پاکستان کو نئےچیلنجوں کا سامنا

Saturday / Mar 16 2019

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

میں اپنے مقالوں میں پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کا احاطہ کر تا رہتا ہوں اور ساتھ ہی ان کے سد باب کے لئے تدابیر بھی پیش کرتاہوں۔ اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے میں نے ایک گزشتہ مقالے میں ذکر کیا تھاکہ پاکستان کو پائیدار اور باضابطہ سماجی واقتصادی ترقی کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے چین کے طرز کا لائحہ عمل اپنانا چاہئے، اس کے لئے ہمیں دو راستوں کو اپنانا ہوگا۔ پہلے راستے میں زراعت کی بحالی شامل ہے جو دیہی علاقوں میں غربت کرنے اور فوری آمدنی میں مدد دے گی ،دوسرے راستے میں پانچ اہم پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اعلی ٹیکنالوجی مصنوعات سازی شامل ہے جیسے چین نے کلیدی ٹیکنالوجیوں پر مشتمل تحقیق و ترقی پروگرام، آٹھ سو تریسٹھواں پروگرام ، نو سو تہتر واں پروگرام، اور مشعل پروگرام پر عمل درآمد کیا تھا۔ ان پروگراموں کے تحت معلوماتی ٹیکنالوجی، لیزرز، روبوٹکس، آٹومیشن، توانائی، بائیوٹیکنالوجی، خلائی پرواز، نیا مواد، سمندری سائنس، برقیات، نقل و حمل، معدنی وسائل کی تلاش، ماحولیاتی تحفظ، طب اور صحت کی دیکھ بھال وغیرہ جیسے شعبے ایسے ہیں جوکہ صنعتی پیداوار اور برآمدات کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں ۔ چین نے اس تیز ترین ترقی کے لئے 3 دہائیوں پہلے ایک انتہائی منظم لائحہ عمل ترتیب دیاتھا جس کانتیجہ موجودہ چین کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ لا ئحہ عمل یہ تھاکہ ملک میں ماہر افرادی قوت کے حصول کے لئے جامعات اور تحقیقاتی مراکز کو مضبوط بنانا تھا تاکہ اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی جا سکے ، اس کے لئے دس لاکھ سے زائد نو جوان طلبااور طالبات کو یورپ، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی سب سے اعلی جامعات میں تحقیقی تربیت کے لئے بھیجا گیا تھا.اس طرح ایک ہزار سے زائد تحقیقی اداروں کو مضبوط بنایا گیا جس کی بدولت چین ایک پسماندہ ملک سے ایک بڑی اقتصادی طاقت میں تبدیل ہو گیا ، یہاں تک کہ امریکہ بھی اس کی پر ترقی پر حیران ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے، جس کے لئے انتہائی گہری نظر کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تین اہم ستون مضبوط کئے جا سکیں اس میں ایک تو حکومتی نظام اور تر جیحات ہیں ، اعلیٰ درجے کے حکومتی ماہرین مناسب پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں، دوسرا اہم ستون جامعات اور تحقیقی مراکزہیں جو اعلیٰ معیار کے سائنسدان اور انجینئر تیار کرتے ہیں اور قومی صنعتوں کو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری کے لئے قابل افراد مہیا کرتے ہیں ۔ تیسرا اہم ستون کاروباری و صنعتی شعبہ ہے جو اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرتا ہے اور ان کی بر آمدات کے ذریعے قومی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنا تا ہے۔موجودہ سیاسی نظام کے تحت ماہرین کابینہ میں شامل نہیں ہوسکتے ، اس کی بنیادی وجہ ہمارا انتخابی عمل ، اور مضبوط جاگیر دارانہ نظام کا راج ہے۔ ہمیں ایسے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت قائم کی جا سکے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر ہر شعبے کے لئے ملک کے اعلیٰ ترین ماہرین کو وفاقی و صوبائی سیکریٹری کےطور پر مقرر کیا جا ئے اورہر وزارت کی اپنی ٹاسک فورس بنائی جائے جس میں ملک کے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سمیت 15 سے 20 بہترین ماہرین شامل ہوں،ہر وزارت کو ایک حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے جو غربت کم کرنے، ملازمتیں پیدا کرنے، درآمدات کم کرنے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تیاری اور برآمدات کو فروغ دینے کے لئے مفید ثابت ہو گا۔ ہمیں صنعتوں کے فروغ کے لئے، بہت کم قیمتوں پر توانائی کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا، ایسا کرنے سے نہ صرف ہماری صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ ملکی برآمدات میں اضافے کاسبب بھی بنےگا،کم نرخ میں بجلی کی فراہمی کے لئے ہم شمسی توانائی کا استعمال کرسکتے ہیں یا شمسی بجلی گھروں سےحاصل کر سکتے ہیں ۔مزید برآں ہم رات کو اضافی توانائی پیدا کرکے صنعت کو ٪ رعایتی شرح پر رات کے لئے بجلی مہیا کر سکتے ہیں اس طرح ان میں زیادہ مقابلے کی فضاء قائم ہوگی ،اعلیٰ ٹیکنالوجی صنعتی مصنوعات کی تیاری کے منصوبوں کی مددکے لئے حکومت خود ایک بڑی خریدار بن سکتی ہے تاکہ ہماری صنعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔ مثال کے طور پر ہم تمام حکومتی اداروں کو بہتر ای گورننس کے لئے قومی سطح پر ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کر سکتے ہیں جس کے لئے ہم صرف مقامی سافٹ ویئر کمپنیوںکو کام دے سکتے ہیں جبکہ بین الاقوامی شراکت داروں سے کچھ تکنیکی تعاون حاصل کر سکتے ہیں،اس طرح مقامی کمپنیوں کو اہم شعبے میں تجربہ بھی حاصل ہوگا، اور مستقبل میں بین الاقوامی سطح کے منصوبوں میں حصہ لینے میں بھی مددگار ثابت ہو گا. اسی طرح غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ ٹیکنالوجی کی لازمی منتقلی کی شرط کے ساتھ،بہت سے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں،اس سلسلے میں چین کی سب سےاعلیٰ جامعات پروسیسنگ ، تیز رفتار ریلوے اور غذائی تکنیک میں بہترین کارکردگی کے مراکز قائم کرنے پر پہلے ہی اتفاق کر چکی ہیں، یہ سب مراکز ہری پور، ہزارہ میں آسٹرین انجینئرنگ جامعہ میں قائم کئے جائیں گے اور جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی میں پاکستان کی مدد کریں گی،اس منصوبے کی ابتدا کا سہرا ذاتی طور پر جناب عمران خان اور خیبر پختونخوا میں ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ حقیقی علمی معیشت میں منتقلی کے لئے اس ملک میں 20 سال سے کم عمردس کروڑ سے زائد نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیں سب سے زیادہ تعلیم کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے، اس کے لئے تجویز یہ ہے کہ تعلیم کے لئے مختص جی ڈی پی کو ایک فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھا یا جائے حتی کہ6٪ جی ڈی پی تک پہنچ جائے یہ بتدریج اضافہ اس قدر ضروری ہے کہ اگر اس کے لئے دیگر بجٹ میں کٹوتی بھی کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کیا جائے،اس تخصیص کا ایک چوتھائی حصہ اعلیٰ تعلیم کے شعبوں کے لئے مختص ہونا چاہئے تاکہ ہماری جامعات اور تحقیقاتی مراکز کو مضبوط بنایا جا سکے،اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ قومی تعلیمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا جائے اس ہنگامی صورتحال کے تحت، حکومت یہ اعلان کر سکتی ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کو اپنے بچوں کو قریبی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجنا لازمی ہے ، صرف اس اقدام سے ہی ہمار ے معاشرے پربہت مثبت اثر پڑسکتا ہے، اس کے علاوہ اسکول اور کالج کی سطح پر قابل اساتذہ کی شدید کمی کو پورا کرنے کے لئے، ایک قومی تعلیمی سروس شروع کی جاسکتی ہے جس کے تحت کالج اور جامعا ت کے طلباء کو ڈگری اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک کہ وہ کسی اسکول یا کالج میں قومی خدمت کے طور پر ایک سال تدریس مکمل نہ کرلیں ۔پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے،جناب عمران خان کی آمد نے اس ملک میں مسائل سے نجات کی نئی امیدیں جگادی ہیں،ہمیں اس نازک موقع پر ان کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہئے تاکہ پاکستان بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوسکے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں