جمہوری نظام کی راہ میں حائل رکاوٹیں

Monday / May 08 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

10جولائی 1947کو پاکستان کےقیام سے دو ماہ قبل ، قائد اعظم محمد علی جناح نے بقلم خود اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ جمہوریت کا صدارتی نظام پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ انہوں نے مزید لکھا کہ برطانوی پارلیمانی نظام انگلستان کےسوا کہیں بھی کام یاب نہیں رہا ہے۔ ایک موقع پر تقریر کے دوران ہمارےقائد نے اس موجود ہ جاگیردارانہ نظام کے بارے میں فرمایا ’’میں زمینداروں اور سرمایہ داروں کوانتباہ کرنا چاہتا ہوں جو کہ خود غرض نظام کی وجہ سے اس قدر پنپ گئے ہیں جسے بیان کرنا مشکل ہے۔عوام کا استحصال ان کے خون میں رچ بس گیا ہے. یہ لوگ اسلام کا سبق بھول گئے ہیں‘‘ (24 اپریل 1943، میں آل انڈیامسلم لیگ کےسیشن، دہلی، کے خطاب سے اخذ شدہ)۔ مگر افسوس وہ صدارتی نظام حکومت کو حقیقی جامہ پہنانے کے لئےزیادہ دن زندہ نہیں رہ پائے، اور ہم جلد ہی جاگیردارروں اور زمینداروں کے یرغمال بن گئے۔جو جمہوریت کے بجائے ہماری ہی تشکیل کردہ جاگیرداری (feudocracy) نما جمہوریت پر مضبوط شکنجے جکڑےہوئے ہیں۔ اس کی ایک سادھی سی مثال یہ ہے کہ ہماری صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات کرانے میں سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود قصداً سالوں دیر کی اور اختیارات اور فنڈز من پسند لوگوں کو منتقل کر دیئے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک حقیقی جمہوری نظام کے بنیادی اصول تماشہ بن گئے۔ ملک میں جمہوریت کے صحیح نفاذ کے لئےچار اہم عناصر انتہائی ضروری ہیں. ان میں سب سے اہم قانون کی حکمرانی ہے تاکہ تمام شہریوں کو انصاف تک فوری رسائی حاصل ہواور ان کے حقوق محفوظ ہوں، اور بدعنوان افسروں اور حاکموں کو ان کےغلط کاموں پر جلد سزائیں دی جاسکیں۔لیکن ان سب کے نفاذ میں شدید ناکامی رہی ۔کیونکہ بد عنوان اور ظالم افسروں کی جانب سےگواہوں کو دھمکانےکی وجہ سے سزائیں نہیں سنائی جاسکیں۔لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ ججوں اور گواہوں کو حکومت کی طرف سے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ صحیح معنوں میں انصاف فراہم کیا جاسکے ۔ جمہوریت کا دوسرا اہم ستون تعلیم ہے. جب تک عوام اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہونگے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور کو سمجھنے اور پڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، انتخابی چناؤ کا عمل ایک ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ہے. پاکستان میں تو جان بوجھ کر یہ پالیسی رہی ہے کہ تقریبا 10 کروڑافراد ناخواندہ رکھے جائیں تاکہ انہیں اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاسکے اوروہ بیلٹ بکس میں ان آقاؤں کے نام کے ووٹ ڈال سکیں۔اس کا بخوبی اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ہم تعلیم پراپنے جی ڈی پی کا صرف 2.4 فیصد حصہ خرچ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا شمار دنیا میں تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے 9 ممالک میں ہوتا ہے۔ جمہوریت کا تیسرا اہم عنصر لوگوں کو انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ نظام فراہم کرناہے تاکہ وہ اپنی پسند کے رہنماؤں کو ووٹ دےسکیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کے الیکشن کمیشن کا نظام ایک بہت بڑی ناکامی ہے جس کے 5 اراکین میں سے چار اراکین دو بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزد کئے جاتے ہیں. ایسا کمیشن منصفانہ اور غیر جانبدار نہیں ہو سکتا۔الیکشن کمیشن کے اراکین پاکستان کی سپریم کورٹ کے فل بنچ کو قابل احترام اور ممتاز شہریوں کومقرر کرنا چاہئے،سیاسی جماعتوں کا اس انتخاب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے بچنے کے لئے مناسب ملٹری گارڈز کو الیکشن بوتھ کے اندر موجود ہونا چاہئے اور ووٹ ڈالنے کا برقی نظام اپنایا جانا چاہئے۔ اس طرح انتخابات کے دوران بیلٹ بکس میں بوگس ووٹوں کی بھی روک تھام ممکن ہو سکے گی. جمہوریت کا چوتھا اہم عنصر ایک مربوط سیاسی نظام ہے جو حکومت کے چناؤ اور تبدیلی کے عمل کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے نافذ العمل کر سکے۔یہاں پھر ہم بری طرح ناکام رہے ہیں کیونکہ عبوری حکومت جو عارضی طور پر انتخابات کرانے کے لئے اقتدار میں آتی ہے وہ بھی بعض بدعنوان سیاست دانوں کی طرف سے منتخب کی جاتی ہے۔ موجودہ جاگیر داریت کےنظام کو تبدیل کرنے کے لئےہمیں فوری طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ (1) جمہوریت کا صدارتی نظام متعارف کرایا جائےتاکہ صدر عمومی ووٹ سے براہ راست منتخب کیا جا ئے اور وہ چیف ایگزیکٹو ہو۔یہ نظام دنیا کے 90 ممالک میں رائج ہے. (2) بلدیاتی انتخابات کے بعد اختیارات اور مالیات کی درست افسران کو منتقلی (3) 4000 بلدیات قائم کی جائیں اور ان کو چلانے کے لئے میئر تعینات کئے جائیں (ترکی میں 7.6 کروڑکی آبادی کے لئے، 1394 بلدیات قائم کی گئی ہیں) (4) ہر وزارت کے لئے ملک کے سب سے اعلی ٹیکنوکریٹس کوبحیثیت وزیرتقرر کرنا چاہئےاور ہر وزارت کا اس شعبے کے بہترین ماہرین پر مشتمل ایک مضبوط مجلس فکرہونا چاہئے۔ (5) انتخابات کا ایک "متناسب نمائندگی" کا نظام متعارف کرایا جانا چاہئے (پارلیمنٹ کےنمائندوں کی تعداد ڈالے گئے ووٹوں کے متناسب ہونی چاہئے). (6) بیلٹ بکس کی غیر قانونی بھرائی سے بچنے کے لئے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے منعقد کئےجانے چاہئیں۔(7) پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور قومی امور کی نگرانی تک محدود کیا جانا چاہئے۔ اس طرح انتخابات میں حصہ لینےکے لئے لالچی اور بدعنوان افراد کو روکا جا سکتا ہے۔(8) سپریم کورٹ کی جانب سے "دانشوروں کی کمیٹی" قائم کی جانی چاہئے جو صدارتی امیدواروں، وزراء، گورنرز، سیکرٹری اور دیگر اہم سرکاری افسران کی اسناد کو احتیاط سے پرکھیں تاکہ صرف باکردار اور باصلاحیت افراد کی تقرری کو یقینی بنایا جا سکے ۔(9) 80 فیصد پارلیمنٹ کے اراکین کم از کم ماسٹرڈگری کے حامل ہوں اور اپنے پورے تعلیمی کیرئیر میں لازمی فرسٹ کلاس حاصل کیا ہوا ہو۔ (اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام پارلیمانی ارکین کا100 فی صد ماسٹرکی ڈگری کا حامل ہونا ضروری ہے) تاکہ ان میں اتنی قابلیت ہو کہ وہ قومی نگرانی اور قانون سازی کے فرائض مناسب طریقے سے انجام دے سکیں۔(10) الیکشن کمیشن کے اراکین کا تقرر سپریم کورٹ کی جانب سے کیا جائے جو کہ کسی بھی سیاسی وابستگی کے بغیر، بے داغ کردار کے افراد ہوں۔ پھر الیکشن کمیشن اپنےریٹرننگ افسر مقرر کرے۔(11) پولیس، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر،اور دوسرے ایسے اداروں کو خود مختار ادارہ قرار دیا جائے جن کا اپنا انتظامی بورڈہو جس میں حکومتی نمائندگی شامل نہ ہو، تاکہ وہ خوف اورتعصب کے بغیر طاقتور بدعنوانوں کو سزا دے سکیں۔ (12) ایک قومی تعلیمی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردینا چاہئے۔انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور تعلیم پر کم از کم ہمارے جی ڈی پی کا 5فیصد خرچ کرنے کا اعلان کرنا چاہئے۔(13) ملک بھر میں پرائمری / سیکنڈری تعلیم کو لازمی قرار دیاجائے ، سرکاری ملازمین کو قا نونی طور پر اپنے بچوں کو قریبی سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کا پابند کیا جائے اور جو والدین اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں انہیں جیل کی سزائیں دی جائیں. (14) تمام گریجوایشن اور ماسٹرسے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے کم از کم 2 سال اسکولوں اور کالجوںمیں تعلیم دینے کو لازمی قومی تعلیمی خدمت کے طور پر متعارف کیا جاناچاہئے۔ (15) عدالتی نظام کو بہتر بنایا جانا چاہئے تاکہ ہر صورت میں تمام مقدمات کا 3-6 ماہ میں فیصلہ کیا جا سکے اور تمام پرانے مقدمات کا فیصلہ 12 ماہ میں کر دیا جائے۔(16) بدعنوانی کے مقدمات کو فوجی عدالتوں کے دائرہ کا رمیں شامل کر دینا چاہئے کیونکہ بدعنوانی اور دہشت گردی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں. (17) بدعنوانی کو روکنے کے لئےقوانین کو تبدیل کر نا چاہئے اور 10 لاکھ روپے سے زائدکی بدعنوانی کے لئے سزائے موت کو لازمی قرار دیا جانا چا ہئے۔(18) نیب سے بدعنوانوں کی درخواست پر کچھ رقم وصول کرکے سودے بازی کرنےکے لئے اربوں روپے لوٹنے والوں سے کروڑوں واپس لے کر چھوڑ دینے پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہئے اور بدعنوانوں کو سخت سے سخت سزا ئیں لازمی ہونی چاہئیں۔ (19) حقیقی زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کرتے ہوئے زرعی ٹیکس لاگو کیا جانا چاہئے تاکہ ٹیکس وصولی میں اضافہ ہو سکے۔ مندرجہ بالا تجاویز پر عمل درآمدکے لئے، سپریم کورٹ اور محب وطن سیاسی جماعتوں کو یکجا ہو کر ایک ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کرنی ہوگی جوکہ قائداعظم کے نظریئےپر عمل درآمد کر سکے تاکہ ایک حقیقی جمہوری نظام تشکیل دیا جا سکے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں