شعبہ زراعت میں حیرت انگیز ایجادات

Saturday / Nov 26 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

گزشتہ دنوں میں نے اقوام متحدہ کمیشن کی قائم کردہ جنوب وسطی ایشیائی خطے کے اقوام متحدہ مشاورتی بورڈ برائے سائنس ، ٹیکنالوجی اورجدت طرازی کے اجلاس کی صدارت کی ۔یہ کمیشن62 ممالک کا احاطہ کرتا ہے۔ اس اجلا س میں میں نے اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ وہ ممالک جو سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ کس طرح تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہیں ۔ نئی دریافتوں کی شرح اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے اثرات نہایت حیران کن ہیں۔ مصنوعی ذہانت اور جینیات یہ دو اہم شعبے ہیں جو ہماری زندگیوں پر بھر پور انداز میںاثر انداز ہونگے۔ ان دونوں شعبوں سے مل کر ایک اور نیا شعبہ ’’حیاتی معلومات‘‘ تخلیق ہوا ہے۔ اس شعبے میں حیاتی معلومات کو کمپیوٹر سائنس کے ذریعے ایک جگہ منظم کیا جاتا ہے۔ جینیات میں مستقل تحقیق کی بدولت جانوروں اور پودوں کی جینیات کے بارے میںاب کثیر مواد دستیاب ہے جو کہ جینیاتی معلومات کو مرکوزکرنے کی جدید صلاحیت کی بدولت ہے۔ اس جینیاتی مواد کی مکمل وضاحت کے لئے حیا تی معلومات کو کمپیوٹر سائنس، شماریات، ریاضی اور انجینئرنگ کے امتزاج سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالادریافتوں اور تحقیق کی بدولت ذراعت کا شعبہ سب سے اہم شعبہ ہے جو کہ سب سے زیادہ اثر انداز ہوگا۔ مثال کے طور پر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم آم موسم گرما ہی میں حاصل کرتے ہیں موسم سرما میں کیوں نہیں؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ پودوں اور جانوروں میں کچھ مخصوص جینز ہوتے ہیں جو ان کے حیاتی کیمیائی ، فعلیاتی اور روّ یوںکو دن اور رات میں کنٹرول کرتے ہیں۔انسانوں میں انہیں "cycardian rythms" کہا جاتا ہے۔ اور یہ عام طور پر چوبیس گھنٹے کی گردش میں کام کرتے ہیں۔پودوں میں ضیائی تالیف کا عمل حیاتیاتی گھڑیوںکے تابع ہے۔اسی نظام کی بدولت پودوں کو پتہ ہوتا ہے کہ کب پھول کھلنے ہیں اور کونسا وقت بہتر ہے جب زیادہ سے زیادہ کیڑے ان پھولوں کی جانب متوجہ ہونگے اور ان پودوں کی بہتر افزائش کا سبب بنیں گے۔ اسی طرح ان پودوں کو پھل کب دینے ہیں۔یہ نظام اس طرح مرتب ہے کہ دن کے وقت دن کے جینز متحرک ہو جا تے ہیں اور شام کے وقت شام کےاور دن کے جینز غیر متحرک ہو جاتے ہیں۔ (Yale) کے سائنسدانوں نے اس جین کا نام DET1 رکھا ہے جو پودوں میں اس قسم کے عوامل کا ذمہ دار ہے۔ اس طرح پودوں میں موجود ان حیاتیاتی گھڑیوں پر قابو پانے کے امکانات ہو گئے ہیں اور اب فصلیں بجائے ایک مخصوص موسم کے پورے سال حاصل کی جاسکے گی۔ لہٰذا وہ وقت اب دور نہیں جب ہم آم یا دیگر پھل پورےسال حاصل کر سکیں گے کیونکہ سائنسدان ان حیاتیاتی گھڑیوں کو اپنی خواہش کے مطابق متحرک اور غیرمتحرک کرسکیں گے۔ کرّہ ارض پر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ غذا کا ہے۔ جو کہ پانی کی دستیابی سے براہ راست منسلک ہے ۔موسمیاتی تبدیلی کی بدولت زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہاہے۔ ریگستانوں کا رقبہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے کیونکہ تازے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے کم سے کم زمین کو کاشت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہماری زمین پر پانی کی کو ئی قلت نہیں ہے زمین کا تقریباً دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے یہ سمندری پانی ہے جس میں موجود نمکیات اس پانی کو ناقابل کاشت بنا تے ہیں ۔دو طریقوں سے اس پانی کو قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ سمندری پانی کی نمکیات کو سستے اور موئثر طریقے سے علیحدہ کرکے اس پانی کو غذائی فصلوں کے لئےقابل کاشت بنا یا جائے۔ اس کے لئے ’’معکوس نفوذ عمل‘‘ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طریقے سے نمکین پانی کو ایک مخصوص جھلی سے گزارا جاتا ہے سمندری پانی میں موجود نمکیات جھلی کی ایک جانب ہی رک جاتے ہیں جبکہ نمکیات سے عاری تازہ پانی جھلی کی دوسری جانب آجاتا ہے۔ لیکن اس عمل میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے استعمال ہونےوالی مخصوص جھلی کی قیمت بہت زیادہ ہے اور وہ محدود مدت تک ہی کارآمد رہتی ہے۔ اسکے علاوہ پانی کو پمپ کے ذریعے جھلی میں سے گزارنے کے لئے کافی مقدار میں توانائی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس طرح اس عمل کے اخراجات میں مزید اضافہ ہو جا تا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایک نیا حیران کن مواد سامنے آیا ہے جسے گریفین کہتے ہیں۔ لاک ہیڈ مارٹن کے انجینئروں نے ابھی حا ل ہی میں گریفین پر مبنی سالمیاتی چھاننے کی جھلّی پیٹنٹ کی ہے جسے’’ پر فورین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جھلی سمندری پانی کی نمکیا ت کو 1/100 حصّہ کم توانائی استعمال کر کے غیر نمکین کردیتی ہے یہ زیادہ بہتر طریقے سے نمکیات کو ختم کرنے والا نظام ہے ۔پرفورین اسٹیل سے ایک ہزار گنا مضبوط اور موجودہ استعمال میںسب سے عمدہ معکوس نفوذ عمل کی جھلی سے پانچ سو گنا باریک ہے اسکے علاوہ پانی کی نمکیات کو دور کرنے کےلئے سو گنا کم توانائی درکار ہو تی ہے۔اگر آپ کراچی کے سمندر کے ساحل کے ارد گرد چلیں تو آپ کو طرح طرح کی سمندری گھاس اور پودے لہلہاتے نظر آئینگے۔ چنانچہ دلچسپ تحقیق یہ کی جارہی ہے کہ اس سمندری گھاس اور مین گروومیں کونسا جین پایا جاتا ہے جو انہیں نمک برداشت کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔تاکہ ان جینز کو دوسری فصلوں میں شامل کیا جائے اور ان کی کاشت کے لئے سمندری پانی کو استعمال کیا جا سکے یا پھر ان فصلوں کو تھورزدہ زمین میں بھی اگایا جاسکے۔ اس سمت میں یہ تحقیق جامعہ کراچی کے مرکز برائے جینیاتی تحقیق میں کی جارہی ہے۔عالمی سطح پر پانی کی قلت اور کاشت کے لئے زمین کی عدم دستیابی کی بڑی وجہ بڑھتی ہو ئی آبادی ہے (جو سات ارب سے بھی زیادہ ہے)۔لہٰذا سائنسدان مستقل نئے اور بہتر طریقوں کی تلاش میں کوشاں ہیں کہ غذائی فصلوں کو کس طرح کاشت کیا جائے کہ ان پودوں کی پیداوار کثیر تعداد میں ہو لیکن ان کے لئے کم مقدار میںپانی ، کھاد، غذائی اجزاء،اور کیڑے مار ادویات استعمال ہوں۔جامعہ پارڈے کے محققین نے اس مشکل کا ایک آسان حل تلاش کر لیا ہے،انہوں نے دریافت کیا ہے کہ ایک مخصوص کیمیائی مرکب پودوںکی ساخت چھو ٹی کر دیتا ہے لیکن ان کی پیداواری صلاحیت ویسے ہی برقرار رہتی ہے۔ایک عام پھپھوندی کش دو ا (fungicide) ہے ۔ اس کے استعمال سے مکئی کے پودے چھوٹے اور زیادہ مستحکم ہوجا تے ہیں جو کہ زیادہ خوشے پیدا کرتے ہیں جبکہ پانی ، کھاد، اور غذائی اجزاء کم درکار ہوتے ہیں۔ اس پھپھوندی کش دو ا کو انسانو ںکے استعمال کے لئے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔اس کا چھڑکاؤ گولف کے میدانوں میں فنگل ڈالر اسپاٹ بیماری کے علاج کے لئے کیا جاتا ہے۔گراسولین زرعی پیداوار سے توانائی کے حصول کی ایک اور حیرت انگیز دریافت ہے۔ امریکہ میں امریکی شعبہء زراعت اور شعبہء توانائی کی تحقیق کے مطابق امریکہ سیلیولوزک بائیو ماس سے تیل کی پیداوار کر سکتا ہے۔ یہ سیلیولوزک بائیو ماس ایسی گھاس سے حاصل ہوسکتا ہے جو اس زمین پر اگائی جائے جہاں کو ئی عام غذائی فصل نہیں اگ سکتی۔ سیلیولوز میںکروڑوں گلوکوز کے سالمے ایک زنجیر کی مانند جڑے ہو تے ہیں۔ چیلنج اس میں یہ ہے کہ ان زنجیروں کو توڑ کر چھوٹے ٹکڑوں میںکر دیا جائے اور ان سالموںکے درمیان میں سے آکسیجن کو نکال لیا جائے۔ اس کو بروئے کار لانے کے لئے ایک ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جسے فلیش عمل حرارت کہتے ہیں اس میں سیلیولوز کو پانچ سو ڈگری درجہء سینٹی گریڈ پر تیزی (ایک سیکنڈسے بھی کم عرصے کے لئے) سے گرم کیا جاتا ہے پھر ایک کیٹالٹک عمل کے ذریعے آکسیجن کو نکال کر ایک نئے قسم کا پیٹرولیم ’’گراسولین‘‘ تیار ہو تا ہے۔ کچھ عرصے بعد آپ لوگ گھاس اور پرانے اخبار سے حاصل کردہ پیٹرول سے گاڑی چلا رہے ہوں گے۔اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میںپاکستان کو ضرورت ہے کہ تعلیم، سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کرے تاکہ ایک مضبوط سماجی و اقتصادی ترقی حاصل کر سکے۔ اس انتہائی مہارت کے دور میں یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ ہمارے پاس ہر شعبے کے لئے اعلیٰ درجے کے ماہرین حکومت میں شامل ہوں تاکہ ہم اعلی درجے کی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کی تیاری کی صلاحیتیں پیدا کر سکیں اور ایک مضبوط علمی معیشت قائم کر سکیں۔اس میں تین اہم شراکت داروں، یعنی جامعات و تحقیقی ادارے،حکومتی پالیسیاں ، اور نجی شعبوں میں آپس میں ’’تہرا ملاپ ‘‘ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کاش کہ ہماری حکومت آج کی دنیا میں علم کی اہمیت کو سمجھنے اور ایک تعلیمی ایمرجنسی نافذکرکے تعلیم پر کم از کم GDP کا 4% مختص کرے جس کا پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں