وطن ِعزیز اور سائنسی انقلاب

Monday / Dec 20 2021

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

موثر حکومتی پالیسیاں عوام کی تقدیر بدلنےمیں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں جو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ میرا اشارہ ان تین ٹاسک فورسوں کی جانب ہے جو ملک و بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مایہ نا ز اور مخصوص شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہیں‘ جن کے اقدامات اب ملک کی ترقی میں تیزی کاباعث بنے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خاموش انقلاب رونما ہو رہا ہے تو بجا ہوگا۔ایک علمی معیشت ٹاسک فورس ہے جس کے وزیر اعظم عمران خان چیئر مین ہیں اور میں نائب چیئر مین ہوں ۔دوسری ٹاسک فورس برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہے جس کامیں چیئر مین ہوں اور تیسری آئی ٹی کی ٹاسک فورس ہے جس کا میں کو- چیئرمین ہوں۔ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک جیسے ملائیشیا، سعودی عرب، سنگاپور اور چین اس وقت اعلیٰ تعلیم میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی وزارت منصوبہ بندی نے یہ اندازہ کر لیا ہے کہ معیاری و اعلیٰ تعلیم ایک مضبوط علمی معیشت کی ترقی کیلئے انتہائی اہم ہیں ۔ سنگاپورکی حکومت نے تعلیم اور سائنس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں اس کی فی کس آمدنی آج برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔سنگاپور نیشنل جامعہ کا سالانہ بجٹ تقریباً400 ارب روپے ہے۔ یہ جامعہ دنیا کی 30اعلیٰ جامعات میں شامل ہے ،یہ بجٹ ہماری حکومت کی جانب سے سرکاری جامعات کی اوسط گرانٹ سے تقریبا 800گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح ملا ئشیا میں صرف جامعہ ملایا کا بجٹ تقریبا 50ارب روپے سالانہ ہے ، جو پاکستان میں سرکاری جامعات کو دی جانے والی اوسط سرکاری گرانٹ سے 100گنا زیادہ ہے۔پاکستان میں ایک دہائی سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل ذکر تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ یہ نالج اکانومی ٹاسک فورس کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔ ٹیکنالوجی کے ابھرتے ہوئے شعبوں مثلاً جدید زراعت، مصنوعی ذہانت، سائبر سیکورٹی، مائیکرو الیکٹرانکس،نینو ٹیکنالوجی،نیا مواد، تجدیدی طب وغیرہ سے متعلق منتخب منصوبوں کی ایک بڑی تعداد شروع کی گئی ہے ۔جس کے نتیجے میں گزشتہ دو سال میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کےترقیاتی بجٹ میں 600فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس شاندار پروگرام کی ایک روشن مثال پاک آسٹرین جامعہ برائے اطلاقی سائنس و انجینئرنگ کا قیام ہے جو تقریباً 2.5سال کے مختصر وقت میں ہری پور ، ہزارہ میں قائم کی گئی ہے۔ میری کوششوں اور وزیراعظم عمران خان کے مکمل تعاون اورحکومت کی مالی اعانت سے بننے والی یہ دنیا کی پہلی ایسی جامعہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہے ‘جو 8غیر ملکی انجینئرنگ جامعات( تین آسٹریا اور پانچ چین ) کے اشتراک سے قائم ہوئی ہے جہاں ذہین طلبا کودہری ڈگریاں ان 8 غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کی جانب سے دی جا ئیں گی جو اس جامعہ کے اعلیٰ معیار کی ضمانت ہیں۔اسکے علاوہ یہ دنیا کی پہلی ہائبرڈ جامعہ ہے جو3اہم کام کرے گی ۔ پہلا کام کہ آسٹریا کے دو معروف ٹیکنیکل اداروں کے تعاون سے بیچلرزاور ماسٹرز کی سطح پر ٹیکنالوجی کی تعلیم فراہم کرنا ہے۔ دوسرا کام پوسٹ گریجویٹ تحقیقی پروگرامزہیں جو 5چینی اور ایک آسٹرین کی جامعہ کے تعاون سے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، تیز رفتار ریلوے انجینئرنگ،جدید زراعت،مائیکرو برقیات وغیرہ میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری جاری کرنا ۔ اور سب سے اہم کام ٹیکنالوجی پارک کا قیام ہے جہاں جدت طرازی اور تحقیقی صلاحیتوں کےفروغ پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے ایک متحرک جدت طرازی فنڈ اور صنعتی مصنوعات کی ترقی کیلئے بڑے پروگرام تشکیل دینا شامل ہیں ۔ اس جامعہ کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ روایتی تعلیم اور بنیادی تحقیق تک محدود نہ رہا جائے بلکہ اطلاقی عنصر اس قدر مضبوط ہو کہ جدت طرازی اور تحقیق کے فروغ میں خطے میں سرفہرست ہو اور یہی خوبی اس جامعہ کو دیگر جامعات سے ممتازکرتی ہے۔ گزشتہ سال وزیر اعظم کی طرف سے ہری پور میں اس شاندار جامعہ کے افتتاح کے بعد ہم نے اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کے پیچھے زمینوں میں اور سیالکوٹ، سمبڑیال میں بھی دو دوسری غیر ملکی جامعات قائم کرنے پر کام شروع کر د یا ہے۔ ان جامعات کے لئے بھی چین ، آسٹریا اور برطانیہ کی اچھی جامعات کو تعاون کے لئے تیار کیا گیا ہے ، اور توقع ہے کہ جلد ہی اس سلسلے میں مفاہمت کے معاہدوں پر دستخط کئے جائیں گے۔میں نے صدر مشرف کے دور میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی اور پھر پہلے چیئرمین ایچ ای سی کی حیثیت سے جو اصلاحات شروع کی تھیں ان کا اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے معیار پر کافی اچھا اثر پڑا۔ اعلی تعلیم کی ترقی کے لئے شروع کئے گئے میرے پروگراموں کو اقوام متحدہ کے اداروں کے ساتھ ساتھ عالمی بینک ، یو ایس ایڈ اور دیگر غیر جانبدار بین الاقوامی ایجنسیوں اور ماہرین نے بھی کافی سراہا ۔ایچ ای سی کاعملیاتی بجٹ گزشتہ 4برس سے تقریباً 65 ارب روپے سالانہ پرمنجمد تھا۔ تین الگ الگ ملاقاتوں میں یہ سنجیدہ مسئلہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے علم میں لایا گیا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہوں کہ میری درخواست قبول کر لی گئی اور وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں 15ارب کی اضافی رقم کا اعلان کیا جس سے جامعات کو بہت زیادہ تشفی ملی۔ جب میں 2003میں ایچ ای سی کا چیئرمین تھااسوقت فیکلٹی کی تقرریوں کا ایک تعیناتی نظام ہمارے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا جس میں باقاعدہ بین الاقوامی تشخیص شامل تھی ۔یہ نظام گزرتے سالوں کےساتھ ماند پڑتا جارہا تھا۔ میں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسے بحال کرے اور یہ مسئلہ وزیر اعظم کے سامنے پیش کیا۔ اس کوشش کے نتیجے میں اس نظام کے تحت تمام ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبران کی تنخواہوں میں کم از کم 35 فیصد اور زیادہ سے زیادہ 100 فیصد اضافہ کیا گیا ۔اس نظام کے تحت ذہین طلبا ء کو تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی ملی اور ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانی ذہین ماہرین تعلیم کو بھی پاکستان واپس آنے اور ملک میں اعلیٰ تعلیمی نظام کی ترقی میں کردار ادا کرنے کا موقع بھی ملا ۔ایک اور پروجیکٹ جو ہماری علمی معیشت ٹاسک فورس نے شروع کیا ہے اس میں ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتر کارکردگی اور شفافیت لانا شامل ہے۔ جدید مصنوعی ذہانت پروٹوکول کے ساتھ نادرا کے ریکارڈ کا استعمال کیاگیا، اس کوشش کےنتیجے میں کل اعلان شدہ اثاثے تیزی سے تین کھرب روپے تک پہنچ گئے اور اضافی ٹیکس 65ارب روپے بھی ادا کیا گیا۔ 90ہزارسے زائد ٹیکس نادہندگان ، ٹیکس دہندگان بن گئے ۔ اب اس میں مزید توسیع کی جا رہی ہے۔پاکستان کو ایک مضبوط علمی معیشت میں منتقل کرنے میں مدد کیلئے نالج اکانومی ٹاسک فورس کی طرف سے فروغ پانے والے قومی منصوبوں کے ذریعے ایک خاموش انقلاب رونما ہو رہا ہے۔ اسےبرقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نےآج جو بویا ہے اس کا پھل آنے والی نسلیں کھا سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں