تعلیمی ایمرجنسی: وقت کا تقاضا

Monday / Jun 07 2021

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

میں اپنےاس کالم میں بھی ملک کے لئے تعلیم کی اشد ضرورت اور اہمیت پر روشنی ڈالوں گا۔ موجودہ حکومت کے پہلے ڈھائی سال انتہائی مشکل تھے کیونکہ اس کو وراثت میں ملے معاشی انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ اب جبکہ معاشی زبوں حالی پر قدرے قا بو پا لیا گیا ہے، حکومت کو قومی تعلیمی ایمرجنسی کا فوری اعلان کر دینا چاہئے، ضروری ہے کہ ہر سال جی ڈی پی کا 0.5فیصد اضافی تعلیم کے لئے مختص کیا جائے تاکہ ہم اگلے 5برسوں میں جی ڈی پی کے 5فیصد اورا گلے 10برسوں میں 7.5فیصد تک پہنچ جائیں ا س اضافے کا ایک تہائی حصہ اعلیٰ تعلیم اور دو تہائی ابتدائی، ثانوی ، تکنیکی اور کالج کی تعلیم کے لئے مختص ہونا چاہئے۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہماری اولین ترجیح ہونا چاہئےتاکہ ان کو ملک و قوم کی ترقی کے لئے کارآمد بنایا جا سکے۔ اس کےلئے شعبہ تعلیم میں مرحلہ وار ترجیحی بنیادوں پر اسکول کی سطح کی تعلیم پر توجہ دینی ہوگی۔ہمارے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے تحت تعلیم کو صوبوں کے حوالےکر دیا گیا ،ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے ناقص معیار کے بارے میں وفاقی حکومت کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے، اس کا کردار صرف نصاب کی تشکیل اور منظوری میں مدد کرنے تک محدود ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25-A ریاست کے 5سے 16سال کی عمر کے بچوں کو لازمی و معیاری تعلیم کی مفت فراہمی کو لازم قرار دیتا ہے ، لیکن ماضی کے حکمرانوں نے آئین کے اس حصے کی دھجیاں بکھیر دی ہیںکیونکہ انہیں عوام کو ان پڑھ رکھنا تھا تاکہ وہ ان کا استحصال کرسکیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں تقریباً دو کروڑ بچے اسکول نہیں جا سکتے۔ یہ تعلیم میں دنیا کے سب سے نچلے درجے کے ملک نائیجیریا کے بعد دوسری بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے اسکولوں سےتعلیم مکمل کرکے اگلی سطح کی تعلیم تک پہنچتےوقت ٪32فیصدکی شرح سے کمی آتی ہے ، یعنی صرف 68فیصدطلباء اسکول کی سطح کی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں۔ مختلف صوبائی تعلیمی معیارات کی وجہ سے ملک میں خواندگی کی شرح میں بہت زیادہ فرق ہے۔مثلاً خواندگی کی شرح اسلام آباد میں ٪98جبکہ ضلع توغر میں صرف23فیصد ہے۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کی خواندگی کی شرح انتہائی افسوسناک صرف 9.5فیصد ہے،تعلیم کے لئے مختص جی ڈی پی کےتقریباً 2.6فیصد میں سے انتہائی مختصر حصہ (صرف ٪0.12فیصد) اعلیٰ تعلیم کے لئے مختص ہے جبکہ88فیصد کےقریب نچلی سطح کی تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی اصول یہ ہے کہ کل تعلیمی بجٹ کا کم از کم ایک تہائی حصہ اعلی تعلیم کے لئے مختص کیا جانا چاہئے۔ لہٰذا تعلیم کے شعبے کے لئے مجموعی طور پر بجٹ کی خطیر رقم مختص کرنابھی ضروری ہے۔اس کے علاوہ صرف کاغذپر موجود اسکول اور ان کے فرضی اساتذہ کاخاتمہ کرنابھی ضروری ہے جو صوبوں کو فراہم کردہ خطیر رقم ہڑپ کرلیتے ہیں۔ کالج کی سطح کی تعلیم بھی بڑی تباہی کا شکار ہے۔ کالج اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتے (سوائے ڈگری دینے والے اداروں کے) اور صوبوں نے بھی اس شعبے کو بڑی حد تک نظرانداز کیا ہے جس کے نتیجے میں ناقص معیار کےطلباء جامعات میں داخلے کے لئے آتے ہیں۔ اس شعبے کو ترقی دینے کےلئےبڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے ، جس میں بہت سے کالجوں کو تکنیکی اداروں میں تبدیل کرنا شامل ہے تاکہ اعلیٰ تربیت یافتہ تکنیکی ماہرین بشمول نرسیں ، پیرامیڈیکل عملہ ، تکنیکی ماہرین ، الیکٹرونک ٹیکنیشن ، مصنوعی ذہانت کے ماہرین اور دیگر تکنیکی عملے کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ تکنیکی تعلیم کے شعبے میں تو مکمل اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ نظر اندازکیاگیا شعبہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً 1500 تکنیکی تربیت کے ادارے ہیں جن میں سے ایک ہزار سرکاری ادارے ہیں۔ سب سے پہلے توان میں سے ٪ 10اداروں کو جرمنی ، سویڈن ، آسٹریلیا اور چین کے تعاون سے اساتذہ کے تربیتی مراکز میں تبدیل کرکے ان کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی منظوری کے ساتھ تیار کردہ اچھے تربیت یافتہ اساتذہ کو پھر باقی 90اداروں میں بھرتی کرنا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم حالیہ برسوں میں بدحالی کا شکار ہے۔ ایسے بہت سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے صنعتی تحقیق کو فروغ دینے کے لئے 5ارب روپے کا رولنگ تحقیقی فنڈ جاری کرنےکی ضرورت ہے جس سےصنعتی مسائل کو حل کرنے اور صنعت کے ذریعے نئی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی اور اپنانے کے لئےجامعات مصروف عمل ہو سکتی ہیں۔ صنعت و جامعہ روابط کے لئے اس طرح کا پروگرام اس وقت شروع کیا گیا تھا جب میں چیئرمین HEC تھا لیکن یہ جاری نہیں رکھا گیا۔ ایک اور پروگرام جس کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے وہ ہے دانشورانہ املاک کا تحفظ۔ ہماری جامعات اور تحقیقی مراکز کے بین الاقوامی پیٹنٹ کے اخراجات کے لئے فنڈز مہیاکئے جائیں۔ فیکلٹی تقرریوں کا ٹینیور ٹریک نظام وقت کے ساتھ کمزور پڑگیا،کم ہو گیا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ کی شرح بہت کم ہو گئی ہے۔ اس کو بھی بی پی ایس سسٹم کے مقابلے میں 300فیصد زیادہ تنخواہوں کے ساتھ بحال کرنا ہوگا۔ اس نظام کے تحت غیر ملکی ماہرین کے ذریعے باقاعدہ پیداواری صلاحیتوں کی بنیادوں پر جائزہ لینے کے بعد تقرر کیا جاتا تھا۔ تمام نئے اساتذہ کی تقرری اسی نظام کے تحت کی جانی چاہئے اور پرانے بی پی ایس سسٹم کو مرحلہ وار ختم کیا جانا چاہئے کیوں کہ ٹینیور ٹریک سسٹم صرف اچھے معیار کی فیکلٹی برقرار رکھنے کو یقینی بناتا ہے۔ ہری پور ہزارہ میں پاک آسٹریا فاکہوکشولے کے ماڈل پر انجینئرنگ کی تعلیم کا معیاری تربیتی ادارہ اور اطلاقی انجینئرنگ کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جانا چاہئے جس میں آٹھ غیر ملکی انجینئرنگ جامعات نے شراکت پر اتفاق کیا ہے ، تین آسٹریا سے اور پانچ چین سے ہیں۔ یہ سب اور دیگر دوسرے اقدامات ، پاکستان کو ایک طاقتور علمی معیشت میں تبدیل کرنے میں معاون ثابت ہونگے۔جو کام کر ے سو آج ، کل کبھی نہیں آتا۔ جاگیردار طاقتیں قومی بجٹ کی منظوری کے دوران تعلیم کے نازک مسئلے کوکم ترجیح دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ اس دفعہ وزیر اعظم عمران خان کو قومی تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کو اولین ترجیح دیتے ہوئے آئندہ بجٹ میں اس کے لئے مناسب رقم مختص کرنا ہوگی اور علم دشمن طاقتوں کو سبوتاژ کرنا ہوگا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں