شعبہ طب میں اہم پیش رفت

Saturday / Jul 08 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

زمانہ قدیم سے انسان ہمیشہ جوان رہنے اور طویل عمر کے راز کی تلاش میں ہے۔ اس کا جواب غالباًچوہوں کی لمبی صحت مند زندگی سے مل سکتا ہے۔ بڑھاپے کی وجہ دراصل آکسیجن کی ایک فعال شکل سے شروع ہونے والا تکسیدی تعامل ہے۔ آکسیجن ریڈیکل ہمارے ڈی این اےاور اہم پروٹین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمارے جسم میں ایک خاص تلاش اور مرمت کا نظام ہوتا ہے مگر ہم جیسے جیسے بوڑھے ہوتے جاتے ہیں یہ نظام کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اور تکسید شدہ مواد نہیں ملتے اورفرار ہو جاتے ہیں ۔ ابتدا زمانہ سے ٹوٹ پھوٹ کا عمل وقت کے ساتھ ہمارے حیاتیاتی نظام کا حصہ بنتا جاتا ہے اور یہ بڑھاپے کی شکل میںنمودارہوتاہے۔پروفسیر بُفن اسٹائین اور ان کے ساتھی جو کہ جامعہ ٹیکساس کے ہیلتھ سائنس سینٹر، سان انتونیو میں کام کرتے ہیں نے تحقیق کی ہے کہ چوہے دوسرے کترنے والے جانوروںکے مقابلے میں تیس سال زیادہ کیوں زندہ رہتے ہیں۔ جبکہ چوہوں ہی کی ایک اور قسم کی اوسط عمر ان سے دس گنا زیادہ ہے ۔ انسانوں کے لحاظ سے یہ700 سال کی زندگی کے برابر ہے۔ مذکورہ سائنس دانوں نے یہ دریافت کیا کہ Mole Rats کے جسم میں تکسیدی عمل سے ہونے والا نقصان بہت کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم میں تلاش اور مرمت کا عمل بہت فعال ہوتاہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک دن ہم طویل عمر اور جوانی کے لئے Mole Rats کے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہم کو اس حوالے سے اہم معلومات فراہم کیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ کیڑوں، مکھیوں اور چوہوں کی کم خوراک ان کی زندگی بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ اب امریکہ میں جامعہ وسکونسن میڈی سن کے Richard Weindruchاور ان کے ساتھیوں نے بتایا ہے کہ جب بندروں کو کم کیلوری والی غذا دی گئی (کنٹرول گروپ کے مقابلے میں 30 فیصد کم کیلوریز) اور ان کی زندگی کے دورانئے کا جائزہ لیا گیا تو ان میں زیادہ طویل زندگی کا رجحان عام غذا کھانے والے بندروں کے مقابلے میں زیادہ پایا گیا۔ یہ تجربہ76 بندروںپر کیا گیا اور ان کا مشاہدہ بیس سال تک کیا گیا،کم کیلوریز والی غذا استعمال کرنے والے بندروں کی 37فیصد تعداد جائزےکے اختتام تک زندہ رہی جب کہ عام غذا استعمال کرنے والے بندروں کی صرف 13فیصد تعداد اس عرصے تک زندہ رہی۔ یہ بات ہمیشہ سے معلوم رہی ہے کہ بعض جانوروں مثلا نیماٹوڈ،کیڑوں، پھلوں کی مکھیوں اور چوہوں میں طویل زندگی کی وجہ کم کھانا ہے۔ چوہوں کی خوراک میں سے حراروں کی تعداد 50-30فیصد کم کر دی جائے تو ان کی زندگی کے دورانیہ میں 50 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ بندروں کی بعض اقسام پر20 سال سے تحقیق کی جارہی ہے جس کے اب تک حاصل ہونے والے نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ حراروں کی تعداد کو پابند کر کے عمر کے دورانیہ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ایک بین الاقوامی تنظیم جس کے ممبران کی تعداد3000ہو چکی ہے جن کوCRONiesکہا جاتا ہے یہ لوگ پابند کیلوریز پر مشتمل غذا (عام تجویز کردہ حراروں سے 10 سے 30 فیصد کم) استعمال کرتے ہیں جو کہ زیادہ تر سبزیوں اور متوازن غذا پر مشتمل ہوتی ہے اس کے صحت کے حوالے سے فوائد واضح طور پر سامنے آرہے ہیں۔ جامعہ واشنگٹن کے پروفیسر Luigiاور اطالوی قومی ادارہ برائے صحت صحت اور غذائیت کے شعبہ کے سربراہ ، فونٹانا کے مطابق اس سوسائٹی کے ارکان کا دل ایک عام امریکی کے دل کے مقابلے میں 15فیصد زیادہ جوان ہے۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ انسولین کی نشوونما کے عوامل بعض جانوروں میں بڑھاپے کے عمل کا سبب بنتے ہیں۔ ایک اور مالیکیول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بڑھاپے کے عمل میں شریک ہے اور کئی جانوروں پر کئے گئےمطالعہ سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے کام میں مداخلت کر کے بڑھاپے کے عمل کو روکا جا سکتا ہے۔ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ کم امائنو ایسڈ والی خاص طور پر تیار کردہ غذا استعمال کرنے سے زندگی کے دورانئے کو بڑھانے کے لئے کم حراروں والی خصوصی غذا کی ضرورت نہیں رہتی۔ لہٰذا مندرجہ بالا تحقیقی نتائج سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب تک اس حوالے سے کوئی اچھی دوا بازار میں نہیں آجاتی آپ طویل صحت مند زندگی کے لئے کم حراروں والی غذا جو کہ سبزیوں پر مشتمل ہو استعمال کریں اور اس کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کریں۔ اس وقت دنیا بھر میں بڑھتی عمر کے خلاف کام کرنے والی دواؤں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ صرف امریکہ میں ان ادویات کی فروخت 50ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ان مصنوعات میں جھریوں کو کم کرنے والی کریم ، ہارمون کی تبدیلی، حیاتین یا نباتاتی تراکیب اور غذائی اجزا وغیرہ شامل ہیں۔ اگر چہ ان میں سے اکثر کو ان کے مثبت نتائج کے حوالے سے اچھی طرح جانچ لیا گیا ہے مگر طب سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور ڈاکٹر ان کے استعمال پر ہمیشہ تنقید کرتے ہیں، اس کی وجہ ان کی مارکیٹ اور ان اداروں کی جانب سے حاصل ہو نے والا بے حد منافع ہے۔ نسیان دوبارہ جوان بنانے، اعضا کی تبدیلی اور علاجیاتی جینیاتی علاج کے میدان میں اسٹیم سیل تحقیق سے اچھی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں ۔ انسانوں کی عمرکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کروموسوم کے آخری سرے پر DNA کے حصے میں ہوتی ہے اس کو ٹیلو میر کہا جاتاہے۔ جیسے جیسے زندگی کے دوران خلیات مسلسل تقسیم ہوتے ہیں ٹیلو میر چھوٹے ہوتے جاتے ہیں اور اس طرح ہماری زندگی کے رہ جانے والے سال کم سے کم تر ہوتے جاتےہیں ۔یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ خلیات جواس ٹیلومیرکے چھوٹے ہونے کے تجربے سے نہیں گزرتے لامتناہی عرصے تک تقسیم کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر سائنس کسی طرح سے ان کے انحطاط کوروکنے کے لئے کوئی طریقہ دریافت کر لے تو ہم بڑھاپے کے عمل کو سست بلکہ الٹ بھی سکتے ہیں۔ سیئیرا سائینسز میں کام کرنے والے محققین نےیہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ایک قدرتی مرکب دریافت کیا ہے جس کا خفیہ نام،TA-65ہے ۔ اس مرکب میں انزائم فعال کرنے کی شاندارصلاحیت موجود ہے۔ یہ مرکب ٹیلو میرز کو فعال کرنے والے پہلے مادے کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ انسانی استعمال کے لئے محفوظ ہے۔ اس مادےکے ذریعے انسان کی زندگی کے دورانیے کو 125سال یا اس سے زائد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق 7ستمبر 2010 میں Journal Rejuvenation Research میں شائع ہوئی۔ ادویات کے میدان میں ایک نیا ابھرتا ہوا میدان اسٹیم سیل کا استعمال ہے جو کہ نقصان کا شکار اعضا کی مرمت کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ انسانوں میں استعمال کئے جانے والے اسٹیم سیل کی دو اقسام ہیں۔ جنینی اسٹیم سیل اور بالغ اسٹیم سیل۔ اسٹیم سیل دوسرے خلیات کے ساتھ مل کر جسم میں ٹوٹی ہوئی بافتوں کی مرمت کا کام کرتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر جسم کے مختلف دوسرے خلیات میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے ان خلیات کو کلچر کے ذریعے نمو کر کے ان کو مختلف دوسرے خلیات مثلا اعصابی، جلدی، یا آنتوں کے خلیات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیم سیل کے حوالے سے ایک حالیہ پیش رفت میں یہ معلوم ہوا ہے کہ مختلف دواؤں کے استعمال سے ہڈی کے گودے سے مختلف اقسام کے اسٹیم سیل کے اخراج کے عمل کے ذریعے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ مریض کے لئے مختلف عطیہ دہندگان سے حاصل کردہ اسٹیم سیل (اس صورت میں مریض کا جسم وہ اسٹیم سیل قبول کرنے سے انکار بھی کر سکتا ہے) استعمال کرنے کے بجائے مریض کا اپنا اسٹیم سیل اس کے ہڈی کے گودے سے خارج کروادیا جائے تواس کے ذریعے مخصوص بافتوں کی مرمت اور پیدائش نو میں بھی کافی مدد مل سکتی ہے۔ مریض کے اپنے اسٹیم سیل کو منتخب انداز سے خارج کرنے کی صلاحیت اس تیزی سے ترقی پذیر شعبےکے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ یہ کام امیپریل کالج لندن کی پروفیسر سارا رینکن اور ان کے ساتھیوں نے انجام دیا۔ اس پیش رفت سے دل کی ٹوٹی پھوٹی بافتوں کی مرمت، اور ٹوٹی ہوئی ہڈیوں اور جوڑوں کی مرمت کے عمل کو تیز کرنے اور ان کے علاج میں مدد مل سکے گی۔ ہر سال لاکھوں افراد کے دل کی شریانوں میں ایک باریک سا دھاتی ٹیوب لگایا جاتا ہے تاکہ ان کی شریانوں کو کھول کر دل کی بافتوں میں خون کی مسلسل فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔ تاہم چند ماہ بعد اس ٹیوب کی وجہ سے دل کی نالیاں سخت ہونے لگتی ہیں اور مختلف مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یہ دھات ایکس رے اور MRI اسکین میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے۔ اور کبھی کبھار نالیوں میں خون جمنے بننے کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایک ادارے نے حال ہی میں حیاتیاتی محلل مواد سے اسٹنٹ تیار کی ہے جو دو سال کے عرصے میں تحلیل ہو جاتی ہے جب کہ دل کی نالیوں کی اصل شکل برقرار رہتی ہے۔ اب کچھ ہی عرصے بعد مریض خود انتخاب کرسکیں گے کہ وہ مستقل رہنے والا دھاتی اسٹنٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں یا وقت کے ساتھ تحلیل ہونے والااسٹنٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں