خلا میں پانی کے بڑے ذخائر اور ہیرے سے بنا سیارہ دریافت

Monday / Feb 10 2020

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان کو وسیع کرنے کے لیے ماہرین ہر وقت کچھ نہ کچھ تحقیقات کرنے میں سر گرداں رہتے ہیں ۔اس ضمن میں سائنس دانوںنے خلائی سائنس میں متعدد کام انجام دئیے ہیں ،ان میں سے چندکے بارے میں ذیل میں بتا یا جارہا ہے ۔ خلا نورد خلا نورد کیا کام کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ،جس کا جواب ہر کوئی جاننا چاہتا ہے ۔خلا نورد طاقت ور ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ایک رات اور ایک سال کے بعدآسمانوں کی خاک چھانتے ہیں جو کہ بہت تھکا دینے والاکام ہے ،مگر اب اس کا م کے لیے سائنس دانوں نے روبوٹس تیار کرلیے ہیں اور اب بعض تجربہ گاہوں میں یہ کام روبوٹس انجام دے رہے ہیں ۔ کچھ ستاروںکی روشنی ہلکی اور تیز ہوتی ہے۔ اس سے سائنس دان یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ کائنات کی وسعت ایک جگہ جامد نہیں ہے بلکہ یہ مستقل پھیل رہی ہے، جیسے جیسے کہکشائیں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی ہیں ویسے ویسے کائنات وسعت پذیر ہو رہی ہے اور اس کو دھکا ایک پراسرار طاقت Dark Energyسے مل رہا ہے۔ یہ متغیر ستارے ایک لمحے کے لیے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر فوراً غائب ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو transients کہا جاتا ہے۔ Mount Palomar مشاہدہ گاہ پر ان ستاروں کے تجزیے کے لیے مصنوعی ذہانت کااستعمال کیا جارہا ہے۔ طاقت ور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ان تصویروں کا تجزیہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جاتا ہے جو اس میں مل جانے والی آوازوں کے اشاروں کو صاف کر کے واضح تصویر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ Super nova جو کہ عارضی طور پر ظاہر ہوتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے ،اس کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔اس کے لیے کمپیوٹر پر ایک نیٹ ورک بنایا گیاہے جو کہ ایک اکائی کی صورت میں کام کرےگا۔ چلی،ہوائی، آسٹریلیا، جنوبی افریقا، ٹیکساس Canary Island میں رکھے گئے ۔کمپیوٹر میں موجود خصوصی سافٹ ویئر کے ذریعے ان کو آپس میں منسلک کیا جائے گا اور یہ ایک دوسرے سے ابلاغ کر سکیں گے۔ زمین کی شکل کا سیارہ سائنس دانوں کا ماضی اس تحقیق میں گذرا ہے کہ یہاں پر کوئی غیر ارضی حیات وجود رکھتی ہے یا نہیں ۔اجنبی مخلوق اور بعض دوسرے زندہ اجسام کی تلا ش کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس تلاش میں کہکشاں میںایسے سیاروں کی تلاش بھی شامل ہے جو قابل رہائش علاقے میں پائے جاتے ہیں ۔کپلر ایک بہت بڑا خلائی کیمرہ ہے ،جس کی resolution 95میگا پکسل ہے ۔اس سے بڑاخلائی کیمرہ ابھی تک تیار نہیں کیا گیا ہے ۔یہ ستاروں کی چمک کو بڑی مقدار میں حاصل ہونے والے ڈیٹا جو کہ تقریباً 100گیگا بائٹ تک ہوتا ہےجو ہر مہینے ڈائون لوڈ کرتاہے اور پھر اس ڈیٹاکا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی سیارہ ستارے کے قریب سے گذرتا ہے تو ستارے کی روشنی ہلکی سی مدہم پڑجاتی ہے۔ روشنی کتنی مقدار میں مدہم ہوتی ہے اور کتنی تیزی سے روشنی واپس آتی ہے، اس معلومات کے تجزیے سے سیارے کے سائز اور اس کے محور کے بارے میں گراں قدر معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس کیمرہ کا حامل خلائی جہاز مارچ 2009 ء میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔ اور اس خلائی جہاز کو زمین کے پیچھے helio centric orbit میں رکھا گیا۔ یہ آسمان پر معمولی سے دھبے کی بھی نشاندہی کرتی ہے، جس سے اس بات کا قوی امکان پیدا ہوتاہے کہ یہ کہکشاں میں موجود ایگزو پلانٹ exoplanetکی بھی نشان دہی کر دے گا۔کپلر نے اب 1300سیارے دریافت کرلیے ہیں۔ ان میں سے 20زمین کی طرح کے ہیں اور یہ قابل رہائش علاقے میں پائے جاتے ہیں، تاہم ان دریافت شدہ سیاروں میں سب سے اہم Kepler 22b ہے۔ یہ زمین سے600نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ ستاروں کے Cygnus اور Lyraجھرمٹ کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کی جسامت ہماری زمین کے برابر ہے۔ اس کے قریب جو ستارہ واقع ہے وہ ہمارے سورج جیسا ہے۔ اس کا فاصلہ اپنے سورج سے اتنا ہی ہے ،جس سے یہ ایک قابل رہائش علاقہ بن جاتا ہے۔ ہیرے کا سیارہ آسٹریلیا کےماہرین نے خلا میں ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہےجو مکمل طورپر ہیرے کا ہے ۔اس سیارے کو دریافت کرنے کے لیے کئی ریڈیو ٹیلی اسکوپ استعمال کی گئ تھیں ۔ یہ سیارہ ہماری کہکشاں Milky way میں سیپنز جھرمٹ( Sepens Constellation )میں واقع ہے، تاہم یہ ہم سے 4000نوری سال فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی اس تک پہنچنے میں ہم کو 4000سال لگ جائیں گے۔ اس سیارے کا قطر 20کلومیٹر ہے جو کہ ہماری زمین سے 5 گنا ہے۔ یہ سیارہ بڑے عجیب و غریب انداز میں دریافت ہوا تھا،اس کے قریبی Pulsarاپنے سگنل بھیج رہے تھے ، Pulsars، 15 میل قطر کے حامل چھوٹے چھوٹے سیارے ہیں جو کہ بہت طاقتور لاسلکی (ریڈیو) پیغام بھیجتے ہیں،جس طریقے سے یہ لاسلکی شعائیں (ریڈیوویوز) تبدیل ہورہی تھیں۔ اس کی مدد سے خلا نوردوں کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ اس قسم کی تبدیلی Modulationکا ذمہ دار کوئی قریبی سیارہ ہے۔ اس کی کثافت کے تخمینے سے اندازہ ہوا کہ یہ سیارہ اس سے قبل لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں اوپر ہے ۔نیزیہ قلمی مادّے سے بنا ہے، جو کہ ہیرے ہیں۔ پانی کی نئی دنیا کی دریافت ہمارے نظام شمسی سے باہر سیاروں کی تلاش میں ہماری ہی کہکشاں میں سات سو ایگزو پلانٹ دریافت ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کئی دو سورجوں کے گرد گردش کررہے ہیں۔ بعض کی سطح پر بڑے بڑے طوفان برپاہیں۔ بعض اپنے سورجوں سے اس قدر قریب ہیں کہ ان پر موجود چٹانیں بخارات میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور آسمان سے چٹانی بارش شروع ہوجاتی ہے۔اس کی ایک مثال COROT-7b ہے،جس کی دریافت چار سال قبل COR0Tٹیلی اسکوپ کی مدد سے کی گئی تھی۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ سیارہ GJ 1224bہے جو کہ 40 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی دریافت 2009ء میں MEarth پروجیکٹ کے تحت عمل میں آئی تھی۔ یہ تحقیق Havard Smithsonian Centre برائے ایسٹروفزکس CFA میں انجام دی گئی تھی۔ یہ سیارہ ہماری زمین سے 7.2گنا بڑاہے اور اس کی سطح زیادہ تر پانی پر مشتمل ہے۔ یہاں کا درجۂ حرات 230ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہاں پر زمین کے مقابلے میں زیادہ پانی اور کم چٹانیں ہیں۔ یہاں موجود شدید دبائو اور درجۂ حرار ت ایک عجیب سے مادّے HOT ICEیا ’’گرم برف ‘‘کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ بادکہکشانی کہکشانی ہوائیں تیز رفتار چارج شدہ ذرات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جن کی رفتار 3000 km/sec تک ہوتی ہے۔ یہ ستاروں پر دھماکوں (Starburst) یا اکثر کہکشائوں کے مرکز میں مخفی انتہائی بڑےبلیک ہول Black Hole کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مواد ستاروں سے گذرتا ہوا ہمارے نظام شمسی میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس کا مطالعہ ناسا کے (Interstellar Boundary Explorer (IBEX کے ذریعے کیا جارہاہے ،جس کو اکتوبر2008ء میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔ ہماری کہکشائوں کے دوسرے حصوں سے ہمارے نظام شمسی تک پہنچنے والے چار اقسام کے ایٹموں کی شناخت ہوئی ہے۔ یہ چار ایٹم ہائیڈروجن، ہیلیم، آکسیجن اور نیون ہیں۔ IBEX منظم انداز میں مختلف تعدیلی (Neutral) ایٹموں کو شمار کررہاہے جو کہ باد کہکشانی کے ذریعے ہمارے نظام شمسی تک پہنچتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف یہ ہوا ہے کہ ان ایٹموں کی اجزائے ترکیبی ہمارے نظام شمسی میں پہلے سے موجود ایٹموں سے مختلف ہے۔ ان میں آکسیجن ایٹم کم ارتکاز کے حامل ہیں۔ اس انکشاف سے اس بات کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں خلا ء کے کسی مقام پر پائے جانے والے ایٹموں کے مقابلے میں Inter Stellerکے باہرزیادہ آکسیجن موجود ہے۔ کائنات میں پانی کے ایک بڑے ذخیرے کی دریافت کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے خلانوردوں کی دو بین الاقوامی ٹیموں نے ہماری کائنات میں پانی کا ایک بڑ اماخذ دریافت کیا ہے۔ یہاں پانی کا ذخیرہ حیران کن حد تک وسیع ہے۔ یہ ذخیرہ ہمارے سورج کی کل کمیت سے 100,000گنا زیادہ کمیت کا حامل ہے، جب کہ زمین پر موجود تمام سمندروں کی کل جسامت سے 140ٹریلین گنا بڑا ذخیرہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذخیرہ ہم سے12بلین نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی تصویر ہم تک پہنچنے میں 12ملین سال لگ جائیں گے۔ جب کہ ہماری کائنات کی اندازاً عمر 13.7ملین سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی کائنات میں بھی پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ اس روزن سیاہ کو Quasarکا نام دیا گیا ہے۔ Quasar انتہائی چمکدار شے ہے جو کہ اردگرد کی گرد اور گیسوں کو بھی کھا لیتی ہے اور اس کے نتیجے میں توانائی کی بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ مریخ پر چلنے والی تجربہ گاہ تیار مریخ پر بھیجنے والی تجربہ گاہ ’’Rover‘‘وہاں پر جانے کے لیے تیار ہے ۔اس کو ایک بڑے اٹلس 5 راکٹ کے اوپر نصب کیا جائے گا اور یہ چند ہفتوں میں آٹھ ماہ پر مشتمل 354میل طویل سفر کے لیے بھیج دی جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لیبارٹری کا وزن تقریباً ایک ٹن کے برابر ہے اور اس کو تیار کرنے میں سات سال کا عرصہ لگا ہے، جب کہ اس پر آنے والی لاگت 5.2بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ سرخ سیارے پر جاکر انتہائی سخت حالات میں معلومات جمع کرے گی۔ یہاں درجۂ حرارت صفر سے کم ہوتے ہوئے 90ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ جب کہ مقناطیسی شیلڈ Celsuis کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہاں سمت کا اندازہ لگانا ناممکن ہے ۔جب کہ فضا خالص کاربن ڈائی آکسائیڈ پرمشتمل ہے، جس جگہ پر یہ Roverاترے گا۔ اس کوGale Craterکہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کے بارے میں یہ سمجھاجاتا ہے کہ یہاں کبھی پانی موجود تھا۔ یہ تحقیقی Roverپانی کی موجودگی کی علامات اور دوسرے نامیاتی مواد تلاش کرے گی، تاکہ وہاں زندگی کے آثار کو دریافت کیا جاسکے گا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں