اختراعی جدت طرازی کی عجب دنیا

Tuesday / Oct 31 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

اس تیزی سے بدلنے والی دنیا میں، نئی نئی ایجادات موجودہ صنعت کے لئےایک بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ ایک امریکی ماہر ایلون مسک نے ایک خلائی کمپنی قائم کی جس کا نام “space X”ہے۔یہ کمپنی راکٹ کو خلا تک پہنچانے میں مہارت رکھتی ہے اور اس مقصدکے لئے استعمال ہونے والی لاگت ناساکے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے۔ یہ پہلی نجی کمپنی تھی جس نے مدار میں خلائی اسٹیشن قائم کیا۔ اب یہ کمپنی با قاعدگی سے NASAسے ایک معاہدے کے تحت خلائی اسٹیشنوں پر سامان بھیجتی ہے اورNASAکو خودیہ کام بند کرنا پڑاہے ۔ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اس سال کے اوائل میں، 2003 ء میں قائم الیکٹرک کار کمپنی ٹیسلا کے حصص کی قیمت نے ایک سو سال پرانی کمپنی ، فورڈ کی قیمت پر سبقت حاصل کرلی اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ اسی دہائی کے اندر دنیا بھرمیں ، زیادہ تر پٹرول / ڈیزل کاریں اور بسیں سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی اور بجلی کی گاڑیاں ان کی جگہ لے لیں گی۔ ڈائیملرر بینز کے سر براہ ڈائیٹرزیٹشے نے گزشتہ ماہ ایک تقریر میں کہا کہ ہمارا مقابلہ دیگر کار کمپنیوں سے اب نہیں رہا۔ اب مقابلے میں صرف ٹیسلاکمپنی ہےاوراس کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئیر کمپنیاں ہیں جیسے گوگل مائکروسوفٹ اور دیگر کمپنیاں جن میں سے کو ئی بھی موٹر گاڑیوںکی مالک نہیں ہے مثال کے طور پر اوبر جو ایک گاڑی کی بھی مالک نہیں ہے، لیکن اب وہ دنیا میں سب سے بڑی ٹیکسی کی کمپنی ہے۔ اسی طرح ایئر بینب دنیا میں سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے، اگرچہ وہ کسی بھی ہوٹل کی مالک نہیں ہے۔ Zetsche بالکل درست فرماتے ہیں موٹر گاڑی کی وہ صنعتیں جو پٹرول یا ڈیزل کے انجن استعمال کرتی ہیں بیٹریوں کی ترقی کی وجہ سے بہت بڑی تباہی کا شکار ہونے والی ہیں۔یہ بیٹریاں ایک ہی چارج پر موٹر گاڑیوں کو 300کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد چلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس کے علاوہ یہ گاڑیاں مصنوعی ذہانت میں ترقی کی وجہ سے نئے قسم کی خود کار گاڑیوں میں تبدیل ہو جائینگی۔ اس کے نتیجے میں موٹر گاڑیوں کا بیمہ آج کے مقابلے میں کئی گنا سستا ہو جائے گا کیونکہ شاید ہی کوئی حادثہ ہو سکے گاکیونکہ ان گاڑیوں کو انسان نہیں بلکہ کمپیوٹر چلائینگے ، لہٰذا بیمہ کمپنیوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جائے گا۔ شاذو نادر ہی کسی کو اپنی گاڑی رکھنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ خود مختار ٹیکسی کااستعمال بہت سستااور آسان ہو جائے گا جو آپ کی ایک کال پر چند منٹ کے اندر اندر آپ کے دروازے پر موجود ہوگی۔ دنیا کی پہلی ہوائی ٹیکسی سروس کا مظاہرہ گزشتہ مہینے دبئی ،متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوا۔ یہ ڈرون گاڑی جرمن کمپنی وولوکوپٹرنے تیار کی ہے۔ یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے جس میں آپ اپنے بچوں کو ہر صبح خود مختار ڈرون ہیلی کاپٹروں میں پرواز کرتے ہوئے اسکول چھوڑا کریں گے اس طرح سڑک پر بھاری ٹریفک کا سامنا کرنے سے بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ مصنوعی ذہانت اب انسانی سرگرمیوں کے تقریبا ہر شعبے کو متاثر کرے گی۔ طاقتور کمپیوٹر، جس کا نام واٹسن ہے، پہلے ہی سرطان کی تشخیص میں انسانوں سے 4 گنا زیادہ درستگی کے ساتھ مدد کر رہا ہے۔ اب امریکہ کے وکلاکو بھی ملازمت حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ واٹسن کمپیو ٹر انسانی 70٪ درستگی کے مقابلے میں 90٪ درستگی کے ساتھ سیکنڈوں کے اندر قانونی مشورہ پیش کر تا ہے ۔یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2030 تک کمپیوٹرز انسانوں سے کہیں زیادہ ذہین ہو جائیں گے اور بغیر سکھائے خود علم حاصل کرسکیں گے ، اپنی غلطیوں سے سیکھ سکیں گے اور اپنی صلاحیتوں کو نہایت تیزی سے بہتر بناسکیں گے۔اس ترقی کا ایک اثر یہ بھی ہوگا کہ شہروں میں آبادی کا دباؤ بھی ختم ہوجائے گا کیونکہ تصوری آفس کے قیام کے نتیجے میں آفس کا عملہ عموماً اپنے گھروں سے کام کرسکے گا جو کہ شہر سے دور دراز علاقوں میں بھی واقع ہوسکتے ہیں۔اب تو مصنوعی ذہا نت چہرے کے ہلکے سے تاثر میں تبدیلیوں سے جھوٹ کی نشاندہی بھی کرسکے گی ، اس طرح مستقبل کے سیاست دانوں اور مجرموں کے لئے زندگی دشوار ہوجائے گی ۔ ایک اور شعبہ جو تیزی سے تبدیلیوں سے گزر رہا ہے وہ توانائی کا ہے۔شمسی خلیوں کی قیمت صرف ڈھائی روپے فی کلوواٹ گھنٹہ تک رہ گئی ہے. ابوظہبی میں شمسی فارم کے لئے ایک چینی شمسی پینل بنانے والی کمپنی اور جاپانی کمپنی نے مل کر بولی لگائی تھی جو صرف 2.4 روپیہ فی کلوواٹ فی گھنٹہ تھی۔ پاکستان میں ہم اس قیمت سے کہیں زیا دہ قیمت میں بجلی پیدا کر رہے ہیں۔کوئلہ یا گیس سے پیدا کی ہوئی توانائی کی قیمت 4 سے5 روپے فی کلوواٹ فی گھنٹہ کے درمیان ہوتی ہے جس کی نسبت شمسی توانائی زیادہ سستی ہو گئی ہے، اس کے علاوہ ایسی سستی بجلی کی دستیابی کے نتیجے میں اب نمک بانی کے کارخانے نہایت کم لاگت پر کام کریں گے اور اس طرح پینے کا صاف پانی اور زراعت کے لئے پانی کی فراہمی بھی بہت کم قیمت پر دستیاب ہو جائے گی۔ اس طرح 1000 گیلن پانی کی نمک بانی کے لئے صرف 20 روپے کی لاگت آئے گی۔ اس طرح پاکستان سمیت بہت سےایسے ممالک کی زندگیوں پر بڑا گہرا اثر پڑ سکتا ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ہمیں فوری طور پر متحدہ عرب امارات کی طرح کم قیمت شمسی گھروں کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور شعبہ جو انتہائی تیز رفتاری سے تبدیلی کے مراحل طے کر رہاہے وہ جینیا ت کا شعبہ ہے۔ جینیاتی انجینئرنگ میں شاندار ترقی صحت اور زراعت دونوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔اب تو’عمر رسیدگی کےجین‘ کی شناخت ہو گئی ہے اور ان سے عمر بڑھنے کی وجوہات سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ایسے مرکبات بھی دریافت کئے جا چکے ہیں جو کہ نہ صرف عمر رسیدگی کے عمل کو سست کرتے ہیں بلکہ کم عمر کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں ، اس کا تجربہ جانوروں پرکامیابی سے کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح انسانوں کی اوسط عمر ہر سال 3 مہینے کے حساب سے بڑھ رہی ہے ، اور آج اوسط عمر80سال سے بھی تجاوز کر چکی ہے جبکہ سو سال پہلے یہ صرف ساٹھ سال کے لگ بھگ تھی، اب یہ توقع کی جاتی ہے کہ جینیات اور طب کے میدان میں ترقی کی وجہ سے آج پیدا ہونے والے بچے 120 سال سے زائد عمر زندگی گزاریں گے۔ جینیاتی ردوبدل کی بدولت پھل، سبزیوں اور اناج کی فصلوں کی نئی قسمیں بھی تیار کی جا رہی ہیں جو کثیر پیداوار ، بیماری مزاحم اور نمک روادار ہیں۔ جینیاتی ترقی کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ پودوں کی پیداوار بیجوں کے بغیر خالص طورپربافت پیوندکاری سے بھی ممکن ہے۔ اس پیشرفت کا باقاعدہ مشاہدہ اآپ جامعہ کراچی میں قائم بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز کا دورہ کریں تو آپ کوہزاروں خوبصورت آرکڈ پھول دکھائی دیں گے، جو بیجوں سے نہیں بلکہ خالصتاً بافت پیوندکاری کے ذریعے تیار کئے گئے ہیں۔ ایک اور دلچسپ اہم جدت تعلیم کے میدان میں واقع ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورس بن چکے ہیں جو کہ ویب سائیٹ پر مو جود ہیں یہ کار نامہ جامعہ کراچی کے اساتذہ نے انجام دیا ہے۔ اس ویب سائٹ میں MIT ،اسٹینفورڈ، ہارورڈ، ییل، جامعہ کیلیفورنیا اور بہت سی دیگر جامعات کے کورسز دستیاب ہیں۔ پاکستان میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز ، جامعہ کراچی میں اس مربوط ویب سائٹ (iMOOCs) کو تیار کیا گیا ہے۔اسکے تحت ہزاروں اسکولوں، کالجوں اور جامعات کی سطح کے کورسز تک بلامعاوضہ رسائی ممکن ہے۔ اس ویب سائٹ کا پتہ یہ ہے: lej4learning.com.pk بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز میں قائم لطیف ابراہیم جمال قومی سائنسی معلومات کے مرکز کے اس قدم سے دنیا بھر سے کو ئی بھی شخص اسکول، کالج اور جامعہ کی سطح کے ان علمی مواد سے بلامعاوضہ مستفید ہو سکتا ہے۔اسکے علاوہ بالخصوص پاکستانی طلبہ کی آسانی کے لئے بہت سارے اسکول کورسز اردو میں بھی موجود ہیں۔ اس جدت طرازی سے بھرپور دلچسپ دنیا میں داخل ہونے کے لئے ہمیں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا۔ ترکی میں کسی شخص کو بھی سرکاری جامعات میں بحیثیت استاد مقرر نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ وہ ایک سخت مرکزی امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ سنگاپور میں اسکولوں کی سطح کے اساتذہ کے لئے A-Level میں تعلیم حاصل کرنا لازمی بن گیا ہے. چین، بھارت، ترکی اور بہت سے دیگر ممالک میں ہزاروںجدت طرازپارکس موجود ہیں جہاں کاروبار کو قانونی اور مالیاتی خدمات، کاروبار کے لئے قرضے اور دفتر / لیب کی سہو لتوں تک رسائی کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ ہمیں بھی ان مثالوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم مضبوط قوم کے طور پردنیا میں اپنا نام پیداکرنا چاہتے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں