برقی موٹر گاڑیاں اورجنگ کے بادل

Saturday / Jun 24 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ ایک ماہ میں دو اہم پیش رفت ہوئی ہیں جو قابل توجہ ہیں۔ ٹیسلا( Tesla) کےبرقی موٹرگاڑی ساز ادارے نے امریکی موٹر گاڑیوں کی سب سے بڑی کمپنی فورڈ (Ford) کی، مارکیٹ قیمت پرسبقت حاصل کر کےتاریخ رقم کی ہے۔ ٹیسلا کے حصص 2003 ء میں قائم ہوئے تھے اور تب سے بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ابتداء میں 42 ٪سے بڑھ کر اب 300 ٪ سے زائد فی حصص ہوگئے ہیں۔ جبکہ کمپنی کی موجودہ قیمت 53 ارب ڈالر ہوگئی۔جامعہ اسٹین فورڈ کے ماہر اقتصادیات ٹونی شبا کے مطابق " ٹیسلا کے"S " ماڈل کےصرف18 پرزے حرکت کرتے ہیں جو کہ عا م ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں تقریباًسو گنا کم ہیں جن میں عموماً 2000 پرزےحرکت کرتے ہیں اور ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی مرمت پربھی کافی خرچ آتاہے۔ ٹیسلا لامحدودفاصلے طے کرنے کی گارنٹی پیش کر رہاہے.یعنی آپ چاند تک کےفا صلہ کےبرابرکاسفرکرسکتےہیں اوراگرکوئی خرابی ہوئی توکمپنی اُسکےاخراجات لامحدودگارنٹی کےتحت ادا کریگی ۔ پروفیسر شبا نے یہ بھی پیشں گوئی کی ہے کہ اب وقت قر یب آگیا ہےکہ عالمی آبادی کی بھاری تعداد یہ از خود چلنے والی برقی گاڑیاں استعمال کریں گے جو کہ ایندھن والی گاڑیوں کے مقابلے میں دس گنا سستی بھی ہونگی اورکمپیوٹرکےذریعے چلیں گی۔ ان کو چلانے کیلئے کسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں ہوگی ان موٹر گاڑیوں کی مرمت پر بھی بہت ہی کم لاگت آئیگی اور ان کی متوقع فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت دس لاکھ میل (1.6 ملین کلومیٹر) ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر یہ پیشں گوئی بھی کی گئی ہے کہ اگلے آٹھ سال میں دنیا میں کہیں بھی کوئی نئی پٹرول یا ڈیزل کی موٹر گاڑیاں، بسیں، یا ٹرک فروخت نہیں کئے جائیں گے۔ پورے خطے کا نظام نقل و حمل برقی گاڑیوں پر منتقل ہو جائیگا نتیجتاً تیل کی قیمتوں میں شدید کمی پیٹرولیم کی صنعت کی تبا ہی کا باعث بنے گی ۔ساتھ ہی موٹر گاڑیاں اوربسیں بنانے کی وہ صنعتیں تباہ ہو جائیں گی جنہوں نے اس جدید صنعتی انقلاب کو ااختیار کرنے میں دیر کی ۔خام تیل کی قیمت 25 ڈالر فی بیرل سے بھی کم ہوجائے گی. پٹرول اسٹیشنوں کو تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا اور لوگ ا پنی گاڑیوں کے مقابلے میں کرائے کی گاڑیوںپرسفر کرنے کو ترجیح دیں گے۔. موٹرگاڑیاں بنیادی طور پر "بھاگتےہوئے کمپیوٹر" بن جائیں گی ۔ اسقدر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیا ں موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کی بقا کیلئے خطرہ بن رہی ہیں کیونکہ انہیں اب اس کمپنی کے مقابلے میں برقی گاڑیاں تیار کرنے پر توجہ دینی پڑےگی۔ پروفیسر شبا کی رپورٹ نے بین الاقوامی موٹر گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں اور تیل پیداواری ممالک میں شدید بے چینی کو جنم دیا ہے۔اس طرح تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک دوبارہ غربت کے اندھیروں میں ڈوب جائیں گے جیسےوہ 1950 تک گھرے ہوئے تھے ۔ افسوس کہ وہ تاریخ سے سبق لینے میں بالکل ناکام ہیں۔ بجائے اس کے کہ کوریا، فن لینڈ اور د یگر ممالک کی طرح مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم کرتے ، انہوں نےاپنی تمام دولت آرام و آسائش یا مغر ب سےحاصل شدہ ہتھیاروں کوخریدنے میں لٹا دی ہے۔ اسی دوڑ کی اہم ترین پیش رفت نئی قسم کی بیٹری ٹیکنالوجی ہے جس کی بدولت گاڑیاںطویل فاصلے طے کر سکتی ہیں او ر بیٹری کو با ر بار چارج نہیں کرنا پڑتا۔ گزشتہ ہفتے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اب بیٹریوں کو دو منٹ میں چارج کیا جاسکتا ہے ۔ یہ بیٹری کے اندر کا الیکٹرو لائٹ فوری طور پر تبدیل کرکے کیا جاتا ہے۔یعنی آئندہ پیٹرول اسٹیشن کی جگہ ایسے بیٹری اسٹیشن قائم ہو جائینگے جہاں پیٹرول ڈلوانے کے بجائے آپ بیٹری کے پانی کو تبدیل کیا کریں گے ان کو ’فلو بیٹریز‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ جامعہ پرڈیوکے پروفیسر نے ایجاد کیا ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کا تقریبا 40 فیصد بیٹریوں پر مشتمل ہے لہٰذا اب کم قیمت اور زیادہ طاقتور بیٹریاں بنانے پر زور دیا جا رہاہے۔بین الاقوامی اطلاعات کے مطابق ان بیٹر یو ں سےبجلی کی پیداوار فی کلو واٹ گھنٹے کی قیمت 2012 میں 542 ڈالرسے کم ہوکر اب صرف 139 ڈالر ہو گئی ہے اور 2020تک 100ڈالر فی کلو واٹ گھنٹہ تک پہنچنےکی امید ہے۔ برقی موٹرگاڑیاں پیٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کی حامل ہوتی ہیں جو سینکڑوںکلومیٹر کا فاصلہ منٹوں میں طے کرسکتی ہیں اور بیٹری ایک ہی چارج میں تقریبا 350 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے ۔ برقی موٹر گاڑیوں کی قیمتیں کا فی تیزی سے کم ہو رہی ہیں۔ پروفیسر شبا کے مطابق’ نقطہ فراز‘ دو سے تین سال کے اندر اندر پہنچ جائے گا جب EV بیٹری کی حدود 200 میل سے اوپر ہو جائیگی اور برقی موٹر گاڑیوں کی قیمت کم ہو کر 30,000امریکی ڈالر رہ جائیگی ۔ 2022 تک سب سے کم قیمت برقی موٹر گاڑی کی قیمت 20,000امریکی ڈالر تک ہو جائیگی ۔اس کے بعد پیٹرول کی گا ڑیا ں جلد ہی نا پید ہو جائیں گی۔پروفیسر شبا کی ایک اور پیشں گو ئی کے مطا بق 2025 تک تمام نئی چار پہیوں پر چلتی گاڑیاں عالمی سطح پر بجلی سے چلیں گی چین اور بھارت جدت کی اس نئی لہر کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ بھارت کا منصوبہ ہے کہ 2032 تک تمام پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کر دی جائیں۔ بھارت میں فوسل تیل سےچلنے والی گاڑیو ں اور تمام پٹرول اور ڈیزل کاروں پر مرحلہ وار پابندی عائد کرنے کا عمل تیز کیا جارہا ہے۔ چین2025 تک 70 لاکھ برقی گاڑیوں کی سالانہ پیدا وارکا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس وقت ہم تاریخ کے اس باب کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو جدت طرازی کی بہت بڑی تاریخی مثال ثابت ہوگاکہ کس طرح جدت طرازی کے ذریعے موٹر گاڑیوں کی صنعت اور پیٹرولیم صنعتوں پر زوال آیا او ر کس طرح بہت سی قومی معیشتیں تباہ ہوئیں۔ایک اور اہم سیاسی پیش رفت 20 مئی کو رونما ہوئی جب امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک اسلحے کے سودے پر دستخط ہوئے جس کے تحت امریکہ 110 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدے گا جس کے بعد اگلے دس سالوں کیلئے 350ارب ڈالر کی مالیت کا اسلحہ مزیدخریدسکےگا۔ یہ ایک خطیر رقم ( 350 ارب ڈالر ) امریکہ کے پاس چلی جائے گی جس سے امریکی حکومت امریکہ میں اسلحے کی فیکٹریوں میں ہزار وں نئی ملازمتیں تخلیق کریگا اور اسلحے تیا ر کریگا جو مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئےاستعمال کیا جائے گا ۔ اگر یہی 350 ارب ڈالر عالمی معیار کےتحقیقی مراکز اور اعلی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی صنعتیں قائم کرنے کیلئے خرچ کئے جا تے تو اس طرح کے اخراجات قابل فہم ہوتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کبھی بھی ہتھیاروں سے نہیں لڑی جا سکتی ۔ اس سے لڑا جاسکتا ہے تعلیم سے، نوجوانوں کے لئےروزگار کی تخلیق سےاور گہری محرومی و انتشار کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات کو حل کرنے سے ۔مثال کے طور پر فلسطینی زمین پر اسرائیلی قبضے کےبنیادی مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح عراق پر سخت حملہ ’خوف وحراس‘ کے ہتھیاروں سے کیا گیا او راسکے لئے’وسیع تباہی کے ہتھیار کا مصنوعی خاکہ بُنا گیا ۔بلاشبہ یہ تاریخ میں انسانیت سے سب سے بڑادھوکا تھا ۔ہم یہ بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کہ کس طرح کئی اسلامی ممالک افغانستان، لیبیا، شام، یمن وغیرہ میں بیرونی طاقتوں کی جانب سے تباہی کے حالات پیدا کئے گئے تھے جس کے نتیجے میں کس قدر ہولناک قتل و غارت ہوااور یہ ممالک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے، اسی طرح ترکی اور مصر میں بغاوت، حتیٰ کہ ہمارے بلوچستان تک میں بغاوت کے بیج بوئے گئے تھے۔ پاکستانی کو کسی اتحاد کا حصہ بننے سے دور رہنا چاہئے۔ اس کے بجائے ہمیں اپنی تمام ترتوانائیاں ملک میں تعلیم ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر بھرپور سرمایہ کے ذریعےاس کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کرنی چاہئیں اور ساتھ ہی چین، امریکہ، روس اور بھارت سعودی عرب،اور ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کوفروغ دینا چاہئے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں