ایماندار قیادت ضروری

Saturday / Jul 07 2018

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

میں اپنے گزشتہ مقالوں میں یہ تذکرہ کر چکا ہوں کہ مختلف نا اہل حکومتوں کی وجہ سے پاکستان ، تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ کسی بھی حکومت نے دور اندیشی سے اس ملک اور اسکی عوام کو طویل مدتی فوائد پہنچانے کی فکر نہیں کی۔ صرف قلیل مدتی منصوبوں کے تحت بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے لئے گئے ۔ مثال کے طور پر یہ نہایت شرمناک حقیقت ہے کہ ہم نے پچھلی پی ایم ایل (ن) کی حکومت میں اورنج لائن (Orange Line) کے منصوبے پر ایک سال میں 270 ارب روپے خرچ کئے جبکہ پورے ملک کا سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ صرف ڈھائی ارب یعنی سو گنا کم ہے۔ کیا یہ پاگل پن نہیں ہے ؟ ملک کی اقتصادی صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی حتی کہ ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی بیرونی قرضے لئے گئے وہ بھی بد ترین بدعنوانیوں کی نذر ہو گئے ۔ اس مایوس کن صورتحال میں ملک کی دس کروڑ نوجوانوں کی آبادی واحد امید کی کرن اور یہ کسی خزانے سے کم نہیں ہے اور اس خزانے کی کنجی ان نوجوانوں کو اعلیٰ و معیاری تعلیم سے آراستہ کرنے میں ہے۔ صرف یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم نہ صرف اس ملک کا بلکہ ان نوجوانوں کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں کیونکہ جدید دور تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی و جدت طرازی کا دور ہے اور اس کے لئے اعلیٰ و معیاری ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل اس کی ترقی کے ضامن نہیں ۔ سنگاپور ہی کی مثال لے لیں ، ایک چھوٹا ساملک جس کی آبادی کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی ہے لیکن اعلی و معیاری تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی مالک افرادی قوت کی بدولت اسکی برآمدات 330 ارب ڈالر سالانہ ہیں جن میں بتدریج اضافہ بھی ہو رہا ہےجبکہ ہمارے ملک بھر کی برآمدت کئی سالوں سے 21 ارب ڈالر تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ ملک گزشتہ دہائی سے غربت میں مستقل اضافہ ہو رہاہے جبکہ ملک قرضوں بحیرہ میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔یہ شرمناک حقیقت ہے اور نظام حکومت میں انقلابی تبدیلی کی جانب قوی اشارہ ہے۔ پاکستان کو اللہ نے وسیع قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے نوازا ہے ۔اگر ان قدرتی وسائل کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جائے تو بے حد استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں دنیا کا پانچواں سب سے بڑا نہری نظام موجود ہے جس میں پن بجلی گھروں کے ذریعے 46,000 میگا واٹس بجلی کی پیداوار کی صلاحیت ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے شمال میں بہت سے چھوٹے جھرنے ہیں جہاں چھوٹے پن بجلی گھروں کی تنصیبات 4,500 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ ہمارے کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ 186 ارب ٹن لگایا گیا ہے ۔ جبکہ ثابت شدہ ذخائر صرف58 کروڑ ٹن ہیں جو کہ ملکی ضروریات کو 180 برس تک پورا کرنے کے لئے کافی ہیں ۔ صرف تھر کے کوئلے کے ذخائر سے 50,000 میگاواٹ بجلی اور 10 کروڑ بیرل تیل حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ اگلے 500 سالوں تک کے لئے کافی ہے۔ اسی طرح ہم سندھ اور پنجاب کے صحرائی علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد میگاواٹ بجلی 3 روپے سے کم کلوواٹ فی گھنٹہ پر شمسی توانائی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا کر سکتے ہیں جیسا کہ متحدہ عرب امارات میں کیا جا رہا ہے ۔ اسی طرح بہت سے غیر استعمال شدہ گیس کے ذخائر بھی ہیں۔ کوہاٹ کے قریب،ٹال بلاک میں گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے جو کہ سوئی گیس کے ذخائر جتنے بڑے ہیں ہمارے ملک میں سینداک کے مقام پر سونے اورتانبےکے بھی کافی بڑے ذخائر ہیں ۔ ہمارے معدنی وسائل میں جپسم، چونے کے پتھر، کروما ئیٹس (chromites)، لوہا، پتھر نمک، چاندی، قیمتی پتھر، جواہرات، سنگ مر مر، اور گندھک شامل ہیں اس کے علاوہ سونے کی پانچویں سب سے بڑی کان اور تانبے کی ساتویں سب سے بڑ ی بھی پاکستان میں ہے، پاکستان بھی لاکھوں اربوں ڈالر کما سکتا ہے اگر وہ ان نوادرات اور معدنیات کو تجارتی اعتبار سے صاف کرکے فروخت کرے بجائے اسکے کہ بدعنوان اور کوتاہ نظرقیادت کی وجہ سے ان نوادرات کو خام مال کی شکل میں کوڑیوں کے مول برآمد کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ پاکستان میں زبردست زرعی صلاحیت بھی موجود ہے اور بہت سے فصلوں کی پیداوار میں تھوڑی سےکسانو ں کو تعلیم دینےسے تین گنا اضافہ ہو سکتا ہے نیزاس وقت دنیا میں ہمارے ملک کا شمار سب سے بڑےگندم اور چاول کے پیداواری ممالک میں ہوتاہے ۔ یہ سب صلاحیت ہونے کے باوجود ہمارا ملک ایک بدعنوان جمہوریہ ہے ۔ تبدیلی آسکتی ہے بشرطیکہ ، ایک ایماندار اور قابل ٹیکنالوجی سے لیس قیادت بر سر اقتدار آجائے ۔ ایسا جنرل ایوب کی حکومت کے پہلے چند سالوں کے دوران مظاہرہوا تھا اور پھر مشرف حکومت کے پہلے 3 سال میں ہوا۔ اکتوبر 1999 تااکتوبر 2002 ء کے دور میں مجھ سمیت 15 وزراء کی ایک چھوٹی سی کابینہ تھی جس نے پاکستان کو معاشی تباہی کے دہانے سےباہر نکالا تھا ، آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرائی تھی اور جی ڈی پی کی شرح نمومیں 8 فیصد تک کی رفتار حاصل کر لی تھی اس تیزی سے جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ایشیا بھر میں چین کے بعد پاکستان نے حاصل کیا تھا۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام ڈویژن، اس وقت وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا حصہ تھے ۔ موبائل ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں دھماکہ خیز ترقی کی ابتدا میرے اس فیصلے سے شروع ہوئی جو میں نے ، میرے قابل ساتھی اور مشیر جناب سلمان انصاری کے مشورے سے لیا تھا۔ میں نےموبائل ٹیلی فون کالز کے نرخ کی شرح کوکم کرنے کے لئے، ایک اور کمپنی (یو فون) کو مقابلے میں لا کھڑا کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ کال موصول ہونے والا پیسے ادا نہیں کرے گا۔ اس متعارف کردہ رواج نے موبائل ٹیلی فون کے شعبے میں تہلکہ مچا دیا اور جو جمود موبائل فونز پر 2001 ء کے دوران تھا یعنی تقریباً تین لاکھ موبائل فونز سے بڑھ کر یہ تعداد اب ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ اس طرح موبائل ٹیلی فون ہماری معیشت کا سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ بن گیا ہے ۔ اس شاندار تبدیلی کی وجہ وزارتوںکی قیادت کے لئے درست وزیروں کا ’’انتخاب‘‘ ہے نہ کہ ’’ انتخابات‘‘ جس کے نتیجے میںبعض اوقات بدعنوان اور نااہل وزرا کا انتخاب ہوا ہے ۔ 2002 میں پاکستان نے اپنی جامعات کو مستحکم کرنے کے لئے اعلی تعلیمی کمیشن کے قیام کے ساتھ ایک بہترین آغاز کیا ۔ نتائج انتہائی ’’شاندار‘‘ حاصل ہوئے جیساکہ اقوام متحدہ کمیشن برائےسائنس، ٹیکنالوجی اور ترقی (UNCSTD) کے سابق چیئرمین پروفیسر مائیکل روڈے نے 2008، ء میں ایک مضمون میں بیان کیا کہ”پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبےمیں گزشتہ چھ سالوں کے دوران اسقدر شاندار مثبت پیش رفت کا مشاہدہ ہوا ہے جو اس سے پہلے کسی اور ملک میں نہیں ہوا‘‘ مگر افسوس کہ یہ سب زیادہ دیر قائم نہ رہ سکاکیونکہ گزشتہ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کو کم کر دیا اور جعلی ڈگری کے حامل 200پارلیمانی اراکین کے احکامات پر ایچ ای سی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔ خوش قسمتی سے سپریم کورٹ نے میری پٹیشن پر اس ادارے کا تحفظ کیااور ختم ہونے سے بچا لیا ۔ تاہم کچھ اہم پروگرام جو ہم نے شروع کئے تھے انہیں منسوخ کر دیا گیا جنہیں اب بحال بھی نہیں کیا جا سکتا۔ان میں سرفہرست 7غیر ملکی انجینئرنگ جامعات اور 4قانون جامعات(ہر صوبے میں ایک) قائم کرنے کے پروگرام شامل تھے ۔ یہ خوش آئند اقدام تھا کہ ایک صوبائی حکومت نے پاکستان میں غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے قیام کا پروگرام بحال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جناب عمران خان ، کی پر بصیرت قیا دت میں خیبر پختونخواہ حکومت نےمجھے اس صوبے میں ایک اچھی غیر ملکی انجینئرنگ جامعہ قائم کرنے میں مدد کے لئے رابطہ کیاتھا۔ ہم نے تیزی سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سب سے اچھی اطلاقی سائنس اور ٹیکنالوجی جامعات کا ایک کنسورشیم (consortium) تشکیل دیا جسے فاکہا کشولے (Fachhochschule) کا نام دیا گیا ۔ پاک آسٹرین انجینئرنگ جامعہ ہری پور، ہزارہ میں ایک یا دو سال میں کام شروع کردیگی جہاں ڈگری آسٹرین ساتھی جامعات کی طرف سے دی جا ئے گی ۔ اس جامعہ کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ ہمارے طلبا کو بیرون ملک گئے بغیر اچھی غیر ملکی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس جامعہ کا مرکز ایک ٹیکنالوجی پارک ہو گا جو کہ آسٹریا کی صنعتوں کا پاکستان کی صنعتوں کے ساتھ مضبوط تعاون تشکیل دے گا ۔ لہٰذا اگر پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو ایسا جمہوری نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کی باگ دوڑ پر بصیرت، ایماندار اور قابل لوگوں کے ہاتھ میں ہو جن میں جدید اعلی ٹیکنالوجی کو ملکی سماجی و اقتصادی ضروریا ت کے مطابق ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت ہو ۔ کیونکہ یہی وقت کی ضرورت ہے اور یہی وقت ہےعمل کا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں