تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت

Friday / Apr 08 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

عالم اسلامی اور مغربی ممالک میں علمی قابلیت کے فرق کا اندازہ اس حیرتناک اور افسوسناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ 90 نوبل انعامات انگلستان کی صرف ایک ہی جامعہ، جامعہ کیمبرج کے فیکلٹی ممبران کو ملے ہیں اور 32 نوبل انعامات اس جامعہ کے ایک ہی کالج، ٹرینیٹی کالج کے اساتذہ کو ملے ہیں۔اسکے برعکس سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسلامی دنیا کے کسی بھی سائینسدان کو اسکے اسلامی ملک میںرہتے ہوئے تحقیقی خدمات کے سلسلے میں ایک بھی نوبل انعام کبھی نہیں ملا ہے۔ ہم جہالت اورتوہم پرستی کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ گزشتہ مقالے میں میں نے تیزی سے ترقی کی جانب گامزن کچھ ترقی پزیر ممالک کی مثالیں پیش کی تھیں ۔ سنگاپور کا شمار بھی انہیں ممالک میں ہوتا ہے ۔ سنگاپور ایک چھوٹا ساملک ہے جو قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں ہے اور آبادی بھی صرف 50 لاکھ (کراچی کی آبادی کی ایک چوتھائی) ہے لیکن اسکی برآمدات 516 ارب ڈالرہیں جو کہ پاکستان کی جمود کاشکار 23 ارب ڈالرز کی برآمدات سے بائیس گنا زیادہ ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی سنگاپور کی آبادی سے 40 گنا زیادہ ہے اسکا مطلب یہ ہوا کہ فی کس افراد کی بنیاد پر سنگاپور کی برآمدات پاکستان کی برآمدات سے 880 گنا زیادہ ہیں۔ اس شاندار ترقی اور بر آمدات کی بنیادی وجہ معیارِ تعلیم اور حکومتی پالیسیاں ہیں، سنگاپور کی قومی جامعہ (National University of Singapore) کا شماردنیا کے کل جامعاتی بین الاقوامی شمارے کے مطابق بارہویں نمبر پر ہے۔ جبکہ پاکستان کی کسی بھی جامعہ کا شمار دنیا کی چوٹی کی 500 جامعات میں بھی نہیں ہوتا۔2008ء میں میرے بحیثیت چیئرمین اعلیٰ تعلیمی کمیشن اقدامات کی وجہ سے ہماری 5 جامعات کاشما دنیا کی چوٹی کی 300 سے 500 جامعات میں ہو گیا تھا لیکن پچھلی حکومت کی علم دشمنی کی وجہ سے یہ سب واپس کمزور ہو کر رہ گئیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک کم آمدن پیداوار کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں جو کہ بیشتر زرعی معیشت پر منحصر ہے۔ پاکستان کی 60%صنعتیں کپڑا سازی کی صنعتوںپر مشتمل ہیںاور اس کم آمدن صنعت کی برآمدات میں مصروف ہیں جبکہ عالمی منڈی میںمارکیٹ کے اعتبار سے یہ صنعت صرف 6% کی حیثیت رکھتی ہے۔ گزشتہ 50سالوں کی عالمی برآمدات اور مصنوعات سازی کے رجحانات پر ایک عام تجزیئے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرتی وسائل کی برآمدات اور کم ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی برآمدات میں عالمی منڈی میں تیزی سے کمی آئی ہے جبکہ درمیانہ ٹیکنالوجی والی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہو ا ہے۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مصنوعات ہی وہ شعبہ ہے جس میں بے حد منافع ہے اور اسی لئے سنگاپور، فن لینڈ اور آسٹریا جیسے ممالک کی توجہ اس شعبے پر مرکوز ہے۔ گزشتہ تین دہائیوںسے چین کی کامیابی و کامرانی کے پیچھے بھی اعلیٰ ٹیکنالوجی والی مصنوعات کی برآمدات ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی ترقی کے حصول کیلئے مضبوط اورنظریاتی قیادت کی ضرورت ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کے نفاذ کیلئے حکمت عملی کی تیاری اورمستقل تجزیہ کیلئے ادارہ قائم ہونا چاہئے اور باقاعدہ پیش بینی مشقیں اقوام متحدہ سے منظور شدہ اطوار، ’’ڈیلفی‘‘ کے مطابق مستقل بنیادوں پر منعقد کرنی چاہئیں۔ ان حکمت عملیوںمیں ملک کی تمام وزارتوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ اس پورے عمل میں مکمل طور پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونی چاہئے اور مسلسل طویل المدتی عمل برقرار رکھنے کیلئے تمام متعلقین، جن میں معاشرے کے خاص افراد، غیرسرکاری تنظیمیں، نجی شعبہ جات،اور موضوع کے ماہرین کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ 2004ء سے 2006ء کے دوران ایک حکمت عملی اور عملی پلان میری سرپرستی میںچوٹی کے ماہرین کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا جسے اگست 2007ء میںکابینہ نے منظور بھی کیا تھا۔ اس مسودے میں ان تمام کلیدی اقدامات کا ذکر ہے جن کےذریعے پاکستان علم پر مبنی معیشت میں منتقل ہو سکتا ہے مگر صد افسوس کہ اس پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اس کے نفاذکیلئے انتہائی ضروری ہے کہ قومی ترقیاتی منصوبوں میں ان سائنس ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کی پالیسیوں کیلئے مناسب فنڈز مختص کئے جائیں جس میں ایک بڑی رقم تحقیق و ترقی (R&D) کیلئے مختص کی جائے جوملکی مجموعی پیداواری صلاحیت کا کم از کم 2% حصّہ ہو۔ علم پر مبنی معیشت کا سب سے اہم عنصراس کے معیاری تعلیم یافتہ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس کارندے ہوتے ہیں۔لہٰذا اسکولوں ، کالجوں ، اور جامعات کا تعلیمی معیار اور تعلیمی نظام میںانقلابی تبدیلیاں لانے کی اشدضرورت ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ طلباء میں مسائل کو حل کرنے کی مہارت ، جدت طرازی اور تنقیدی سوچ اجاگر کی جائے۔ بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی پر زور دیا جائے۔ اس کیلئے ہماری حکومت کو معیاری تعلیم کی فراہمی اور امتحانی نظام کے انداز میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ موجودہ نظام تعلیم رٹ کر پاس ہونے کی ترغیب دیتا ہے اور مسائل کے حل تلاش کرنے پر بہت کم توجہ دیتا ہے۔ ہمیں کم از کم اپنی GDP کا 6% حصّہ تعلیم کیلئے مختص کرنا چاہئے جس کا ایک چوتھائی حصّہ اعلیٰ تعلیمی شعبے کیلئے مختص کیا جائے۔ یہ قدم عالمی معیار کے تحقیقی اداروں کے قیام اور اعلیٰ معیار کے پیشہ ور افراد (سائنسدان اور انجینئر) اور تکنیکی تربیت یافتہ افرادی قوت کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہوگا۔اس طرح معیاری ماہر اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس تحقیق و ترقی (R&D) سے وابستہ افراد مناسب تعداد میں مہیا ہو سکیں گے۔ ان کی تعداد تقریباً 2500 سے 3000افرا دفی دس لاکھ آبادی ہونی چاہئے تاکہ یہ دیرپا ترقی کا سبب بن سکیں۔ اسی طرح ملک کے نجی شعبوں کاعلمی معیشت کے قیام میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان کو اہم نجی شعبوں کو فروغ دینے کیلئے مناسب منصوبہ بندی، صنعتی حلقوں میں سرمایہ کاری اور ترغیبات پر زور دینا چاہئے۔ حکومت کو اعلیٰ تکنیکی صنعتوں سے وابستہ نجی کمپنیوں سے کاروباری معاہدے کرنے چاہئیں تاکہ ان کو فروغ دیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ صنعتی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے اندرونی اور بیرونی علمی افراد کو متعین کرے جن میں انتہائی ہنرمند مشیر انتظامی امورشامل ہوں، نجی شعبوں میں تکنیکی ماہرین کی ملازمت کے دوران تربیت کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور تحقیق و ترقی (R&D)اور عملی تجزیئے کیلئے سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ علمی صنعتی گروپ بنائے جائیں تاکہ مثبت باہمی اشتراک اور کارآمد علم باہمی تعاون سے استعمال ہو سکے۔ یہاںان اقدامات کی دو مثالیں پیش ہیں جو میں نے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں 2001ءمیں لئے تھے۔ اس وقت ٹیلی مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی اسی وزارت کا حصّہ تھیں۔ 2001ء میں ملک بھر میں صرف تین لاکھ موبائل فونز تھے۔ ان دنوں کال موصول ہونے والے کو بھی اسکا معاوضہ دینا پڑتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ عام آدمی موبائل فونز رکھنے سے کتراتا تھا ۔تو ہم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ صرف کال کرنے والے ہی کو معاوضہ دینا پڑے۔اسکے علاوہ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ یو فون (پی ٹی سی ایل کا ذیلی ادارہ) کو شروع کیا جائے تاکہ مقابلے میں یہ نئی کمپنی آئے اور کالوں کے نرخوں میں کمی آسکے ۔اس قدم کے نتائج نہایت شاندار سامنے آئے اورپاکستان بھر میں 2001ء میں موجود تین لاکھ موبائل فونز کی تعداد میں شدّت سے اضافہ ہوا اور آج ملک بھر میں 15کروڑسے زائد موبائل فونز ہیں اور قومی معیشت کا یہ سب سے تیز بڑھنے والا کاروبار ثابت ہوا ہے۔ دوسرا اہم فیصلہ تھا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اضافہ کرنا،جس کیلئے بہت سی جامعات میں آئی ٹی کے ادارے قائم کئے گئے۔ اس شعبے کو فروغ دینے کیلئے80کروڑ کی موقوفات (endowments) وقف کی گئیں اور 2000 سے زائد طلباء کو کمپیوٹر سائنس اور اس سے ملحقہ مضامین میں پی ایچ ڈی کیلئے بیرون ملک بھیجا گیا ۔ آئی ٹی کی صنعت کو پندرہ سالہ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی جس کی میعاد اس سال ختم ہو جائیگی۔ اسکے نتیجہ میں 10اگست2015ء میں نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوئے ایک مقالے کے مطابق 2001ء میں پاکستان میں اس شعبے سے نہایت کم آمدنی یعنی صرف تین کروڑ ڈالرموصول ہوتی تھی اوراب اسکی آمدنی بہت شاندارطریقے سے بڑھ کر 2.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ فری لانس پروگرامرز کی مد میں پاکستان کی سالانہ آمدنی 85 کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے جس نے پاکستان کواس میدان میں امریکہ اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ دو مثالیں صاف ظاہر کرتی ہیں کہ کس طرح صحیح حکومتی پالیسیاں ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ پاکستان کو اگر بڑھنا ہے تو ایک قومی ایمرجنسی لگانی ہوگی تاکہ ہماری قوم اپنا سارا زور تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی طرف لگائے اور ایسی نئی صنعتیں قائم کی جائیں جیسا کہ سنگاپور اور کوریا نے کیا ہے تاکہ ہم غربت کے شکنجے سے آزاد ہو سکیں۔ کیا کوئی ہےایسا موجودہ حکومت میں جو ان باتوں کو سمجھ سکے؟


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں