اعلیٰ تعلیم: نشیب و فراز

Monday / Feb 24 2020

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

موجودہ حکومت کی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ میں کاوشیں ایک تابناک مستقبل کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ اس ضمن میں موثر پالیسیاں کئی دہائیوں تک اثر انداز ہوتی رہیں گی۔ موجودہ دور‘ علم پر مبنی معیشت کا دور ہے، جو ممالک تعلیم، سائنس و جدید ٹیکنالوجی کے فروغ میں ناکام ہیں وہ ہر سطح پر کمزور ہیں- لاکھ کوششوں کے باوجود ہمارے ملک میں معیاری تعلیم عام نہیں ہو پا رہی، اگر کوئی حب الوطنی میں دو قدم آگے بڑھاتا بھی ہے تو اس کو اس قدر تنگ کیا جاتا ہے کہ اسے ان اقدامات سے مجبوراً کنارا کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ بالکل یہی میرے ساتھ ہوا جب میں نے بحیثیت بانی چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن اعلیٰ تعلیم کا معیار اس قدر بہتر کیا کہ 2008تک ہماری 5 جامعات دنیا کی چوٹی کی 300سے 500جامعات میں شامل ہو گئی تھیں- اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے اپنے قیام کے ابتدائی دور میں ایک شاندار و تابناک دور کا مشاہدہ کیا ہے۔ 1947ءسے 2002ءتک پاکستان کے وجود کے 55سالوں کے دوران ہماری ایک بھی جامعہ قابل احترام بین الاقوامی درجہ بندی حاصل نہیں کر سکی تھی تاہم 2002میں ایچ ای سی کے قیام کے 6سال کے قلیل عرصے میں 2008ء تک متعدد پاکستانی جامعات نے عالمی سطح (ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی درجہ بندی) پر دنیا کی 300، 400اور 500صف اول کی جامعات کی درجہ بندی میں شمولیت کا اعزاز حاصل کیا۔ تھامسن رائٹرز دنیا کی ممتاز و معتبر ایجنسی ہے جو انتہائی مہارت سے پیشہ ور افراد کےقابل اعتماد اعداد و شمار اور معلومات فراہم کرتی ہے۔ اگست 2016ءمیں اس ایجنسی نے BRIC(برازیل، روس، بھارت اور چین) ممالک سے پاکستانی اشاعتوں کے اعلیٰ معیار اور حوالوں کا موازنہ کیا اور رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’’برک ممالک کے مقابلے میں پاکستان اعلیٰ و معیاری حوالہ جات کی تحقیقی اشاعت میں اعلیٰ سطح کے ملک کے طور پر ابھرا ہے‘‘۔ ان پالیسیوں کو غیر جانبدار بیرونی جائزوں میں بھی سراہا گیا، ان میں عالمی بینک، برٹش کونسل اور یو ایس ایڈ کے علاوہ آزاد غیر ملکی ماہرین کی بھی رائے شامل ہے۔ ابتدا ہی سے ایچ ای سی میں تعداد کے بجائے معیار کو ترجیح کی پالیسی اختیار کی گئی، اس کا اندازہ اعلیٰ معیار کے تحقیقی جرائد میں ہماری بین الاقوامی تحقیقی اشاعت میں اضافے سے لگایا جا سکتا ہے۔ 2003میں معروف بین الاقوامی جرائد میں صرف 800کے قریب اشاعتیں تھیں لیکن اعلیٰ معیار کی تحقیق پر توجہ سے ان کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا اور 2008تک 8ہزار کے قریب تحقیقی اشاعتیں ہو گئیں جو 2019تک بتدریج اضافے سےتقریباً 20ہزار تک پہنچ چکی ہیں۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ ہم نے 2017میں فی کس کی بنیاد پر اعلیٰ معیار کے جرائد میں بین الاقوامی تحقیقی اشاعت کے معاملے میں بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی کے چیئرمین، آسٹریا کے پروفیسر مائیکل روڈے نے 2003ءسے 2008ءکے درمیان رونما ہونے والی نمایاں تبدیلی کو پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ’’سنہری دور‘‘ قرار دیا تھا۔ انہوں نے متعدد بار پاکستان کا دورہ کیا اور 2008ءمیں لکھا ’’پوری دنیا میں جب ہم مختلف ممالک میں اعلیٰ تعلیم کی اہمیت پر تبادلہ خیال کرتے ہیں تو اس بات پر اتفاق رائے ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر سب سے تیز رفتار ترقی کرنیوالا ترقی پذیر ملک پاکستان ہے۔ میں نےکسی بھی دوسرے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ایسی حیرت انگیز مثبت پیشرفت نہیں دیکھی جو گزشتہ 6سالوں میں پاکستان میں ہوئی ہے۔ میں ایچ ای سی کا بانی چیئرمین تھا اور میرے بعد تین اور چیئرمین آئے جنہوں نے میری پالیسیوں کو سراہا اور ان پر عمل کیا، ایچ ای سی کو ایک بڑا دھچکا مئی 2008میں لگا جب حکومت نے جرمنی، فرانس، سویڈن، اٹلی، آسٹریا، کوریا اور چین کی معروف جامعات کے تعاون سے انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی متعدد عالمی معیار کی جامعات کے قیام کے بصیرت انگیز منصوبوں کو ترک کر دیا۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر اگلا حملہ ستمبر 2008ءمیں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے بیرونِ ممالک میں ایچ ای سی اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنیوالے ہزاروں طلبہ کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے وہ پیرس، برلن، لندن اور دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔ اس صورتحال کے پیش نظر میں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ ایچ ای سی کے شروع کردہ غیر ملکی فیکلٹی ہائرنگ پروگرام (ایف ایف ایچ پی) کے تحت ایک ہزار سات سو اکسٹھ غیر ملکی سائنسدانوں نے تقرری کیلئے درخواست دی جس میں سے 317کو جانچ پڑتال کے بعد 41جامعات میں تعینات کیا گیا کیونکہ معیار کی سربلندی کو قائم رکھتے ہوئے صرف بہترین کا انتخاب کرنا تھا- ان اساتذہ نے 2003ءتا 2011ءکے دوران اپنے فرائض انجام دیے، ان کی شراکت کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے، ایم ایس کیلئے 856طلبہ، ایم فل کیلئے 297طلبہ اور پی ایچ ڈی کیلئے 535طلبہ نے ڈگریاں حاصل کیں اور اعلیٰ درجے کے بین الاقوامی جرائد میں حیرت انگیز طور پر 2605تحقیقی مقالے شائع کیے۔ عبدالسلام اسکول آف میتھ میٹیکل سائنسز ان 41اداروں میں سے ایک تھا، افسوس کہ ملک دشمن عناصر نے ایچ ای سی کی ترقی کے خلاف کام کیا ہے کیونکہ اس سے بھارت سمیت پاکستان مخالف قوتوں کی پالیسیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ کسی ملک کو تباہ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے تعلیمی نظام کو ختم کیا جائے، خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کا شعبہ۔ یہ ملک دشمن عناصر موجودہ چیئرمین HECکو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ہماری جامعات کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ’’کمیونٹی کالج‘‘ کی طرز پر تبدیل کر دیں اور تحقیق کو کم ترجیح دیں۔ چیئرمین ایچ ا ی سی کو چاہئے کہ ان ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کریں اور گزشتہ چار چیئرمین کی عائد کردہ بہترین پالیسیوں کو بحال رکھیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں