چین پاکستان اقتصادی راہداری ۔ترقی کا سنہری موقع

Saturday / Jul 02 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

چین پاکستان اقتصادی راہداری کا قیام ایک انتہائی اہم قد م ہےاس سے پاکستان کی تقد یر بدل سکتی ہے اگر اسے پیشہ ورانہ طریقے کے سا تھ ایک علم پر مبنی معیشت کا حصہ بنا یا جائے ۔ ابھی حا ل ہی میںــ ــ ’’بیجنگ فورم‘‘ نسٹ(NUST) اسلا م آباد میں منعقد ہوا تھا، جس کا افتتا ح صدر پاکستان نے کیا تھا۔ میں نے اس فورم میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کو علمی راہداری بنا نے پر زور د یا کیو نکہ اس پر و گرام میں بھر پور صلا حیت ہے کہ پاکستانی معیشت پر دیرپا اورپا ئیدار اثرات مر تب کر سکے۔اس طر ح پاکستان کو جد ید صنعتی و زرعی ٹیکنا لو جی جیسے اہم شعبو ں میں مہا ر ت حا صل کر نے کا سنہر ی مو قع مل سکے گا۔CPEC کے پورے پروگرا م میں اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتو ںکے قیا م کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی جا معا ت اور مختلف تکنیکی شعبو ں میں ما ہر ین کی تیا ری کے اداروں کی تعمیربہت ضروری ہے تا کہ اعلیٰ و معیا ری تحقیق و تر بیت اعلیٰ تکنیکی سا ما ن کی تیا ری اور برآمدا ت کیلئے دستیا ب ہو سکے ۔ا س میں انجینئرنگ کا سامان ،دواسازیاور با ئیوٹیک مصنوعات،برقیات ،نینو ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعا ت،روبوٹیکس ،دفا عی مصنو عا ت کی تیا ری ،اعلیٰ منا فع بخش زراعت سمیت نئے مواد شامل ہو نے چا ہئیں۔ اس کیلئے اعلیٰ تر بیتی ادارے قا ئم کر نے کی ضر و رت ہوگی،مو جو دہ جا معا ت کا معیا ر بہتر کر نا ہو گا اطلا قی سائنس اور انجینئرنگ جامعا ت کے قیا م کی ضرورت ہوگی جو کہ اعلیٰ تربیت یافتہ تکنیکی ماہرین فراہم کر سکیں جو مختلف شعبوں سے متعلق اعلی تکنیکی صنعتوں میں مدد کر سکیں گے۔ صنعتی اور علمی اداروںکے درمیان باہمی تعاون کیلئے ٹیکنالوجی پارکوں، کاروباری نرسری کمپنیوں کے حوصلہ افزائی فنڈز کی فراہمی ضروری ہے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کیلئے چین کے نجی شعبوں کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ چینی حکومت کی جانب سے توانائی اور بنیادی ڈھانچہ سازی کیلئے46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ چین کے نجی شعبوں سے اگلے 15 سالوں میں 500ارب ڈالر کی نئی صنعتوں کو قائم کیا جا سکے۔ چین سے معاونت کا بڑاحصّہ توانائی کے میدان میں ہوگا۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت توانائی کے میدان میں کیا پیش رفت ہو رہی ہے اور ہم ان دریافتوںسے کسطرح مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس وقت شمسی توانائی سے حاصل ہونے والی بجلی کے نرخ تین روپے فی کلو واٹ گھنٹہ ہیں جبکہ ہوائی توانائی ٹیکنالوجی کے نرخ مزید کم ہیں۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہم نے حال ہی میں بھا و لپو ر کے قر یب چولستا ن صحرا کیلئے 100میگا واٹ کا شمسی توانائی گھر چینی کمپنی سے 300%سے بھی زائد نرخوں میں حاصل کیا ہے یعنی 10روپے فی کلو واٹ گھنٹہ۔ اسکے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ شمسی گھر 100 میگا واٹ کے بجائے صرف 18 میگاواٹ بجلی فراہم کررہاہے جبکہ ہم نے 100 میگا واٹ کے حساب سے رقم کی ادائیگی کی ہے،اگریہ اطلاعات درست ہیں تو بولی کے عمل میںشفافیت انتہائی مشکو ک ہے۔اور موجودہ حکومت کے اعلیٰ حکام بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔ اگرچینی کمپنی اس دھاندلی میںپاکستانی حکومتی افسران کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے یہ جرم کررہی ہے تو چینی حکومت کواس معاملے کی مکمل چھان بین کرکے اس میں ملوث چینی کمپنی کو مثالی سزا دینی چاہئے اور نیب کو بھی تحقیق کرنی چاہئے کہ یہ سب کیسے ہوا۔پاکستانی حکومت کو توانائی کے نرخ کی ایک شرح کی حد مقرر کرنی چاہئے تھی۔ مثال کے طور پر 3.5 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ اور اس سے زیادہ کی بولی کو منظورہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ کھلی بولی میں ایسے ہی اور قوم کو سخت نقصان اٹھانا پڑ تا ہے ۔یہ سب دھوکہ بازی بولی لگانے والی کمپنیوں کے گٹھ جوڑسے ہو تی ہے جو آپس میں ملے ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر 300-400% زائد بولی لگاتے ہیں اور منافع ملنے پر آپس میں بانٹتے ہیں اور دوسروں کو بھی حصّہ دیتے ہیں۔ مجھے چینی حکومت نے میری پاک چین کے درمیان تحقیقی خدمات کے بل بوتے پر چین کے سب سے بڑے ایوارڈ ’’ دوستی ایوارڈ‘‘ سے نوازاہے۔ مجھے چینی اکادمی برائے سائنسز کی جانب سے خارجہ رکن (Foreign Member) بھی منتخب کیا گیا۔لہٰذا میں اپنی چین کے ساتھ طویل دوستی کے باعث تہہ دل سے محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان چین دوستی دونوں ممالک کیلئے بہت اہم ہے۔ اور دونوں ممالک میں CPEC منصوبے میں بدعنوانی کے امکانات کی روک تھام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چولستان کےصحراء میں UAE کی طرح 5000 میگا واٹ کا شمسی بجلی گھر قائم کرنا چاہئے جو صنعتوں کو بجلی مو جو دہ نر خوں سے25% کم قیمت پر (یعنی 4روپے فی کلو واٹ گھنٹہ)فراہم کرے۔ ہوائی توانائی (Wind power) کے شعبے میں بھی کافی ترقی ہو رہی ہے۔ اور ہوائی توانائی ٹیکنالوجی کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی واقع ہو ئی ہے ۔ 2007سے امریکہ ہوائی توانائی میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کر رہا ہے۔امریکہ میں تمام نئے برقی اضافے( تقریباً33% ) ہوائی توانائی پر مشتمل ہیں۔صرف 2014میںتقریباً 8.3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری 4.9 گیگا واٹ ہوائی توانائی کی وسعت کیلئے کی گئی ہے۔ قومی لیبارٹری کے شعبہ توانائی سے منسلک لارنس بارکیلےکی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی توانائی کی قیمتیں نہایت کم ہو کر اب صرف 2.5روپے فی کلو واٹ گھنٹہ رہ گئی ہیں ۔ یہ صرف ہوائی چکیوں میں نئی ٹیکنالوجیوں کے شامل ہونے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ 2000سے 2002کے دوران جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا تو میں نے ملک میں مختلف مقامات پر 10 میٹر اور 30 میٹر کی بلندیوں پر ہوا کی رفتار کے اعداد و شمار جمع کرنے کیلئے پاکستان کے محکمہ موسمیات کے ذریعے ایک منصوبہ شروع کیا تھا جس کے نتائج چونکا دینے والے تھے۔ سندھ میں ایک بہت بڑی ہوائی راہداری کا انکشاف ہوا جو کیٹی بند ر حیدرآباد اور گھا رو کے علاقے میں ہے اور بلوچستان کے کچھ ساحلی علاقوں کے قریب بھی ہے ۔ یہاں ہوا سے 50,000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایک توانائی کی کمی کے شکار ملک میں یہ ایک ہزار نئے تیل کے کنوؤں کے ذخائر کی دریافت کے مترادف تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم تیزی سے ایک بہت بڑا ہواسے توانائی حا صل کر نے کا منصوبہ تیار کرتے ۔اور نہایت سستی بجلی یعنی 2.5سے 4 روپے فی کلو واٹ کی بجلی عوام کو فراہم کرتے۔ لیکن بدقسمتی سے پورا منصوبہ بدعنوانی کی نذر ہو گیا حتیٰ کہ 100 میگا واٹ کی ہوائی چکیاں تک نصب نہیں کی جا سکیں۔بدعنوان افسروں کی’’ گفت و شنید ‘‘پر نرخوں میںبھی تین گنا اضا فہ کر دیا گیا۔ میں نے حکو مت کو مشورہ بھی دیا تھا کہ غیر ملکی کمپنیوںکے تعاون سے یہ ہوائی چکیاںہمیںاپنے ملک میں بنا کر برآمد بھی کی جائیں یہ تیاری باآسانی بحریہ ڈاکیارڈ اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں ہو جاتی۔ CPEC منصوبے کو جو دو شدید خطرے لاحق ہیں ۔ایک تو یہ کہ چند غیر ملکی ممالک چین کے ساتھ اس اہم قومی منصوبے کو تباہ کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔ اور دہشتگردی کے ذریعے اس کو تباہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ۔دوسرے یہ کہ ہمارے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مل کر بدعنوان کمپنیاں مختلف منصو بوں کیلئے بڑھا چڑھا کر بولیاں لگا ئینگی ۔ CPEC اقدام کو بدعنوانیوں کی نذر ہونے سے بچانے کیلئے ایک حکومت سے آزاد ، پاکستان کے سب سے اعلیٰ پیشہ ور افراد کے گروپ پر مشتمل اور مسلح افواج کے نمائیندوں سمیت مکمل طور پر خود مختار "CPEC Development Authority" قائم کئے جانے کی فو ر ی ضرورت ہے۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں