Tuesday / Mar 11 2025
Newspaper : The Daily Jung (اردو)
پاکستان کی آبادی 240 ملین سے زائد ہے، جس میں 30سال سے کم عمر افراد کی تعداد تقریباً 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ پاکستان ترقی کی راہ میں ایک اہم موڑ پر ہے۔اس سلسلہ میں جامعات کا سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں ایک کلیدی کردار ہوتا ہے۔ دو دہائیاں قبل یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ جامعات میں فیکلٹی کمزور تھی، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں تحقیق کے منظر نامے میں جو شاندار ترقی ہوئی ہے، خاص طور پر ما ضی میں جب میں چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن تھا ،میرے شروع کئے گئے پروگراموں کی بدولت، جامعات اب اس قابل ہو گئی ہیں کہ وہ اپنے کام کے طریقے تبدیل کر سکیں اور تحقیق و جدت طرازی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔حال ہی میں میری زیر نگرانی پاکستان میں ایک شاندار نئی جامعہ قائم کی گئی ہے جوہماری دیگر جامعات کیلئےبہترین ماڈل ثابت ہو سکتی ہے ۔ یہ ہری پور ہزارہ میں Pak Austria
Fachhochschule – Institute of Applied Science and Technology کے نام سے 13 غیر ملکی جامعات کے تعاون سے قائم ہوئی ہے، جن میں سے چار آسٹریا، ایک جرمنی، ایک برطانیہ اور سات چین سے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں پر زور دیتے ہوئے جدت طراز ی کو فروغ دینا ہے ۔ یہ جامعہ تقریباً چار سال پہلے قائم ہوئی تھی اور اس میں تقریباً 3700 طلباء موجود ہیں۔ جدت اور کاروباری صلاحیتوں کی ترقی پر زور دینے کیلئے اس میں پی اے ایف-آئی اے ایس ٹی ٹیکنالوجی پارک اور ایک بزنس انکیوبیشن سینٹر (Business Incubation Center, BIC) قائم کیا گیا ہے ۔اس انکیوبیشن سینٹر نے پہلے ہی 18 نئے کاروباری اداروں کو معاونت فراہم کی ہے، جس میں کاروباری ترقی کیلئے رہنمائی اور بوٹ کیمپ شامل ہیں۔ اس سے جو نئے کاروباری (start-up) ابھرے ہیں انہو ں نے مجموعی طور پر 148 ملین روپے کی رقم ،گرانٹس، انعامات اور آمدنی کے ذریعے حاصل کی ہے۔ کاروباری صلاحیتوں پر زور عملی بوٹ کیمپ کے ذریعے بڑھایا گیا، کیونکہ ادارہ ہر تعلیمی سطح پر کاروباری ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر طالب علم کو کسی منا سب صنعت میں 500 گھنٹے کام کرکے گزارنے لازمی ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ طلباء اور فیکلٹی نے اپنی سرگرمیوں کی بدولت کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز جیتے ہیں، حالانکہ یہ جامعہ صرف چار سال پرانی ہے۔ مثال کے طور پر، ہری بھری سرزمین اقدام 2023ء کیلئے BRICS اور کازان ،روس کی طرف سے نوجوان رہنماؤں کو سال کا بہترین سماجی کاروباری شخصیت کا SCO ایوارڈ دیا گیا۔ ایڈورسٹی نامی کمپنی جو اس جامعہ سے ابھری ہے اسکو 2023ء کا بہترین ایڈ ٹیک اسٹارٹ اپ قرار دیا گیا، اور یہ ایوارڈ پاکستان کے معزز صدر کی جانب سے پیش کیا گیا۔ اس جامعہ سے ایک اور کمپنی ایکو زندگی نے 2023ء کا وزیراعظم کا قومی جدت طراز ایوارڈ اور 5 ملین روپے کی گرانٹ کے حاصل کیاکی ہے۔ ان چار سالوں کی قلیل مدت میں، پاک آسٹریا فاکہا خشولے نے اپنی تاریخی کامیابیوں کے ذریعے دوسری جامعات کیلئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔
پاک آسٹریا فا کہاخشولے کی توجہ مصنوعی ذہانت میں عالمی معیار کے تحقیقاتی مرکز کےقیام میں بھی ہے، جس کیلئے وزارت آئی ٹی اور ٹیلی مواصلات کی طرف سے ایک ارب روپے سے زیادہ کی مدد حاصل ہوئی ہے۔ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ نے پہلے ہی عالمی سطح پر صنعتوں کو تبدیل کر دیا ہے، اور پاکستان ان کے استعمال سے خاصہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ AI پر مبنی حل ملک کے تعلیمی نظام میں انقلاب لا سکتے ہیں، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں موجود خلا کو پر کرنے میں۔ گوگل کی مثال لے لیں کہ کس طرح مصنوعی ذہانت اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی کی جدت پرزبردست اثرات ڈال رہی ہے۔ گوگل کے AI سے چلنے والے اوزار (tools)، جیسے کہ گوگل معاون (Google Assistant)اور ڈیپ مائنڈ نے بہت سی صنعتوں میں جدت فراہم کی ہے اور امریکہ میں اہم اقتصادی مواقع پیدا کیے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں، AI کےاستعمال سے زراعت کےشعبہ میں پاکستان کے لیے پیداوار اور خوراک کی سلامتی کو بہتر بنانے کےذبردست مواقع فراہم ہوسکتے ہیں۔ کسانوں کو موسمی حالات کی پیشنگوئیاں زمین میں مٹی کا معیار، اور کیڑے مارنے کی معلومات فراہم کر کے، AI زراعت کے طریقوں کو بہتر بنا سکتی ہے، فصلوں کی پیداوار بڑھا سکتی ہے، اور فضلہ کو کم کر سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے علاوہ، معلوماتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں روبوٹکس جیسی دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیاں، اور حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور جدید زراعت دیگر میدانوں میں تبدیلی کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو پاکستان کے مستقبل کو نئی شکل دے سکتی ہیں۔ پاکستان کی پہلی آئی ٹی پالیسی میری نگرانی میں 2001 ءمیں تیار کی گئی تھی۔ اسکا آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے پر بڑا گہر اثر پڑا تھا۔ پاکستان اب G 5 اور G 6 ٹیلی مواصلات میں سرمایہ کاری کر کے اس میں مزید ترقی کر سکتا ہے۔ G 5اور G 6 کا استعمال انٹرنیٹ رابطے میں تیزی فراہم کر سکتا ہے جو جدید شہروں، جدید زرعی نظام، اور بہتر انٹرنیٹ تک رسائی کی نئی اطلاقیات کو ممکن بناتا ہے۔ پاکستان کے قدرتی وسائل، جیسے کہ کوئلہ، تانبہ، سونا، اور زمین کے نایاب معدنیات، اقتصادی ترقی کیلئے بہت اہم ہیں۔ AI، روبوٹکس اور بلاک چین ٹیکنالوجیوں کو معدنیات کی نکاسی اور تیاری میں شامل کر کے، پاکستان اپنے کان کنی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے، ماحولیاتی اثر کو کم کر سکتا ہے، اور سپلائی چین میں شفافیت کو یقینی بنا سکتا ہے۔ اسلئے پاک آسٹریا فاکہاخشوے اس وقت معدنی نکاسی اور تیاری کے شعبے میں ایک مرکزِ امتیاز (Center of Excellence) قائم کرنے کیلئے عمل پیرا ہے، جس میں چینی جامعہ برائے معدنیات و کان کنی کے ساتھ قریبی تعاون کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اپنے قیمتی معدنی وسائل کو غیر ملکی خریداروں کو کوڑیوں کے مول فروخت نہ کریں ۔
حیاتیاتی ٹیکنالوجی اور جدید زراعت دو اور ایسے شعبے ہیں جن کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیاں پاکستان کی معیشت پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔ حیاتیاتی ٹیکنالوجی میں پیش رفت، جیسے کہ جینیاتی انجینئرنگ صحت کی دیکھ بھال کے نتائج کو بہتر بنا سکتی ہیں اور خوراک کی عدم دستیابی کے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ اگر پاکستان جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلوں کی کاشت کرے جو کیڑوں اور موسمی تبدیلیوں کیخلاف زیادہ مزاحم ہوں، تو وہ اپنی زراعت کی پیداوار کو بڑھا سکتا ہے اور پائیدار خوراک کی فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ میں نے جامعہ کراچی میں اپنے والد کے نام پر اپنے ذاتی عطیہ سے جمیل الرحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق قائم کیا ہے جو ایسے اقدامات کیلئے ایک مثالی پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ پاکستان کو ان ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کی مکمل صلاحیت کو سمجھنے کیلئے جدت اور کاروباری صلاحیتوں کی ثقافت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ ٹیک نئے کارباریوں (Tech-Startups) کی ترقی کی حوصلہ افزائی کرنا، ٹیکنالوجی پارکوں کا قیام اور سرکاری ونجی شراکت داریوں کی حمایت، جدت کو فروغ دینے کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ افریقہ میں، نیسپرز نے مختلف شعبوں میں نئے کارباریوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے جدت کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جو نائجیریا اور کینیا جیسے ممالک میں اقتصادی ترقی کا سبب ہے۔ پاکستان بھی ایسے ماڈلوں سے متحرک ہوسکتا ہے۔ہماری مشکلات کا حل معیاری تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں مضمر ہے۔
.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں