کل کی دنیا

Friday / Feb 03 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

عالمی درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق ہمالیہ کے برفیلے تودے پگھل رہے ہیں حتیٰ کہ یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اس طرح ایشیا، افریقہ، امریکہ اور جنوبی امریکہ کے بڑے خطے ناقابل رہائش ریگستانوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ ان موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں انتہائی سیلابی صورتحال تو کہیں قحط سالی، بہت سی اموات کا سبب بنے گی۔ یہ بھی پیشں گوئی کی گئی ہے کہ 2050ء تک بہت سے جانوروں اور نباتات کی اجناس ناپید ہو جائیں گی جبکہ انسانی آبادی نو ارب تک پہنچ جائے گی لیکن پھر خشک سالی اور جنگوں کی وجہ سے تیزی سے کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ یہ انتہائی خطرناک حقیقت ہے۔ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ آخری مرتبہ اس شدت سے عالمی درجہ حرارت آج سے ساڑھے پانچ کروڑ سال پہلے ہوا تھا جب بہت زیادہ مقدار میں منجمد میتھین گیس سمندروں کی گہرائی سے خارج ہوئی تھی جس نے عالمی درجہ حرا رت میں 5-6ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ سے یورپ تک کا وسیع علاقہ ریگستان میں تبدیل ہو گیا تھا اور تحلیل کاربن ڈائی آکسائیڈ نے بحرؤں کو اس قدر تیزابی کر دیا تھا کہ بیشتر سمندری زندگی ختم ہو گئی تھی۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق کرہ ارض کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح دوگنی ہو گئی تو عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً 3ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو گا۔ نمی میں اضافے سے زمین کے بیشتر خطے اگلی دس دہائیوں میں ناقابل رہائش ہو جائیں گے۔ اس کے سد باب کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم فوری طور پر چند ضروری اقدامات اٹھانا ہوں گے جن میں نامیاتی ایندھن جلانے پر قابو پانا سب سے اہم ہے کیونکہ اس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے جو کہ عالمی حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ کچھ امریکی اور آسٹریلوی سائنسدانوں کے مطابق ہماری زمین کے کچھ خطے تو ایک صدی کے اندر ہی گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے ناقابل رہائش ہو جائیں گے اور قیاس کیا جارہا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ہی خطوں میں ہو گا جو بری طرح اثر انداز ہونگے۔ یورپ میں پہلے ہی ہر سال بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات واقع ہو رہی ہیں۔ فرانس میں 2003میں 13,800افراد صرف لوُ لگنے سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عالمی سطح پر گرمی کی شدت سے اموات کا تناسب لا کھوں اموات سالانہ ہے جن میں بچے اور بوڑھے افراد کا تناسب زیادہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پیرس کو آب و ہوا معاہدے سے دستبردار کرنے کی دھمکی دی ہے جو کہ عالمی سطح پر حرارت بڑھنے کا سبب بنے گی۔ چین نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے اور یہ معاملہ زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔ اس با ت کا اکثریت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ فضا میں نمی ہی حقیقی خطرہ ہے جو درجہ حرارت میں اضا فے کی نشاندہی کرتی ہے۔ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھتا ہے اتنا ہی سمندر سے بخارات بننے کا عمل تیز ہوتا ہے نتیجتاً نمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارا جسم مخصوص درجہ حرارت کی حدود میں کام کر سکتا ہے۔ عام جسم کا درجہ حرارت 37ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے لیکن یہ اگر 42ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہمارے جسم پر موجود مساموں سے پسینہ خارج ہوتا ہے جو بخارات بن کر اڑتا ہے تو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے اور گرمی سے راحت پہنچاتا ہے۔ لیکن جب اردگرد ہوا میں نمی زیادہ ہوتی ہے تو بخارات بننے کا عمل سست پڑ جاتا ہے (لہٰذا ٹھنڈک کا اثر بھی جو اسی عمل سے منسوب ہے، کم ہو جاتا ہے) جو کہ ہمارے جسم پر شدید تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ خشک گرم موسم میں ہم فضا میں درجہ حرارت 50ڈگری سینٹی گریڈ تک یا اس سے بھی زیادہ برداشت کر سکتے ہیں لیکن صرف قلیل مدت کے لئے محض اس ٹھنڈک کی بدولت جو کہ جلد پر پسینہ خشک ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر فضا میں نمی ہو تو ہمارے جسم کادرجہ حرارت 35ڈگری سینٹی گریڈ سے چند گھنٹوں سے زیادہ تجاوز نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی انسانی جسم پر کشیدگی پر غور کرنا ہو تو ’’گیلے بلب‘‘ کا درجہ حرارت زیادہ موزوں تصور کیا جاتا ہے (یہ وہ درجہ حرارت ہے جو کہ تھرما میٹر کے پارہ بلب کو گیلے کپڑے سے لپیٹنے کے بعد لیا جاتا ہے) گیلے بلب کا درجہ حرارت عموماً 31ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ایک تندرست آدمی بھی35ڈگری سینٹی گریڈ ’’گیلے بلب درجہ حرارت‘‘ میں چند گھنٹوں سے زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ٖفصلوں کی بھرپور پیداوار کے لئے پانی اور زمین کا غیر مستحکم اور بے دریغ استعمال ایک اور بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جو کہ دنیا کو اس قدر شدید بحران میں ڈال دے گا جس کی شدت کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔ عالمی بینک کے مطابق صرف بھارت میں ساڑھے سترہ کروڑ افراد اندرون زمین پانی کے ذریعے کاشت کردہ اناج پر اپنی کفالت کرتے ہیں۔ اندرون زمین پانی کو پمپ کے ذریعے تیزی سے کھینچا جاتا ہے اس طریقے کی وجہ سے اندرون زمین پانی کے ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ سعودی عرب میں گندم کی کاشت اندرون زمین آبی ذخائر ہی سے کی جاتی ہے جو کہ اتنی تیزی سے خشک ہورہے ہیں کہ گندم کی کاشت چند ہی سالوں میں رک جائے گی۔ اس صورتحال کا ابتر رخ یہ ہے کہ عالمی آبادی میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر ہفتے تقریباً پندرہ لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اسکے علاوہ بے ترتیب موسم بھی عالمی تباہی کا ایک اہم عنصر ثابت ہو سکتا ہے۔ 2010ء میں ماسکو میں گرمی کے نتیجے میں لاکھوں ٹن اناج کی فصل کا 40% حصہ ضائع ہوگیا تھا۔ اگر خدانخواستہ یہ بھارت، چین یا امریکہ میں ہوتا تو عالمی سطح پر اناج کی پیداوار پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوتے۔ بیشتر ممالک میں غذائی اجزا کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ پینے کے لئے شفاف پانی تک رسائی پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک اور بہت بڑا چیلنج ہے۔ عالمی تنظیم برائے صحت کے مطابق سالانہ بڑی تعداد میں اموات اسہال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کی سب سے اہم وجہ سیلابی علاقوں میں اسہال کا پھیلنا ہے۔ حالانکہ ایسے حالات میں صاف پانی کے حصول کا ایک نہایت آسان اور سستا طریقہ ہے جس سےبہت سے لوگ آگاہ نہیں ہیں اسے سوڈس کہتے ہیں۔ اس کے لئے صرف ایک لیٹر والی پانی کی پلاسٹک کی بوتل اور سورج کی روشنی درکار ہو تی ہے۔ اس قسم کی بوتلوں سے سورج کی (الٹرا وائیلٹ) شعاعیں آر پار ہو جاتی ہیں جو کہ جراثیم کو ختم کردیتی ہیں اور پانی کو پینے کے قابل کر دیتی ہیں اگر پانی مٹیالہ ہے تو اسے باریک کپڑے سے چھان لیں ایک لیٹر بوتلیں زیادہ کارآمد ثابت ہوئی ہیں لیکن دو لیٹر کی بوتلیں بھی اس مقصد کے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ بوتل کو تقریباً چھ گھنٹے کے لئے دھوپ میں رکھیں تو پانی پینے کے قابل ہو جاتا ہے۔ بوتل زیادہ پرانی استعمال شدہ نہ ہو، اور کسی قسم کے لیبل لگے نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ طریقہ WHOکا مستند طریقہ جسے 33ممالک میں استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ہماری حکومت اور سماجی تنظیموں کو چاہئے کہ اس ٹیکنالوجی کو مشہور کریں اور عام لوگوں تک پہنچائیں اس سے کافی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں