شعبہء دفاع میں حیرت انگیزسائنسی ایجادات

Monday / Mar 27 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ دو دہائیوں میں جنگوں کی نوعیت میں بڑی تیزی سے تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ شخصی ذہانت اور طاقت کو مصنوعی ذہانت کا سہارا مل گیا ہے، مستقبل میں مشینوں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں میں انسانوں کے مقابلے میں کمپیوٹر کے ذریعے منصوبہ بندی کہیں زیادہ مؤثرہوگی۔ 10فروری 1996میں آئی بی ایم کے ’’ڈیپ بلیو‘‘ کمپیوٹر نے شطرنج میں روسی گرینڈ ماسٹر اور عالمی چیمپئن، گیری کاسپارو کو شکست دے کر ایسا پہلا کمپیوٹر بنانے کا اعزاز حاصل کیا جس نے ایک عالمی چیمپئن کو شکست دی، یہ تیس سال پرانی بات ہے اس کے بعد ہم نے تیزی سے ترقی کی جانب گامزن اس شعبے میں کافی جدت کا مشاہدہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر مصنو عی ذہانت کے بل بوتے پر جنگوں کے نئے منصوبے اور حکمت عملیاں طے کی جا رہی ہیں جبکہ ہم اس ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔آج کل خفیہ و حساس طیارے اور آبدوزیں ایسی تیار کی جارہی ہیں جن کے برقی سرکٹ کے نظام میں نہایت خطرناک ’’آلودہ چپس‘‘ نصب ہوتی ہیں جو کہ ایک بیرونی کوڈ کردہ برقی سگنل کے ذریعے طیارے اور آبدوز میں نصب ہتھیاروں کے نظام یا دیگر کنٹرول کو غیر فعال کر سکتی ہیں۔ ان چپس میں موجود پیچیدہ برقی سرکٹ کی بدولت ان کو شناخت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس قسم کے حساس ہتھیاروں کی خریداری کے معاملے میں کسی بھی ملک پر بھروسہ کرنا انتہائی خطرناک ہے۔ کیونکہ آپ کا دشمن ملک ان ہتھیاروں کو فروخت کرنے والے ملک سے ان ہتھیاروں کا خفیہ کوڈ معلوم کرسکتا ہے اور آپ کی جنگی صلاحیتوں کو ناکارہ بنا سکتا ہے اس ہی لئے چین نے ایسی غیر معتبر اور مہنگی درآمدات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے اسلحے کی صنعت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس شعبے میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ سائنس کے میدان بہت حیرت انگیز پیش رفت ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہدف کردہ ’’عقلمند گولیاں‘‘ تیار کی گئی ہیں جو کہ چھپے دشمن کو بھی نشانہ بنا سکتی ہیں۔ امریکی دفاعی ایجنسی کی مدد سے اس قسم کی گولیوں کی تیاری کے لئےایک پروگرام EXACTOشروع کیا گیا تھا۔ اس کا کامیاب تجربہ2014میں کیا گیا تھا جس میں یہ بھی دکھایا گیا تھا کہ گولی اپنے ہدف تک پہنچنےکے لئے بیچ راستے میں اپنی رفتار قائم رکھتے ہوئے رخ تبدیل کرکے درست ہدف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔2012میں Sandiaنیشنل لیبارٹریز نے ایک ایسی گولی کا نمونہ تیارکرنے کا اعلان کیا جو کہ ہدف پر پڑنے والی لیزر کی شعاع کو ازخود نشانہ بنا سکتی ہے۔ اس گولی میں اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ایک میل کی دوری سے30بار فی سیکنڈ دوران تعاقب رخ تبدیلی کی صلاحیت تھی۔ روس نے بھی اپنے آپ کو پیچھے نہیں رکھا اور گزشتہ سال ہی روس نے اعلان کیا ہےکہ وہ بھی اسی قسم کی گولی تیا ر کررہا ہے جو کہ 6میل کے فاصلے پر اہداف کو اپنا رخ دوران تعاقب مسلسل تبدیل کرکے نشانہ بنا سکے گی۔ انسانوں میں دانشورانہ صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے انسانی دماغ میں طاقتور حافظہ چپس نصب کئے جانے پر بھی بہت کام مکمل رفتار سے جا ری ہے۔ ابتدائی فروری 2017میں اربپتی ایلون مسک کے مطابق ہمیں اس انتہائی ذہین مشینی دور جسے ہم خود تخلیق کر رہے ہیں، اس میں زندہ رہنے اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کے لئے ایک براہ راست انسانی دماغ/کمپیوٹر ملاپ کی شدید ضرورت ہے۔نئے مواد کے میدان میں سب سے زیادہ حیرت انگیز پیش رفت میٹا مٹیرئیل کی دریافت ہے۔ اس مواد میں روشنی کو جھکانے کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ اس طرح کے مواد سے ڈھکے ہوئے ہوائی جہاز، ٹینک اور آبدوزیں انسانی نظر سے پوشیدہ کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح نینو ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی طب، صنعت اور دفاع پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نینو سیلولوز سے ایک کاغذ تیار کیا گیا ہے جو اس قدر مضبوط ہے کہ مستقبل کی بلٹ پروف جیکٹس اس سے بنائی جائیں گی۔ گزشتہ کئی سو سال کے دوران اسلامی دنیا کی تنزلی کی ایک اہم وجہ سائنس اور ٹیکنالوجی سے دوری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم تقریباً ہر زاویہ سے، مغرب کے معاشی غلام بن چکے ہیں۔ آج آپ کسی بھی اسلامی ملک کی سڑک پر کھڑے ہو جائیں تھوڑی ہی دیر میں آپ کےسامنے سے 50لاکھ ڈالر مالیت کی گاڑیاں گزر جائیں گی۔ یہ گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ یہ سب مغرب سے آئیں، اور اگر بالفرض مقامی طور پر بنائی گئی ہوں تو ان کے انجن، گیئر بکس وغیرہ اور دیگر اہم حصے مغرب ہی میں تیار کئے گئے ہیں۔ یعنی مغرب میں تیار کی جانے والی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی مصنوعات ایک بہت بڑے خلا پمپ کے طور پر کام کر رہی ہیں جو ہماری تمام دولت چوس رہا ہے۔ یہ اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ہم علم پر مبنی معیشتوں پر منتقلی میں ناکام رہے ہیں۔ اس حالت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ تمام 57اسلامی ممالک کی کل جی ڈی پی (GDP)مغرب کے ایک ملک مثلاً جاپان کی جی ڈی پی کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ میں جاگیر داروں کا غلبہ اس بات کو یقینی بناتا ہےکہ تعلیم اور سائنس کے میدان میں کم ازکم سرمایہ کاری ہو تاکہ ان کا جاگیردارانہ نظام مضبوطی سے قائم رہے اور وہ تعلیم یافتہ عوام کی طرف سے کسی خطرے سے دوچار نہ ہو سکیں۔ بیرونی عالمی طاقتوں کے تعاون سے بدعنوان حکومتوں کو برسر اقتدار لایاجاتا ہے تاکہ اسلامی دنیا سے کوئی نیا کوریا اور جاپان ابھر کر سامنے نہ آ جائے۔ عراق کی تباہی کی وجہ اس کی سائنس میں ترقی تھی جو اسرائیل کے لئے خطرہ تھی۔ انسان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا دھوکا دیا گیا جب عراق پر حملے کی جھوٹی کہانی گھڑی گئی کہ عراق ہتھیار تیار کر رہا ہے جو بڑے پیمانے پر تباہی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران کو بھی اب اسی انداز میں دھمکی دی جا رہی ہے اور پاکستان واضح طور پر ہمارے دشمنوں کے نشانے پر ہے جس کا اندازہ بیرونی مدد سے دہشت گرد حملوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہماری تمام کوتاہیوں کا جواب تعلیم اور سائنس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مضمر ہے تاکہ ہم جدید و اعلیٰ قیمتی مصنوعات تیاری کر سکیں اور جدید تکنیکی مصنوعات برآمد کر سکیں اور خود تیارکردہ جدید ہتھیاروں سے بیرونی جارحیت سے اپنا دفاع کر سکیں۔ موجودہ قدرتی و سائل سے چلنے والی معیشت کی ایک علم پر مبنی معیشت کی جانب منتقلی کے لئے صاحب بصیرت رہنماؤں کی ضرورت ہے جو قومی پالیسیوں پر عمل درآمد کو اعلیٰ ترین قومی ترجیح دیں۔ اس تمام حیرت انگیز پیش رفت میں پاکستان صرف ایک تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائنس کی قابل رحم حالت ہے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے پاس صرف 18ارب روپے کا معمولی سا سالانہ ترقیاتی بجٹ ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔ بھارت کا موجودہ سائنس کا بجٹ پاکستانی850 ارب روپے کے برابر ہے جوکہ پاکستان کے سائنس و ٹیکنالوجی کے بجٹ سے 470گنا زیادہ ہے۔ جبکہ ہماری آبادی میں صرف تقریباً چھ گنا فرق ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سائنس کیلئے ہمارے ملک کا ترقیاتی بجٹ 140ارب روپے ہونا چاہئے۔ بھارت نے حال ہی میں ایک راکٹ سے خلا میں 104مصنوعی سیاروں کے اجرا کا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اور اب چاند پر مشن بھیجنے کا ارادہ ہے تاکہ چاند سے ہیلیم-3کی کان کنی کی جا سکے جو بھارت کی توانائی کی ضروریات پورا کرے گی۔ گزشتہ ماہ سالانہ سائنس کانگریس میں، مودی نے بھارتی سائنسدانوں سے مدد کی درخواست کی ہے کہ وہ ملک و قوم کی مدد کریں تاکہ 2030تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی تین سائنس کی قوتوں میں سے ایک بن جائے۔ ہمارے رہنماؤں کو بھی تعلیم اور سائنس کو اسی طرح اعلیٰ قومی ترجیح دینا ہو گی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں