں چیئرمین ہونا چاہئے۔ اس ٹاسک فورس سے منسلک مختلف ماہر کمیٹیاں جیسے تعلیم، زراعت، انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات وغیرہ بھی ا پنے اپنے شعبے کے ماہرین پر مشتمل ہونی چاہئیں جو کہ سماجی اور اقتصادی ترقی کے لئے قومی ایجنڈا آگے بڑھا ئیں اور وزارتیں اس قومی ٹاسک فورس کی رہنمائی میں کام کریں، ہر وزارت کے لئے اہداف مقرر کئے جائیں اور وزراء کی کارکردگی کی ہر تین ماہ کے بعد جانچ پڑتال کی جائےوہ وزراءجو مقررہ اہداف کی تکمیل نہ کرپائیں انہیں ان سے زیادہ قابل افراد سے تبدیل کر دیا جائے. چین، کوریا، سنگاپور اور دیگر تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ممالک کی کامیابی کا راز ہی مندرجہ بالا اقدام ہے، جیسی ٹیم ہوگی ویسا ہی نتیجہ ہوگا ،ان ممالک میں کابینہ کے اراکین کی اکثریت اپنے ملک کے سب سے اعلیٰ درجے کے تکنیکی ماہرین ہیں جو اپنے متعلقہ مضامین میں سب سے زیادہ علمی ڈگری کے حامل ہیں اور جن کا ماضی کامیاب اور ایک شاندار ریکارڈ کی غمازی کرتا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے اہم ترین بنیاد، تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی لازمی ہیں،ترقی کے ان چار اہم ستونوں پر توجہ مرکوز کرکے ہی ہم ایک علمی معیشت میں منتقلی کی امید کر سکتے ہیں۔ تحقیق اور جدت طرازی میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرنےوالے ممالک تیزی سے ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں ، اور دوسرے ممالک کو پیچھے چھوڑ تے جارہےہیں،ہمیں بھی ان کے نقش قدم کو اپناتے ہوئے اپنے تحقیقی اداروں کو فروغ دینا چاہئے اور تحقیق کو صنعتی اور زرعی ترقی سے منسلک کرنے کی کوشش شروع کرنی چاہئے تاکہ پاکستان درمیانی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی صنعت میں امتیازی مقام حاصل کر سکے، افسوس ہماری برآمدات زیادہ تر کم قیمت کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہیں، عالمی منڈی میں کپڑاسازی کی صنعت صرف 6 فیصد کی حامل ہے جبکہ 94٪فیصد عالمی منڈی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان جیسے برقیات، انجینئرنگ کا سامان، دواسازی، بحری جہاز سازی، طیارہ سازی ، موٹر گاڑیوں کی تیاری، معدنیات، آئی ٹی مصنوعات، نیا مواد اور دیگر پر مشتمل ہے۔ہم ان تمام شعبوں میں ماضی کی حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے کوسوں دور ہیں کیونکہ انہوں نے کبھی اس جانب قدم بڑھانے کی کوشش نہیں کی،سنگاپور، ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی صرف 55 لاکھ ہے یعنی کراچی کی آبادی کا پانچواں حصہ ہے لیکن گزشتہ سال اس کی برآمدات 330 ارب امریکی ڈالر تھیں جبکہ کوئی قدرتی وسائل اس کے پاس نہیں ہیں۔ جبکہ پاکستان کی برآمدات صرف 24 ارب ڈالر پر محدودہیں ۔ ان ممالک کے شانہ بشانہ آنے کے لئے سی پیک کے تحت چینی وزارت برائے صنعت کے ساتھ مشترکہ شراکت داری میں صنعتی پروگرام تیار کیا جاسکتا ہے جس کے تحت درمیانی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری اور برآمد کی ابتدا کی جا سکتی ہے اور اگر چینی نجی شعبے کو ان صنعتوں میں آزادانہ اور آسان شرائط پر سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اسکے نتائج کافی سود مند ثابت ہوسکتے ہیں، ان مراعات میں: (1) 15 سال ٹیکس کی چھوٹ (2) رعایتی نرخوں پر بجلی اور گیس کی فراہمی (3) خام مالوں کی مفت درآمد (4) ہر صنعتی زون میں تکنیکی تر بیتی اداروں کا قیام تاکہ انتہائی مہارت سے لیس تکنیکی ماہرین متعلقہ شعبوں کو آسانی سے دستیاب ہو سکیں اور (5) دہشت گردی کے سبب صنعتوں کی عارضی بندش کی وجہ سے کسی بھی نقصان کو پورا کرنے کے لئے مختلف بیمہ اسکیمیں متعارف کرانا شامل ہیں۔ہمیں چینی نجی شعبے سے 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاہدف رکھنا چاہئے، اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم صحیح طریقہ اختیار کریں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دگرگوں حالات میں اور مندرجہ بالاتجاویز کے پس منظر میں نئی حکومت کی اولین ترجیح کیا ہونی چاہئیں؟ میرے خیال میں غربت ختم کرنے کے لئے بدعنوانی پر قابوکرنے اور تعلیم، سائنس وٹیکنالوجی ، جدت طرازی، صحت ، پانی ، زراعت، توانائی ، انصاف تک فوری رسائی ، دفاع اور درمیانی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں صنعتکاری یا برآمدات میں کلیدی پروگرام شروع کرنے چاہئیں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں تعلیم پر توجہ مر کوز کرنی ہو گی ۔ سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک کروڑ سے زائد 20 سال سے کم عمر نوجوان موجود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا وسیلہ ہے اور اگر ہم ان نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان تیز رفتاری سے آگے بڑھ سکتا ہے۔پاکستان میں بنیادی اور ثانوی تعلیم بہت ابتر حالت میں ہے کیونکہ اسکولوں اور کالجوں کے لئے 5 مختلف وزارتیں (4 صوبائی تعلیم کی وزارتیں اور ایک وفاقی وزارت) ذمہ دار ہیں۔ اس لئے تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لئے متحرک کوششیں ممکن نہیں ہیں،اعلیٰ تعلیمی کمیشن ہی کی طرح وزیر اعظم کی سر پرستی میں براہ راست کام کرنے والا ایک بنیادی/ثانوی تعلیمی کمیشن تشکیل دینا زیادہ .بہتر ہوگا۔ اس کے لئے 18 ویں ترمیم میں تبدیلی کی ضرورت ہوگی اعلیٰ تعلیمی شعبے کو مرتب کرنے کے لئے صوبائی ایچ ای سی (سندھ اور پنجاب) جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قائم کی گئی ہیںان کو اعلیٰ تعلیم کے محکموں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور انہیں ڈگری نہ دینے والے کالجوں کا معیار بڑھانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جو اس وقت بہت برے حال میں ہیں۔اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو مکمل خود مختاری دی جانی چاہئے جیسی کہ اس وقت تھی جب میں اس کا چیئرمین تھا یعنی براہ راست وزیراعظم کو جواب دہ ہونا اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو وفاقی سکریٹری کا درجہ حاصل تھا۔ تکنیکی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے جرمنی، آسٹریا، چین، سوئیڈن، آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے ساتھ قریبی شراکت داری میں 30 تکنیکی ٹیچرز تربیتی اسکول قائم کئے جائیں۔ پاکستان اس وقت مختلف بحرانوں کا شکار ہے اور اسے سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور بدعنوانیوں نے قرض کے گہرے سمندر میں ڈبو دیا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اس وقت ہمیں جناب عمران خان جیسا شخص بطور وزیر اعظم ملا ہے جنہوں نے بدعنوانی کے خلاف طویل اور سخت جنگ لڑی ہے اور ملک کے لئے بے غرض خدمت میں اپنا ایک مقام حاصل کیا ہے ۔اب ہم سب کو ان کا ساتھ دینا چاہئے اور پوری طاقت سے اپنے وطن عزیز کو اس تباہ حالی سے باہر نکالنے میں ان کا ساتھ دیناچاہئے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں