سوچا اور کام ہوگیا، مصنوعی دماغ تیاری کے مراحل میں

Monday / Jun 07 2021

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

تمام ممالک خواہ وہ ترقی یا فتہ ہوں یا ترقی پذیر سب ہی ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب برپا کررہے ہیں۔ اس ضمن میں اب تک کئی ممالک مصنوعی ہاتھ مصنوعی دماغ ،مختلف کام کرنے والے روبوٹس اور متعدد چیزیں متعارف کروا چکے ہیں۔اس سلسلے میں مزید پیش رفت ہورہی ہے ۔ان میںسے چند چیزوں کے بارے میں ذیل میں پیش ہے۔ سوچ کے ذریعے کنٹرول ہونے والے،مصنوعی ہاتھ اس وقت دنیا بھر کے ماہرین سوچ سے کنٹرول ہونے والےآلہ جات تیزی سے بنا رہے ہیں ۔اب ایک معذورافراد محض اپنی سوچ کے ذریعے وہیل چیئر اور کار چلا سکیں گے ۔ یہ مصنوعی ہاتھ Ryerson University کے طالب علموں نے تیار کیا ہے ۔یہ ہاتھ مکمل طور پر سوچ سے کنٹرول ہوتا ہے ۔اس کو compressed Air سے طاقت دی جاتی ہے اورا س کو بنانا بھی نسبتاً آسان ہے ، جس میں مشکل سرجری کی ضرورت نہیں ہوتی جو کہ عام طور پر خراب ہاتھ کو مصنوعی ہاتھ سے تبدیل کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔ اس ہاتھ کو استعمال کرنے والا شخص کھوپڑی پر پہنی ہوئی ٹوپی کے ذریعے اس مصنوعی ہاتھ کو ہدایات جاری کرتا ہے۔ اس ٹوپی میں سینسر لگے ہوتے ہیں جو کہ دماغ میں خون کی گردش میں ہونے والی تبدیل کا احساس کر لیتے ہیں اور اس کے بعد سوچ کے ذریعے احکامات منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ یہ سگنلز ہاتھ میں نصب مائیکرو پروسیسرز تک منتقل کیے جاتے ہیں ،جس میں اوپر ، نیچے یا دائیں بائیں جیسے سگنلز کے نمونے پہلے ہی سے ذخیرہ کر دیے جاتے ہیں۔ یہ مائیکرو پروسیرز دماغ سے آنے والے سگنلز کا موازنہ ذخیرہ کیے ہوئے اور آنے والے سگنلز سے ہم آہنگ احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔ روبوٹس کے ذریعے کچرے کی ری سائیکلنگ مغربی ممالک میں کاغذ ،کار بورڈ ،شیشہ ،پلاسٹک اور دھاتوں کو ری سائیکل کیا جا تا ہے ۔وہاں یہ کام گھریلو خواتین انجام دیتی ہیں ۔اب فن لینڈ کی کمپنی Zen Robotics نے ایسے روبوٹس بنائے ہیں جو کہ مختلف قسم کے سینسرزکی مدد سے یہ کام انجام دے سکیں گے ۔ روبوٹس کو ایک متحرک conveyor بیلٹ پر نصب کرکے اس پر کچرا رکھ دیا جائے گا ۔ یہ مختلف اشیاء کی جانچ کرکے ان کو مناسب بکس میں ڈال دیں گے۔ روبوٹس پر لگاحسی (Sensing) نظام، مختلف اقسام کے کیمرں، دھاتی Detectors اور دوسری اشیاء کے لیے مکمل شناختی نظام پر مشتمل ہے۔ جو کہ تاروں، شیشے کے بلب، ڈبوں، کپڑے کے ٹکڑوں اور دیگر چیزوں میں فرق کر سکیں گے۔ اوزون کی مدد سے کھانوں کے ضیاع کو کم کرنا ہر سال کاشت کیے گئے پھلوں اور سبزیوں کا 30 فی صد ان پر لگنے والی پھپھوند کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ ماضی میں غذائوں کو محفوظ کرنے کے لیے بے شمار طریقوں کا استعمال کیا جاتا تھا،جس میں مصنوعی کیڑے مار ادویات، خاص پیکنگ، اور پیکنگ سے پہلے کلوری نیشن اور برومینیشن کے عمل شامل ہیں۔ اب نیوکاسل یونیورسٹی کے Dr.Ian Singleton اور Plant Biologist Proff.Jerry Barnes نے دریافت کیا ہے کہ اگر ٹماٹر، خوبانی، انگور اور دوسرے پھلوں کو ایسے ماحول میں رکھ دیا جائے جہاں اوزون کی قلیل سی مقدار ہو تو ان کے گلنے سڑنے کی رفتار کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کے ذریعے سبزیوں اور پھلوں کے سڑنے کی رفتار کو 95 فی صد تک کم کیا جا سکتا ہے جو کہ اوزون کے بغیر زیادہ سے زیادہ مدت 8 دن ہے، ٹماٹروں کو جب اوزون میں رکھا جاتا ہے تو اس کے اندر پھپھوند کے حملہ کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ جب انہیں اوزون سے باہر نکالا جاتا ہے تو ان کے بعد کچھ اس میں ویکسین کے عمل کی ہم سریادداشت پروان چڑھتی ہے جو کہ سڑنے سے مزاحمت کا باعث بنتی ہے۔ مصنوعی دماغ، تیاری کے مراحل میں انسانی جسم کا سب سے حیرت انگیز حصہ دماغ ہے۔ دماغ میں تقریباً 100 بلین نیورون ہوتے ہیں۔ یہ برقی طور پر متحرک ہونے والے عصبی خلیے برقی اور کیمیائی عمل کے ذریعے اطلاعات منتقل کرسکتے ہیں۔دماغ میں موجود 100بلین عصبیے دوسرے عصبیوں (نیورونز) سے 7000کنکشنز کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں (Synapses) ایک بالغ دماغ کے اندر 100سے 500 ٹریلین اس طرح کے کنکشن پائے جاتے ہیں جو دماغ کے مختلف افعال کی انجام دہی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مصنوعی دماغ کی تیاری میں مصنوعی کنکشن کی اہمیت کلیدی ہے۔ شمالی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے پروفیسر Alice Parker اور Chongwu Zhou کاربن نینو ٹیوب کو Synapses سرکٹ کا کام انجام دینے کے قابل بنانے میں کامیاب ہو ئے ہیں۔ یہ سرکٹ ایک ساتھ لگے ہوئے نینو ٹیوب سے بنایا گیا جو کہ بالکل انسانی Synapses کے مشابہ ہے۔ اس میں داخل کی جانے والی موجی شکل (Input Wave form) اور اس سے باہر آنے والا سگنل حقیقی عصبیوں سے تشکیل پانے والے حیاتیاتی موجی شکل Wave Form جیسی ہے۔ مصنوعی دماغ کو تجربہ گاہ کے اندر تیار کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوں گی ،تاہم اس حوالے سے اہم ترین پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے، یہ دریافت خطرناک دماغی چوٹوں کا شکار افراد کے علاج کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ سمندری پانی سے بیٹری چارج اسٹین فورڈکے سائنس دانوںنے ایک نئی بیٹری تیار کی ہے ،جو کہ میٹھے اور نمکین پانی کے درمیان فرق سے چارج کی جاتی ہیں۔ ان بیٹریوں میں نئے قسم کے الیکٹروڈز استعمال کیے گئے ہیں جو کہ میگنیز ڈائی آکسائیڈ اور سلور کی بنی ہوئی نینو ایکسل سلاخ سے بنائی گئی ہے یہ surface Area میں کئی سو گنا اضافہ کر دیتی ہے۔ ان الیکٹروڈز کو تازہ اور نمکین پانی میں بالترتیب ڈبویا جاتا ہے، تا کہ ان میں برقی طاقت پیدا ہو سکے۔ اس طریقہ کار میں پہلے بیٹری کو نمکین یا میٹھے پانی میں چارج کیا جاتا ہے اور پھر تازہ پانی کو نمکین پانی سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس سے آئن کی تعداد میں 100گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چناں چہ بیٹری زیادہ بڑے وولٹیج کے ساتھ ڈسچارج ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ بعدازاں یہ چکر دہرایا جاتا ہے ۔یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس قسم کے پاور پلانٹ کو ایسے مقام پر لگایا جائے جہاں دریا اور سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ اگر 50مکعب میٹر فی سیکنڈ تازہ پانی اس میں سے گزرے تو 100 میگا واٹ بجلی تیار کی جا سکتی ہے جو کہ ایک لاکھ گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔سمندری پانی سے بجلی بنانے کے منصوبے پر ایک مختلف اصول، اوسموسز کی بنیاد پر ابتدائی کام ناروے کی کمپنی نے شروع کردیا ہے۔ اوسموسز کا اصول اس حقیقت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے کہ ایک نیم نفوذ پذیر جھلی جس کے ایک طرف نمکین پانی ہوتا ہے اور دوسری طرف تازہ پانی ، یہ جھلی یک طرفہ والو کے طور پر کام کرتی ہے اور اس کے ذریعے صرف تازہ پانی والے حصہ کا پانی نمکین پانی کی جانب جا سکتا ہے۔ اس عمل میں نمکین پانی والے حصے میں دبائو بڑھ جاتا ہےا ور اس دبائو کو ٹربائن چلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔سمندر کے پانی کا صاف ستھری قابل بازیافت توانائی کے حصول کے لیے استعمال مستقبل میں بہت اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔ ایک پہیے والی سائیکل اس جدید دور میں ایک پہیے والی سائیکل تیار کی گئی ہے ،جس کو’’ مونوسائیکل ‘‘کا نام دیا گیا ہے ۔یہ سائیکل دواہم خصوصیات کی حامل ہے ۔ ایک یہ کہ اس میں پیڈل نہیں ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ توازن خود ہی قائم رکھتی ہے۔ اس سائیکل میں کئی سینسرز، گائروزgyros اور ایک ایکسلرومیٹر (acceterometer) لگا ہے جو توازن کو قائم رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی ایک hub-mounted موٹر نصب ہے جو اس مونو سائیکل کو آگے کی جانب چلاتی ہے۔ آپ کو صرف یہ کرنا ہو گا کہ جب سائیکل کو آگے کی طرف چلانا ہے تو آگے کی طرف جھک جائیں اور بریک لگانے کے لیے پیچھے کی جانب جھک جائیں، سینسر آپ کے جسم کی حرکت کو شناخت کر کے اس کو موٹر کی طرف بھیج دیں گے۔ آپ زمین پر اپنے پیر رکھ کر بھی اس کو روک سکتے ہیں۔ اس کی موٹر ری چارج ہونے والی لتیئھم بیٹری سے چلتی ہے جو کہ 16 km/h کی رفتار اور ایک دفعہ چارج ہونے پر 20کلومیٹر تک چلنے کی صلاحیت کی حامل ہے۔ آپ اس کو لپیٹ کر آسانی سے اپنی گاڑی میں بھی رکھ کر سکتے ہیں ۔ خود درست ہو جانے والا،اسمارٹ بستر اسپین کی فرنیچر کمپنی OHEA نے ایک ایسا بستر متعارف کروایا ہے جس کو ’’اسمارٹ بیڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جیسے ہی آپ بستر سےاُٹھے گےیہ فوری طور پر چادر کو درست کردے گا اور تکیوںکو ان کے مقام پر رکھ دے گا ۔اس میں سرہانے Head board ایک تار کے ذریعے ایک میکنزم کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ چادر بستر کے پایوں سے کپڑے کے ہک (velcro) اور تاروں پر چپکی ہوتی ہے اور اس کو کناروں سے سی دیا جاتا ہے۔ بستر میں وزن کی حس رکھنے والے سینسر لگے ہوتے ہیںجن کو اس بات کا فوراً احساس ہو جاتا ہے کہ آپ بستر میں نہیں ہیں جیسے ہی آپ بستر سے اُٹھتے ہیں سرہانے کے اوپر لگا ہوا میکنزم چادر کو کھینچ کر سیدھا کر دیتا ہے۔ روبوٹک ہاتھ بستر سے شکنیں صاف کر دیتے ہیں اور اس کے بعد تکیہ نیچے کر دی جاتی ہے۔ تصویر لینے کے بعد فوکس کو درست کرنا اکثر تصویر کھینچے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کا فوکس درست نہیں تھا، جس کی وجہ سے لی جانے والی تصویر کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔ اب کیمرا ٹیکنالوجی میں ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی ہے ۔ اب آپ تصویر کھینچنے کے بعد فوکس کو درست کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے آپ تصویر کے فوکس میں درمیان یا پیچھے موجود اشیاء کے فوکس کو دوباردرست کر سکتے ہیں۔ آپ تصویر کو آسانی سےاس طرح ایڈجسٹ کر سکتے ہیں کہ یہ اچھے فوکس کے ساتھ نظر آئے۔ ایک ہی شاٹ کے ذریعے 2D یا 3D تصویریں لینا ممکن ہے اس کے ساتھ کم روشنی میں بھی تصویر لی جا سکتی ہے۔ عام ڈیجیٹل کیمروں میں روشنی کی شعاعوں کو جمع کر کے ایک خاص مقدار کی روشنی حاصل کر لی جاتی ہے۔ نیا Light Field کیمرہ روشنی کی شعاعوں کے رنگ، شدت اور ویکٹر پوزیشن کو علیحدہ علیحدہ ریکارڈ کرتا ہے اور پھر اس ڈیٹا کو کمرے میں موجود سوفٹ ویئر کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں