صدارتی نظا م میں تکنیکی ماہرین کی حکومت

Friday / Nov 17 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

آناتول لیوین کے ساتھ ایک انٹرویو بعنوان ’پاکستان ایک مشکل مملکت‘ میں معروف پاکستانی ماہر معیشت جناب محبوب الحق نے کہا تھا کہ’ ہر دفعہ ایک نئی سیاسی حکومت بر سر اقتدار آتی ہے اور یہ نئی سیاسی حکومتیں کثیر مقدارمیںریاستی سرمایااورملازمتیں ان سیاستدانوں کو انعام کے طور پر دیتی ہیں جنہوں نے بر سر اقتدار آنے میں ان کی مدد کی ہوتی ہے اس وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کچھ بھی باقی نہیں بچتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی سیاسی حکومتیں سرمائے میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔جناب محبوب الحق کی بات بالکل درست تھی سوائے اس کے کہ ان کے بعد جو لوگ آئے انہوں نے توانائی اور دوسرے شعبوں میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی کے ذریعے مسئلے کو مزید گمبھیر کردیا اور پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دیا۔ افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آمر حکومتوں کے ادوار میں بھی بہترین جمہوریت کے مقابلے میں معاشی ترقی کی رفتار خاصی بہتر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناخواندگی ، جہالت ، جاگیردارانہ نظام کے مضبوط شکنجے اور کرپٹ انتخابی نظام کی وجہ سے پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہی نہیں ہو سکی ہے۔ صر ف لو ٹ کھسو ٹ کا با زار گر م رہا ہے اور غریب عوام غریب تر ہوتے گئے ہیں۔ آنے والی جمہوری حکومتوں کی ترجیح میں تعلیم کبھی نہیں رہی کیوں کہ تعلیم یافتہ آبادی جاگیردارانہ نظام کی طاقت کےلئے ایک بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں یہ نام نہاد جمہوریتیں بد انتظامی اور بے لگام بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہوتی رہی ہیں۔ ماضی میں اس حوالے سے قائم کردہ اداروں مثلاً نیب، ایف آئی اے، ایف بی آرکی سربراہی کا تاج حکومت کے بد عنوان من پسند افسران اور افراد کے سر پر سجتا رہا ہے چنانچہ لوٹ مار اور غارت گری کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد کے ستر سالوں کو آٹھ ادوار میں باآسانی تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے گیارہ سال (1958ء۔1947ء) جس میں کئی جمہوری حکومتیں برسر اقتدار آئیں پاکستان کی جی ڈی پی کی اوسط شر ح 3.1فیصد رہی۔ دوسرے دور (1971۔1958)، جس میں ملک میںبنیادی طور پر جنرل ایوب خان ء 1969۔1958) کی حکومت تھی ملک میں نجکاری اور صنعتکاری کی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت ایشیاء کی سب سے تیز رفتار ترقی کرتی ہوئی معیشت بنی ۔اس دور میں ملک کی جی ڈی پی کی اوسط شرح6.8فی صد تک جا پہنچی۔ اس دور میں (جس کو ساٹھ کی سنہری دہائی کہا جاتا ہے) میں بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی اور صنعت سازی میں 9فیصدسالانہ اضافہ مشاہدے میں آیا، نیز سبز انقلاب کے نتیجے میں زرعی شرح 4 فیصد سالانہ تک ہوگئی۔ 1969ء میں ہماری برآمد ات انڈونیشیا، ملائشیا اور تھائی لینڈ کی مجموعی بر آمدات سے بھی بڑھ گئیں۔ تیسرا دور (1977ء۔1971ء ) ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا دور تھاجس میں جی ڈی پی کی شرح تیزی سے گرتی ہوئے3.9 فی صد سالانہ پر آگئی ۔ اس کے بعد چوتھا جنرل ضیاء الحق کا دور آیا (1988۔1978ء) ، اس میں اوسط جی ڈی پی پھر بڑھ کر 6.6.فی صد سالانہ ہوگئی۔ پانچویں جمہوری مرحلے(1999ء۔1988ء) جس میں چار مختصر مدتوں کے لئے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومت رہی ، جی ڈی پی کی سالانہ اوسط شرح گر کر 4.5فیصدرہ گئی، جب کہ چھٹے مرحلے (ء2008۔199ء) میں جس میں جنرل پرویز مشرف حکمراں تھے یہ شرح بڑھ کر6 فیصد ہوگئی، جب کہ صنعت کاری کے شعبے میں سالانہ شرح 11.3فیصد تک بڑھی اور غربت کی شرح میں نمایاں کمی نظر آئی۔ اس دوران آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں (جن کو میں نے بطور وفاقی وزیر اور چیئرمین ایچ ای سی متعارف کرایا تھا)نمایاں اور تیز رفتار ترقی ہوئی۔2000ء سے 2007ء کے دوران پاکستان کا افرادی ترقی کا گوشوارہ HDI)2.7فیصد سالانہ کی اوسط رفتار سے بڑھا۔ بدقسمتی سے ترقی کے اس عمل کو قومی مفاہمتی آرڈینس کے تحت روک دیا گیاجو کہ جنرل پرویز مشرف پر غیر ملکی دباؤ کے ذریعے نافذ کیا گیاتھا یہی وہ طاقتیں تھیں جو کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ا صل ذمہ دار ہیں ان کا مقصد پاکستان کو معاشی تباہی کا شکار کرنا تھا اور ہے۔ ساتویں دور میں جس میں پی پی پی (2013ء ۔2008ء) بر سر اقتدار رہی GDPکی اوسط شرح تیزی سے گر کر2.9 فیصد پر آگئی ۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق اس دور میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی بدعنوانی اور غارت گری کی وجہ سے ملک کو تقریباً8500 ارب روپیہ (94 بلین ڈالر) کا خسارہ برداشت کرنا پڑا، ان سالوں میں افرادی ترقیاتی گوشوارے( Index, HDI) کی رفتار صرف 7 0. فیصدسالانہ رہ گئی ۔ انصاف بھی مفلوج رہا، اس کے بعد برسر اقتدار آنے والے پی ایم ایل (این) کے دور حکومت (آٹھواں مرحلہ )میں کسی حد تک معیشت میں بہتری آئی اور جی ڈی پی کی شرح 4 ٪ہوگئی البتہ یہ ماضی کی حکومتوں کی ترقی سے پھر بھی کم ہی رہی ۔ 1960 ء سے 1990 ءکی دہائی میں نام نہاد ایشین ٹائیگرزجنوبی کوریا، سنگاپور، اور تائیوان بھی سخت اور ایماندار حکومتوں کے زیر اثر ہی معاشی ا نقلاب کے عمل سے گزرے ہیں۔ واشنگٹن کی جمہوریت کے لئےعام اتفاق رائے (فری مارکیٹ تمام قوموں کی ترقی کی بنیاد ہے) کو انہوں نے مسترد کیا ۔ ملائشیا، تھائی لینڈ ، انڈونیشیاء اور چین نے بھی یہی راستہ اختیار کیا ، ان ممالک نے بھی آمرانہ حکومتوں اور تکنیکی ماہرین کی حکومت کے ذریعے معاشی ترقی کے راستےکو منتخب کیا ۔ بہت سے لوگ ہندوستان کی معاشی ترقی کی مثال دیتے ہیں جہاں پارلیمانی نظام حکومت قائم ہے ،اور وہ آمرانہ طر ز کی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی ترقی چین کی شاندارترقی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جہاںآمرانہ طر ز کی سخت حکومت قائم تھی۔ اگر چین میں بھی پارلیمانی نظام حکومت ہوتا تو چین کی یہ ترقی خواب ہی رہتی۔ ہندوستان کے حصے میں آنے والی چند کامیابیوں کی بنیاد نہرو کی زرعی اصلاحات اور تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پرتوجہ دینے کے فلسفے سے پڑ گئی تھی جس کو بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور ناکامی ہمارا مقدر بنی ۔ سوال یہ ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟اس کا حل غیر جمہوری حکومت یقیناًنہیں ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت کو آزمالیا گیا ہے جوکہ بد عنوانی کی وجہ سے بری طرح ناکام رہا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو اپنے آئین میں تبدیلی لانی ہوگی اور صدارتی نظام جمہوریت کے تحت ما ہرین کی حکومت کے قیام کی جانب سفر کرنا ہوگاجیسا کہ اس حوالے سے قائد اعظم کی ذاتی ڈائری میں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریرمیں بھی موجود ہے۔ اس مقصد کو سپریم کورٹ، روشن خیال سیاستدانوں، اور عسکری قیادت کی مداخلت کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام کے تحت صدارتی امیدوارٹیلی ویژن پردوسرے امیدواروں کے ساتھ کھلے مباحثوں میں حصہ لے ا وربراہ راست حق رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جائے جو کہ منتخب ہونے کے بعدحکومتی عہدوں پر اپنے اپنےمیدان کے ماہرین کو منتخب کرے۔لیکن ایک فرد ایک ووٹ کے بجائے ایک دوسرا نظام لانے کی ضرورت ہے جس میں ووٹ کی قیمت تعلیم سے منسلک ہو مثلاًنا خوانداہ افراد کے ووٹ کا وزن ایک ہو اور میڑک کئے ہوئے افراد کا وزن دس ہو۔ اس کے ساتھ متناسب نمائندگی کا نظام متعارف کرایا جائے۔یہ بھی ضروری ہے کہ ایک عدالتی کمیٹی انتخابی کمیشن میں غیر جانبدارممبران کا تقرر کرے اور سیاسی پارٹیوں کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ انتخابات کا انعقاد فوج کی مکمل نگرانی میں انجام دیا جائے۔ صدر، وزارت اور دوسرے اہم عہدوں (NAB, FBR, FIA, SECP، اسٹیٹ بینک، پولیس )کیلئے امیدواروں کی صلاحیت اور ایمانداری کی جانچ کے لئے سپریم کورٹ کی کمیٹی کے ذریعے مکمل چھان بین کی جائے ۔اور سپریم کورٹ ہی اسکی منظوری دے ۔پارلیمنٹ کا کردار صرف قانون سازی تک محدود کیا جائے اور اس کا رکن بننے کے لئے کم سے کم تعلیمی قابلیت ماسٹرمقرر کی جائے جیسا کہ ایران میں اراکین پالیمنٹ کے لئے کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹرمقرر کی گئی ہے۔ وسیع بد عنوانی کی صورت میں سزائے موت کی سزا نافذ کی جائے اور بد عنوانی کے مقدمات دہشت گردی کے کیسوں کی طرح فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں، کیوں کہ بد عنوانی اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور اچھی حکومت ترقی کے چار اہم ستون ہیں جس کے لئے صاحب بصیرت، ایماندار، اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے قابلیت رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ’’تکنیکی ماہرین ‘‘ کی حکومت ہے نہ کہ موجودہ نظام۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں