سماجی و اقتصادی ترقی میں جدت طرازی کا کردار

Friday / Apr 01 2016

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں جدت طرازی ایک اہم عنصر کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ جدت طرازی اب صرف ترقی یافتہ ممالک ہی کا استحقاق نہیں رہ گئی بلکہ کچھ ترقی پزیر ممالک نے بھی قومی ترقیاتی منصوبوں اور اقتصادی ترقی کی حکمت عملی کیلئے جدت طرازی پر مبنی ترقی کو ترجیحی بنیادوں پراپنایا ہے اور وہ اب اس سرمایہ کاری کا پھل کھا رہے ہیں۔ اس علم کی دنیا میں ترقی پزیر ممالک کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی پروگراموں میں جدّت طرازی کو اولین ترجیح دیں اور قدرتی وسائل پر مبنی معیشت کو جدّت طرازی سے آراستہ نظام میں منتقلی کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ متحرک جدت طراز پالیسیوں اور مضبوط جدت طراز بنیادی ڈھانچے کے قیام کیلئے معیاری افرادی قوت پر مشتمل جدت طرازی نظام کا مربوط تانابانا بننا نہایت ضروری ہے۔ اس نظام میں معلوماتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجیاں اہم کردار ادا کرتی ہیںبالخصوص نجی شعبوں سے متعلق قابل افراد، علمی نیٹ ورک اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں اعلیٰ مصنوعات کی پیداوار کا ذریعہ بنتی ہیں اور قومی معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ایک جدّت طراز ماحول کا اہم عنصر اسکے پیشہ ور افراد کا معیار تعلیم ہوتا ہے اس کا اندازہ اس ملک میں رائج تعلیم کے معیار سے، تحقیقی سطح سے (کہ کس درجے کے تحقیقی جریدوں میں مقالے چھپے ہیں) ، جامعات کی عالمی فہرست میں مقام سے اور کتنے عالمی پیٹنٹ اندرون ملک تحقیق کے نتیجے میں عمل میں آئے ہیں، سے ظاہر ہوتاہے ۔ عا لمی جدت طرازی شمارے 2015 کے مطابق دنیا میں 11 ترقی پزیرممالک ایسے ہیںجنہوں نے 2011ء سے 2014ء کے دوران مجموعی طور پر جدت طرازی شمارے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جن میں آرمینا، چین، جورجیا، بھارت، اردن، کینیا، ملائیشیا، جمہوریہ مالدوو، منگولیا، یوگنڈا، اور ویت نام شامل ہیں۔ یہ ممالک جدّت طراز پالیسیوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور یہ سرمایہ کاری انکے کلیدی شعبوں میں ترقی کا سبب بن رہی ہے۔ جدت طرازی صرف اقتصادی ترقی ہی تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ آبادی کو درپیش صحت، ماحول ، او ر رو زگار کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جامع اور پائیدار سماجی و اقتصادی جدت طرا ز پالیسیوں کوفروغ دینا چاہئے۔ جدت طرازی کو فروغ دینے کیلئے مندرجہ ذیل نکات پرعملدرآمد کرنا ضروری ہے۔ 1 ۔اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی صنعتوں پر بالخصوص جدت طرازی کو فروغ دینا چاہئے ۔ 2۔ صنعتی ترقی کے تمام مراحل اور تمام شعبوں میں جدت طرازی کو فروغ دینا چاہئے تاکہ ملک کم آمدنی مصنوعات کی پیداوار سے ہٹ کر زیادہ آمدنی مصنوعات کی پیداوار کی جانب قدم بڑھا سکے۔ 3۔عالمی معیار کا آئی سی ٹی ڈھانچہ قائم کرنا چاہئے تاکہ ڈیجیٹل معلومات تک فوری رسائی ہو سکے اور ای کامرس کو فروغ حاصل ہو سکے۔ 4۔ملکی سطح پر جدت طراز ادارے قائم کی جائیں جو کہ ملک کیلئے مضبوط اور متحرک جدت طراز کا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں ایسے ادارے ایجنسیاں کینیا، بھارت، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ویتنام میں قائم کئےگئے ہیں۔ 5۔ایک مؤثر ٹیکس ، تجارت اور سرمایہ کاری کا ماحول تشکیل دیا جائے تاکہ جدت طرازی کو فروغ حاصل ہو ،نیا کاروبار شروع کرنے والی کمپنیوں کو قرضوں کی سہولت ہو، تکنیکی پارکوں میں کلیدی شعبوں کی موجودگی اور ان پارکوں میں مالیاتی اور قانونی مسائل میں رہنمائی فراہم کی جائے ۔ 6 ۔ تعطل کا شکار نئی ٹیکنالوجیوں کے فروغ کیلئے تحقیق و ترقی فنڈز تک آسان رسائی کا نظام مرتب کیا جائے تاکہ نئے خیالات پروان چڑھ سکیں۔ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ترقی پزیر ممالک نے بڑی تعداد میں ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ ان سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ مثلاً چین کی شاندار اقتصادی ترقی کا دارومدار سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر وسیع پیمانے میں سرمایہ کاری پر ہے۔2006ء کا قومی منصوبہ برائے چین (جو2006ء سے2020ء کی مدت پر محیط ہے) اس میں سائنس وٹیکنالوجی اداروں کو مضبوط کرنے اور جدت طرازی کے بل بوتے پر اقتصادی ترقی کو مضبوط کرنے پر بھر پور زور دیا گیا ہے۔ اسی طرح بیرون ممالک بالخصوص امریکہ سے ہنرمند افراد کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے چین نے ایک پروگرام ’ہزار ہنرمند بھر تی پروگرام وضع کیا ہے جس کے تحت اعلیٰ تنخواہوں اور تحقیقی ترغیبات کی بنیادوں پر اب تک 2000 سے زائد پیشہ ور افراد چین واپس آچکے ہیں۔ دوسری بہترین مثال بھارت کی ہے جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی میںمعیاری پیشہ ور افراد کی پیداواراور اعلیٰ تعلیمی معیاری اداروں میں سرمایہ کاری اس کی معیشت میںاضافہ کررہی ہے ۔ مثال کے طور پر آئی کے شعبے ہی کو لے لیں ، اس صنعت نے سالانہ147 ارب امریکی ڈالر کی آمدنی کی حد کو بھی پار کر لیا ہے (جس میں99 ارب امریکی ڈالر برآمدات اور 48ارب امریکی ڈالر ملکی آمدنی شامل ہے)۔ غرض بھارت کی کل سالانہ GDP کا 13% اس صنعت سے آمدنی پر مشتمل ہے۔ اسی طرح بھارت نے ادویات سازی کی صنعت اور حیاتیاتی ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں بھی بڑی تیزی سے پیش رفت کی ہے۔ وجہ صرف اور صرف اعلیٰ و معیاری افرادی قوت کی ملک میں موجودگی اور سمجھدار صنعتی اور جدت طراز پالیسیاں ہیں ۔ ایک اور دلچسپ مثال ملا ئیشیا کی ہے کہ کیسے جدت طراز پالیسیاں ملکی ترقی کیلئے کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ ملائیشیانے 1988ء میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی (Ministry of Science and Technology, MOSTI) کے تحت جامعات اور دیگر اداروں میں تحقیق و ترقی کو فروغ دینے کیلئے ’’ ترجیحی شعبوں میں ترقی کی ضرورت ‘‘ (Intensification of Research in Priority Areas ) پرپروگرام کا آغاز کیا پھر نجی داروں میں تحقیق و ترقی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ملائیشیا کی حکومت نے 1977میں ’’ صنعتی تحقیق و ترقی گرانٹ اسکیم‘‘ کا آغاز کیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب اعلی ٰتکنیکی مصنوعات کی پیداوار ملائیشیا کی ترقی کا کلیدی ستون بن گئی ہے، اور شاندارترقی کی ضامن بھی۔ آج عالم اسلام کی اعلٰی تکنیکی مصنوعات کا 87% حصّہ اکیلا ملائیشیا برآمد کرتا ہے بقیہ 13% برآمدات 56 تنظیم مملکت اسلامیہ کے رکن ممالک(OIC Member States) کرتے ہیںجس میں انڈونیشیا کی اعلیٰ تکنیکی برآمدات 6% ہیں اور صرف 7% اعلیٰ تکنیکی برآمدات بقیہ 55 تنظیم مملکت اسلامیہ کے رکن ممالک (جن میں ممالک مثلاً ترکی، ایران، سعودی عرب، پاکستان اور کویت شامل ہیں) کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ملائیشیا نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کا دیگر اہم اداروں مثلاً ملائیشین صنعت و حکومت گروپ برائے اعلیٰ ٹیکنالوجی ، ملٹی میڈیا ترقیاتی کارپوریشن ، قومی سائنسی تحقیقی کونسل اور پانچ تحقیقی جامعات کے ساتھ باہمی تعاون ہے ۔ ملائیشیا کی سب سے بڑی جامعہ ، جامعہ ٹیکنالوجی مارا میں میرے نام پر ’’ عطاء الرّحمن تحقیقی ادارہ برائے قدرتی مصنوعات کا قائم ہونا اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ ملائیشیا نئے شعبوں میں تحقیق کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ تا ہم اب بھی ملائیشیا غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے جو کہ اسکی رائلٹیز اور لائسنس فیس اداکرنے میں خسارے سے اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ملائیشیا کو ٹیکنالوجی برآمد کرنے والا ملک ہوجا نا چاہئے تھا۔ جدت طرازی ماحول مرتب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ترقی پزیر ممالک کے رہنماؤں اور منصوبہ سازوں کو اسکی سمجھ ہو اس کیلئے تمام کاروبار سے منسلک لوگوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے منسلکہ شعبوں میں مختلف جدت طراز اسکیمیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو مندرجہ بالا مثالوں سے سیکھنا چاہئے اور سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے مرکوز لائحہِ عمل اختیار کرنا چاہئے جس سے آزادانہ فنڈ حاصل ہو تاکہ ہم بھی جدت طرازی پر مبنی مضبوط علمی معیشت کی جانب گامزن ہو سکیں۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں