پاکستان میں اعلیٰ تعلیم

Friday / Feb 17 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان گزشتہ سال کی چند اہم کامیابیوں کی وجہ سےجشن منا سکتا ہے۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل نے 21نومبر 2016ء کو پیرس، فرانس میں منعقدہ ایک باقاعدہ تقریب میں جامعہ کراچی کے ’’بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز‘‘ کو ’’اعلیٰ کارکردگی کا مرکز‘‘ قرار دیتے ہوئے دیگر ممالک کے طلبہ کو پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ پاکستان کے لئے بہت بڑے اعزاز کا مقام ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی سائنس کانفرنس ’’چودہویںیوریشیا کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا سہرا بھی اسی ادارے کو جاتا ہے۔ یہ کانفرنس دسمبر2016میں منعقد کی گئی اس چار روزہ کانفرنس میں 750سائنسدانوں نے شرکت کی جس میں 150سائنس دانوں کا تعلق امریکہ، جاپان، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک سےتھا۔ ایک اور قابل تحسین خبر یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تھامسن رائیٹرز کی جانب سے بین الاقوامی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ تھامسن رائیٹر زایک بین الاقوامی کمپنی ہے جو Web of Scienceشائع کرتی ہے اور تحقیقی کاموںسے متعلق بین الاقوامی اعداد و شمار شائع کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی کاوشوں کو سراہتے ہو ئے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں شاندار ترقی 2003کے بعد اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے متعارف کرائے گئے اقدامات کی بدولت حاصل ہو ئی ہے۔ دریں اثنا رپورٹ میں پاکستان کا موازنہ برازیل، روس، بھار ت اور چین کی اعلیٰ تعلیم سے کیا گیا تو محتاط تجزیے اور اعداد وشمار سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سائنسی مطبوعات میں بہتری کی شرح ان ممالک سے کہیں زیادہ تجاوز کر گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں یہ تبدیلی اور شاندار ترقی ہمارے ان اقدامات کی وجہ سے ہوئی جو میں نے بطور چیئرمین ایچ ای سی اٹھائے تھے اور موجودہ ایچ ای سی نے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم پی ایچ ڈی کی سطح کے اساتذہ کی کثیر تعداد فراہم کرنا تھا جس کیلئے11000طلبہ کو بیرون ملک تربیت کے لئے بھیجا گیاجن میں سے5000 پی ایچ ڈی کے لئے بھیجے گئے طلبہ کی تحقیقی فنڈنگ کو بڑھایا گیا، جامعات کی درجہ بندی کی گئی تاکہ مقابلے کا رجحا ن پیدا ہو، غیر معیاری اداروں کو بند کیا گیا، اساتذہ کی تقرری اور ترقی کے معیار میں سختی لائی گئی۔ ملک کی سب بڑی ڈیجیٹل لائبریری کا قیام جس سے تمام سرکاری جامعات منسلک ہوں اور طلبہ اپنے نصاب کی کتب سے لے کر تمام تحقیقی جرائد سے مستفید ہو سکیں، جیسے اقدامات شامل تھے۔ اسی طرح تمام جامعات میں ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت فراہم کی گئی تاکہ رابطے میں رہیں، بین الاقوامی روابط قائم کرنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے معزز سائنسدانوں کے لیکچروں کی ترسیل کا اہتمام کیا گیا، رائج نصاب میں جدت پیدا کی گئی اور اسی طرح کے دیگر اقدامات کئے گئے۔ مندرجہ بالا کاوشوں کے نتیجے میں 2003ء میں تحقیقی اشاعت جو کہ صرف 800تحقیقی مقالہ سالانہ تھیں 2016ء میں بڑھ کر 11,000تحقیقی مقالہ سالانہ تک پہنچ گئیں۔ اسی طرح 2002ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی تعداد سالانہ125 تھی جو بڑھ کر2016 میں1500 پی ایچ ڈی سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔ اس شاندار ترقی نے بھارت کو بھی پاکستان کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور کر دیا۔ جولائی 2006میں بھا رت کے وزیراعظم کو پاکستان میں ہونے والی ایچ ای سی کی ترقی پر ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس کے بعد بھارت کی کابینہ نے اپنی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کو بند کرکے اعلیٰ تعلیمی کمیشن جیسی ہی تنظیم، قومی کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم و تحقیق قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابھی اس فیصلے کی منظوری بھارتی پارلیمنٹ، لوک سبھا سے ہونا باقی ہے۔ حالیہ پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ہری پور میں آسٹریا کے تعاون سے ایک اعلیٰ درجے کی انجنیئرنگ جامعہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس جامعہ میں مختلف انجینئرنگ کے شعبوں میں آسٹرین جامعات سے ڈگریاں فراہم کی جائیںگی اور تربیت بھی آسٹرین نگرانی میں ہو گی۔ چار آسٹرین جامعات اس ہری پور جامعہ میں شامل ہونگی۔ ہری پور میں قائم کی جانیوالی پاک۔ آسٹریا جامعہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کا میں چیئرمین ہوں۔ پاکستان کے انجینئرنگ کے شعبے میں ترقی کے لئے ان شاءاللہ یہ قدم ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ امید ہے کہ دیگر صوبے بھی خیبر پختونخوا حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیرملکی جامعات پاکستان میں قائم کریں گے۔ اس کی بھی شروعات ہو چکی ہے اور پنجاب حکومت بھی غیر ملکی جامعہ لاہور نالج پارک میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے میں نے فرانسیسی اور اٹلی کی جامعات سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ فرانس، اٹلی، سوئیڈن، چین، آسٹریا، کوریا اور دیگر ممالک کے ساتھ باہمی اشتراک سے غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے قیام کی کوششیں 2007تا 2008ء میں ہی پوری ہو جاتیں لیکن پی پی پی کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی اس پروگرام کو بند کردیا تھا۔ ان تمام پیشرفتوں کے باوجود سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ 2008ء میں ہماری پانچ جامعات کا شمار Higher Education Times (UK)کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی اعلی 300سے 500 جامعات میں ہوتا تھا۔ لیکن اب افسوس دنیا کی اعلیٰ 700جامعات میں بھی ہماری کسی جامعہ کا نام نہیں ہے۔ یہ بدترین زوال صرف گزشتہ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ پاکستان بھر میں اسکولوں اور کالجوں کی حالت نہایت ابتر ہے جہاں غیر معیاری تعلیم یافتہ اساتذہ تعینات ہیں اور تربیت کے لئے مناسب لیب موجود نہیں ہیں۔ یہ صرف اس جاگیردارانہ نظام کی پیروی کی وجہ سے ہے جو کہ اس ملک کے عوام کو کم تعلیم یافتہ یا ناخواندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ تعلیم یافتہ طبقہ ان جاگیرداروں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جو ہماری پارلیمنٹ کا خاص بھی حصہ ہیں ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم پر کم سے کم سرمایہ کاری کی جائے۔ اسی لئے تو پاکستان کا شمار دنیا کے ان نو ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی GDPکا سب سے کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو پاکستان کو علم پر مبنی معیشت قائم کرنا ہوگی۔ CPECہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے لیکن اس کانظریہ اور حکمت عملی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ CPECمعاہدے میں درجنوں اعلیٰ ٹیکنالوجی کے علمی اور صنعتی شعبوں کی ضرورت ہے جن میں انجینئرنگ کی مصنوعات، معلومات و مواصلات ٹیکنالوجیز، روبوٹ سازی، دوا سازی، بائیوٹیک مصنوعات، برقیات، نیا مواد، نینو ٹیکنالوجی، دفاعی مصنوعات کی تیاری اور زراعت شامل ہیں۔ان سب کی باہمی شراکت داری چین کی اعلیٰ جامعات اور تحقیقی اداروں یا چینی نجی ادروں کے ساتھ ہونی چاہئے اور ان صنعتی علاقوں سے دس سال کے عرصے میں100 ارب ڈالر سالانہ کا ہدف رکھنا چاہئے۔ ان کمپنیوں کو پندرہ سالہ ٹیکس کی چھوٹ دی جائے تاکہ مصنوعات سازی میں تیزی سے اضافہ ہو سکے جیساکہ میں نے 2001ء میں کیا تھا جب میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تھا (بشمول آئی ٹی اور ٹیلی کام) اس وقت آئی ٹی کے شعبے کو دی گئی پندرہ سالہ چھوٹ سے آئی ٹی کا کاروبار 2001ء میں3 کروڑ ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 2016ء میں3 ارب ڈالر سالانہ پر پہنچ گیا ہے۔ صوبہ سندھ میں بدعنوانی کا اندازہ اس حالیہ رپورٹ سے ہی ہو جاتا ہے کہ 9کروڑ روپے گزشتہ آٹھ سالوں میں صرف لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں کے لئے مختص کئے گئے جس میں سے بڑی رقم کرپشن کی نذر ہو گئی اور بیرون ملک بنک اکاؤنٹس میں منتقل ہو گئی۔ جب تک ہم اپنے نظام انصاف میں فوری تبدیلی نہیں لائیں گے اور بڑے بڑے بدعنوانوں کو سرعام سزا نہیں دینگے تو اسی طرح بھگتتے رہیں گے اور زوال پزیر ہوتے رہیں گے۔ اب ملک اور اعلیٰ عدالت کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ہے کہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کے لئے چند ایماندار لوگوں کا انتخاب کریں اس کے سوا پاکستان کے لئے کوئی امید کی کرن باقی نہیں رہی۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں