حیرت انگیز ایجادات

Tuesday / Jan 10 2017

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

موجودہ دور میں جدید ایجادات اس برق رفتاری سے دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اور یہ ترقی معیشت پر بھی بھرپور انداز میں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ روایتی ٹیکنالوجیاں اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور ان کی جگہ جدید مصنوعات اور عوامل نے لے لی ہیں۔ ان ہی جدید شعبوں کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔ حیاتی ٹیکنالوجی ایک تیزی سے ابھرتا ہوا سائنسی شعبہ ہے جس کا ایک استعمال سنہری چاول کی پیداوار ہے جو کہ ترقی پذیر ممالک کے بچّوں میں حیاتین اے کی کمی کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایک عام تخمینے کے مطابق 122 ممالک میں تقریباً 20 کروڑ بچّے اور 2 کروڑ خواتین حیاتین اے کی کمی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں دس سے بیس لاکھ اموات اور پانچ لاکھ مستقل بینائی ضائع ہونے کے واقعات ہوتے ہیں۔ سوئس اور جرمن سائنسدانوں نے چاولوں کی ایک نئی جینیاتی قسم دریافت کی ہے جسے سنہری چاول کا نام دیا گیا ہے۔ ان چاولوں میں حیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے provitamin A شامل کیا جاتا ہے۔ ان چاولوں کی نئی قسم "Golden Rice 2" میںprovitamin A اس قدر مناسب مقدار میں موجود ہے کہ صرف75 گرام چاولوں کے کھانے سے حیاتین اے کی روزمرہ کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ جینیاتی ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک حیرت انگیز دریافت یہ ہے کہ اب یہ ممکن ہوتا جا رہا ہے کہ فصلیں موسموں کی پابند نہ رہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آم ہمیں صرف گرمیوں ہی کے موسم میں کیوں دستیاب ہوتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پودوں میں ایک طرح کی حیاتی گھڑی ہوتی ہے جو کہ پودوں کو بتاتی ہے کہ کب پھول کھلنے ہیں یا کب پھل دینے ہیں۔ جامعہ پیکنگ اور جامعہ ییل کے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق سے ایک جینDET 1 دریافت ہوا ہے جو کہ پودوں میں موجود حیاتی گھڑیوں کو قابو میں رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ اگر اس حیاتی گھڑی یعنی جین کو سارے سال چلتے رہنے دیا جائے تو موسمی پھل اور فصلیں ہمیں پورے سال دستیاب ہو سکیں گی اور عالمی سطح پر خوراک کی کمی کو پورا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں گی۔ کچھ سائنسدان گہرے سمندر میں رہنے والی جیلی مچھلی اور جگنوؤں میں پایا جانے والا چمک پیدا کرنے والے (luminescence)جین کو پھولوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں یہ خاص پھول بھی اندھیرے میں ویسے ہی چمکتے ہیں جس طرح جگنو چمکتے ہیں۔ اب وہ زمانہ دور نہیں کہ آپ شام کو باغ میں بیٹھے ہوں گے اور چاروں طرف رنگ برنگے پھول روشنی میں جگمگا رہے ہوں گے۔ کچھ سائنسدانوں نے اس چمکنے والے جین کو مکڑیوں کے لحمیات کے ساتھ ملا کر سرطان کے خلیوں کی نشاندہی کا ایک انوکھا طریقہ مرتب کیا ہے۔ یہ جین جسم کے اندر جہاں جہاں سرطان کے خلیئے ہوتے ہیں وہاں چپک کر چمکنے لگتے ہیں جس سے سرجن کے لئے ان خلئیوں کی نشاندہی آسان ہو جاتی ہے۔ ایک اور دریافت میں پولیو وائرس کو اس طرح جینیاتی انجینئیرنگ کے تحت تبدیل کے گیا ہے کہ اس سے جان لیوا دماغ کے سرطان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مچھر تیار کئے گئے ہیں جن میں ملیریا کے خلاف مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ حال ہی میں FDAنے زیکا وائیرس سے مقابلہ کرنے کے لئے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مچھروں کی منظوری دے دی ہے۔ چین نے جینیاتی طور پر ترمیم شدہ گائے بھی بنا لی ہیں جو دودھ ایسا دیتی ہے جو انسانی دودھ سے تقریباً ملتا جلتا ہے۔ موٹاپے کا تعلق بھی جینز سے ہوتا ہے اور اس موٹاپے سے نمٹنے کے لئے جینز کے ذریعے علاج بھی دریافت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح عمر رسیدگی کے عمل کو جینیاتی لحاظ سے سمجھا جا رہا ہے اور اس عمل میں ملوث کئی جینز شناخت بھی کر لئے گئے ہیں۔ اس شعبے میں تحقیق کے دوران کئی ایسے مرکبات دریافت کئے گئے ہیں جو نہ صرف عمر رسیدگی کے عمل کو آہستہ کر دیتے ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر عمر کم بھی کرتے ہیں یعنی بوڑھوں کو دوبارہ جوان کر دیتے ہیں۔ ان مرکبات میں ایک مرکب ہے جو کہ لال انگوروں اور مونگ پھلی میں موجود ہوتا ہے۔ جب اس مرکب کو بوڑھے چوہوں کو دیا گیا تو وہ کم عمر دکھائی دینے لگے اور ان کے جسم کے تمام خدوخال بھی کم عمر چوہوں کے خدوخال میں تبدیل ہو گئے۔ ایک اور مرکب ’’metformin‘‘ جو کہ ذیابطیس کش دوا ہے اسے ’’نوجوانی کا امرت‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مرکب جانوروں میں طویل عمری اور سرطان سے بچاؤ میں کافی مؤثر ثابت ہوا ہے اور اب انسانوں میں اس مرکب کی خصوصیات کی جانچ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ آپ سب جانتے ہیں کہ اگر ایک چھپکلی کی دم کٹ جائے تو وہ کچھ عرصے بعد دوبارہ نکل آتی ہے جبکہ انسانوں میں اگر کسی انسان کا ہاتھ یا پاؤں حادثاتی طور پر کٹ جائے یا ضائع ہو جائے تو وہ انسان زندگی بھر کے لئے معذور ہو جاتا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امریکہ کی جامعہ اسٹیٹ ایریزونا کے محققین نے ابھی حال ہی میں تین جینیاتی سوئچ جنہیں As" "microRN کہتے ہیں دریافت کئے ہیں جو کہ پٹھوں، کارٹیلیج اور ریڑھ کی ہڈی کی پیدائش نو میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سوئچ کھلتے بند ہوتے رہتے ہیں اور چھپکلی کی دم کی پیدائش نو سے منسلک ہوتے ہیں۔ کیا ایسے سوئچ انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور کیا یہ بھی محرک کئے جا سکتے ہیں؟ اس سوال نے نسیج انجینئرنگ کی تحقیق کا ایک اور حیران کن باب کھول دیا ہے۔ ایک اور شعبہ جو کہ اس دنیا کو بالکل تبدیل کر دیگا وہ مصنوعی ذہانت ہے ایک چھوٹی سی ٹوپی ایجاد کی گئی ہے جو کہ ذہنی احکامات کو ایک کمپیوٹر میں پہنچاتی ہے اور اس کے ذریعے اب موٹر گاڑیاں بھی سوچ کے تحت چلائی جا سکتی ہیں۔ اپاہج و مفلوج افراد یہ ٹوپی پہن کر اپنی وہیل چئیر کو دماغی احکامات کے ذریعے چلا سکتے ہیں۔ غرض اب وہ دن زیادہ دور نہیں جب مصنوعی ذہانت انسانی سرگرمیوں کے تمام شعبوں پر قابض ہو جائیگی۔ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق یہ ترقی کرہ ارض پر انسانی بقا کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے ذہین کمپیوٹر ایجاد ہو جائیں گے جو کہ ہم کمزور انسانوں کو کرہ ارض سے مٹا دیں گے۔ غرض آج تعلیم و تحقیق ترقی کے لئے سب سے اہم ترین جز بن گئی ہے۔ اگر ہم ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو اب وقت ہے مستحکم و مضبوط تبدیلی کا جو کہ بصیرت انگیز قیادت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں