ہم تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں

Monday / Jan 06 2020

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس دان مختلف تحقیقات کی بناء پر بڑھتے ہوئے درجہ ٔ حرارت اورمستقبل میں پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کررہے ہیں ۔ان خطرات سے بچنے کے لیے ماہرین متعدد چیزیں ایجاد کررہے ہیں۔ان میں چند کا تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔ موسمی ٹائم بم بحراوقیانوس پر موجود برف تیزی سے پگھل رہی ہے جو سائنس دانوں کی پریشانی کا باعث ہے ۔ یونیورسٹی آف الاسکا کے ڈاکٹر کیٹی والٹر کے مطابق سائبیریا کی بعض جھیلوں کا سائز دو سال قبل کے سائز سے5گنا کم ہو چکا ہے۔ اس کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے سمندر ی موجوں میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے، جس سے مون سون بارشوں میں سنگین تبدیلی کا خطرہ ہے ۔یہ تبدیلی فصلوں کی نشونما اور 2 بلین لوگوں کی زندگی کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے ۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیائی خطے کے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔قطب شمالی کے خطوں کے موسمی تبدیلی سے تباہ ہونے کا سب سے زیادہ خدشہ ہے ۔ پرمافروسٹ(منجمد زمین ،پانی اور چٹانیں ) میں نامیاتی کاربن کی بڑی مقدار ہوتی ہے جوکہ 10 ہزار سال سے جمے ہوئے مردہ پودوں اور جانوروں سے تشکیل پاتی ہے ۔پگھلاؤ کے تیزرفتار عمل کی وجہ سے 100 بلین ٹن دفن شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین ، گیس کی صورت میں فضاء میں خارج ہوسکتی ہے ۔ منجمد سمندروں کی تہہ میں میتھین ہائیڈریٹ کی شکل میں دبی ہوئی میتھین (برف جس میں میتھین کافی مقدار میں موجود ہے)بھی خارج ہوسکتی ہے۔ میتھین کا اخراج ،گرین ہائوس گیسوں کی مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے ،یہ بھی عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے ۔ محققین اس پر کام کر رہے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھاجانے والے فعال بیکٹیریا دریافت کیے جائیں اور ان کے نتیجے میں ایندھن ضمنی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہو۔اس حوالے سے حرارت کو جذب کرنے والے مصنوعی گردکے طوفان کے امکانات پر بھی غور کیا جا رہا ہے ،مگر جب تک ہم ایندھن یا فوسل فیول کو جلانے کے عمل پر قابو پائیں گے،با لخصوص جدید دنیا میں ، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔موسمی ٹائم بم کی سوئی ٹک ٹک کررہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ قبل ازوقت ہی پھٹ جائے اور کروڑوں اربوں لوگ اس کی زدمیں آجائیں۔ ساحلی شہر خطرے میں سائنس دان عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آنے والی تیز رفتار تباہی کی وجہ سے پریشان ہیں بیسویں صدی میں سطح سمندر 17سینٹی میٹر بلند ہو چکی ہے اور اس کی شرح میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔ اگلے 9سالوں میں سطح سمندر کے 1 سے 2میٹر بلند ہونے کی توقع ہے جوکہ وسیع تباہی کا سبب بنے گا ۔ سمندر کی سطح میں اضافے کی دو وجوہات ہیں ایک تو گلیشیرز کا پگھلنا اور دوسری فضائی درجہ ٔحرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندر کا حرارتی پھیلائو ۔ ساحلی علاقوں میں تقریباً 6کروڑ ( 60 بلین )لوگ رہائش پذیر ہیں اور اس صدی کے اختتام تک یہ آبادی 130بلین ہونے کی توقع ہے۔ سمندر کے قریب تعمیر ہونے والے مکانوں کو اب خالی کرنے کی ضرورت ہے ۔ کراچی کے بعض علاقے اور بلوچستان کے ساحلی علاقے جلد ہی پانی میں غرق آب ہو جائیں گے ۔ دبئی کا ساحلی علاقے بھی سمندر میں ڈوب جائے گا ۔پانچ یورپی ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے ،جس میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ نیدر لینڈ ہے ۔ تباہ کن طوفان اور سیلاب جوکہ سو سالوں میں آیا کرتاتھا اب تقریباً ہر 4سال بعد آرہا ہے ۔چنا نچہ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ساحلی شہروں کو خالی کردیا جا ئے ،تا کہ یہاں نت نئی رہائشی اسکیمیں شروع کی جا ئیں ۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ صورت حا ل کو تبدیل کرنے کے حوالے سے اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اوزون میں سوراخ 1974ءمیں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا آئروین میں کام کرنے والے Sherwood Rowlandاور Mario Molinaنے متنبہ کیا ہے کہ ریفریجریٹر میں استعمال ہونے والے بعض کیمیائی مادّے (کلو رو فلورو کاربن CFCs)فضاء میں جاکرتحلیل ہوتے ہیں اور کلورین خارج کرتے ہیں جوکہ فضائی اوزون کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اوزون زمین کو الٹراوائلٹ(بالائے بنفشی)شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔1987ءسے قبل تک سائنس دانوں نے دنیا کو اوزون کے خطرے سے اس طرح آگاہ کرنا شروع نہیں کیا تھا ۔پھر برطانوی انٹارکٹک سروے کی ٹیم نے انٹارکٹیکا پر اوزون کے سوراخ کو دریافت کیا ۔1990ءکی دہائی کے اواخر میں فضاء میں اوزون کو تباہ کرنے والے مادّوں کے اخراج میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اوزون میں ہونے والا سوراخ بتدریج بند ہونے لگا۔ یہ سوراخ قطبین (Poles)پر کیوں ہوئے؟ قطبی خطوں سے باہر اوزون کے چند سومالیکیول کلورین ایٹم سے عمل انگیزانداز میں تباہ ہوتے ہیں ۔قطبی ماحول میں برف کے اجزاء کلورین کے ایٹموں کو وہ سطح فراہم کرتے ہیں جس پر وہ تیزی سے حملہ آور ہوکر ہزاروں کی تعداد میں اوزون مالیکیولز کو تباہ کردیتی ہے، چنانچہ انٹار کٹیکا میں اوزون سوراخ کے مرکز میں نقصان کی شرح 3فی صدیومیہ تک ہوجاتی ہے۔1987ء میں یہ تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اگر اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے تو 2025ءتک Atmospheric Zone کا دوتہائی علاقہ تباہ ہوجائے گا اس کے نتیجے میں جلد کا کینسر عام ہوجائے گا ۔ ہم سیارہ زمین سے محروم ہو رہے ہیں بیرونی خلا تقریباً با لکل خالی ہے ، جوکہ ہمارے کرۂ ہوائی پر دبائو ڈالتی ہے ۔خوش قسمتی سے ہمارے سیارے کی جانب سے لگائے جانے والی کشش ثقل کی قوت Gravitational Pullاس کو باہر جانے سے روک کے رکھتا ہے ۔ چنانچہ ہونے والا نقصان بہت کم ہے ۔ چھوٹے اجسام میں Gravitational Pullیا ثقلی کھنچائو بہت کم ہوتا ہے ۔ایک سیب بھی ثقلی کھنچائو کا حا مل ہوتا ہے، مگر یہ اس قدر کم ہوتا ہے کہ اس کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ،تا ہم اگر یہ اجسام چاند یا ہمار ی زمین کے برابر ہوں تو Gravitational Pullیا کشش ثقل قابل ذکر ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے لئے اچھی بات ہے ، فضائی مالیکیول زمین کی کشش ثقل سے نکلنے کے لئے خلا میں فرار ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لئے ان کو ایک خاص ولاسٹی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہماری زمین ہر سکینڈ میں3کلو گرام ہائیڈروجن اور 50گرام ہیلئم سے محروم ہو رہی ہے یہ دونوں ہلکی ترین گیسیں ہیں یہ ارضیاتی ٹائم اسکیل پر بہت اہم ہیں ۔ مثال کے طور پر مریخ ہمیں سرخ اس لئے نظر آتا ہے کہ یہاں موجود پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں ٹوٹ گیا اور ہائیڈروجن سیارے سے باہر نکل گئی ، باقی رہ جانے والی آکسیجن نے چٹانوں کے ساتھ تعامل کرکے Reddish Oxide بنالیا ۔ فضائی مالیکیولز کے فرار ہونے کا عمل سورج پر سے پیدا ہونے والی گرمی سے بھی واقع ہو سکتا ہے ۔جیسے جیسے وقت کے ساتھ سورج گرم ہوتا جائے گا ،آکسیجن اور ہائیڈروجن گیس کے فرار ہونے کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا 2بلین سال بعد زمین فضائی گیسوں سے محروم ہوجائے گی اور یہ کرہ ٔارض ایک دہکتی ہوئی زندگی سے محروم چٹان میں تبدیل ہوجائے گا ۔ہو سکتا ہے اس وقت تک ہماری آنے والی نسلیں کوئی اور قابل رہائش سیارہ تلاش کرلیں۔ قطبی روشنیاں… یہ کس وجہ سے ہوتی ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ زمین کے قطبین کے نزدیک رات میں نظر آنے والی قابل دید روشنی کا سبب سورج ہے ۔سورج مقناطیسی طوفان کی بارش کرتا ہے جوکہ برقی توانائی کے حامل اجزاء یا Charged Particleپرمبنی گرم گیسوں پر مشتمل ہوتا ہے ، اور اس برقی کرنٹ کارخ زمین کی طرف ہوتا ہے ۔ یہ طوفان زمین کی طرف 10لاکھ ( ایک ملین ) میل فی گھنٹہ کی تباہ کن رفتار سے آتا ہے، تا ہم یہ بہت ہی کم محسوس کیا جا سکتا ہے کیوں کہ زمین کی مقناطیسی فیلڈ (Magnatosphere)اس کو بڑی مقدار میں کم کردیتی ہے۔ تاہم یہ ہماری مقناطیسی شیلڈ ((Magnatosphere کو توڑ پھوڑ دیتا ہے ،جس سے تیز توانائی کے حامل ذرات کی بارش ہوتی ہے جو رات میں زمین کو روشن کردیتی ہے ۔ جب اس طوفان کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے تو آسمان کئی رنگوں کی روشنی سے بھر جا تا ہے۔ اس میں موجود سرخ اور سبز رنگ کی وجہ فلکی ذرات (Cosmic Particle)کا آکسیجن سے ٹکرائو ہے جب کہ نیلی روشنی ان ذرات کے نائٹروجن سے ٹکرانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ہماری خوش قسمتی ہے کہ Magnetosphereایک حفاظتی شیلڈ کے طور پر کام کرتے ہوئے ہمیں فلکی شعاعوں سے ہونے والے کینسر سے محفوظ رکھتی ہیں۔ سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں گذشتہ چند دہایئوں سے ہمارے کرہ ٔارض پر قدرتی تباہ کاریوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ان قدرتی تباہ کاریوں میں زلزلے، طوفان، سیلاب، آتش فشاں کا پھٹنا ، گرم ہوائیں اور دوسری تباہ کاریاں شامل ہیں۔ موجودہ دور میں آنے والی تباہ کاریوں کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت اوربڑے پیمانے پر معاشی نقصان عمل میں آیا ہے 2008ء میں آنے والا کترینہ طوفان 80ارب ڈالر کے نقصان کا باعث بنا، جب کہ پاکستان میں آنے والے زلزلے سے80,000 افراد لقمہ اجل بن گئے اور اربوں امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔گذشتہ سال سندھ میں آنے والے طوفان سے 43 ارب(بلین) امریکی ڈالر کا نقصان ہوا جب آئندہ بھی اسی پیمانے پر تباہ کاری کا خدشہ ہے۔ گذشتہ سال جاپان میں آنے والے طوفان سے 200 سے 240بلین ڈالر کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔سائنس دان اس خطرے کو کافی عرصے سے محسوس کررہے ہیں بالخصوص 1998ءکے بعد سے آنے والی مسلسل تباہ کاریوںکے بعد سے۔ تباہ کاریوں کے اسباب میں ارضی اور غیر ارضی دونوں اقسام کے عوامل شامل ہیں۔موسم سے منسلک تباہ یوں کی شدت اورتعداد میں اضافہ کو بجا طور پر گذشتہ چند دہایئوں میں ہونے والے درجۂ حرارت میں عالمی اضافہ سے منسلک کیا جاتا ہے۔ یہ معدنی ایندھن جلا نے اور جنگلات کی کٹائی جیسی انسانی سرگرمیوں کا شاخسانہ ہے۔اس کے علاوہ ایک اور اہم سبب ہمارا سورج محسوس ہوتا ہے۔ شمسی شعلے، سورج کے دھبوں کے چکر، سورج کی آنے والی روشنی، اور بالائے بنفشی شعائیں بھی ہمارے موسموں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ سورج کی مقناطیسی فیلڈ میں آنے والی تغیرات بڑے طوفان کا سبب بن سکتے ہیں،جس کے نتیجے میں سورج سے اربوں ذرات کا اخراج ہو سکتا ہے (Coronal Mass Ejection CMEs)۔ یہ ہمارے کرۂ ارض پر وسیع اثرات کے حامل ہوں گے۔1989ء میں بڑی تعداد میں CMEہماری زمین پر آکر گرے تھے ،جس کی وجہ سے شمالی کرے پر 1500 گیگا واٹ کی بجلی گری تھی۔اس کی وجہ سے کینیڈا کا گرڈ سسٹم جل گیا تھا اور 6ملین افراد کو طویل وقت کے لیے بجلی سے محروم ہونا پڑا تھا۔ موسمی تباہیوں کا ایک اور سبب زمین کی مقناطیسی فیلڈ کا پلٹنا ہے یہ عمل ایک خاص وقفے کے بعد رو نما ہوتا ہے، اب ماہرین کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دوبارہ وقوع پذیر ہونے جا رہا ہے،کیوں کہ گذشتہ 150 سالوں کے دوران زمین کی مقناطیسی فیلڈمیں8فی صدکی کمی واقع ہوئی ہے۔میتھین burp، یعنی سمندر کی تہوں میں میتھین ہائڈریٹ کی شکل میں موجود ذخائر سے اس گیس کا اخراج درجۂ حرارت کے عالمی اضافہ کے عمل کو مزید بڑھادے گا۔سندھ اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے زلزلے دراصل مستقبل کی بڑی تباہ کاریوں کی ابتدائی شکل ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں