سائنس کی حیرت انگیز دنیا

Sunday / Feb 15 2015

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

سائنس کے میدان میں جو حیرت انگیز ترقی ہو رہی ہے وہ ایک زمانے کے جادو بھرے قصے کہانیوں سے کم نہیں۔ ان نئی دریافتوں کی وجہ سے اربوں ڈالر مالیت کی کمپنیاں قائم ہو رہی ہیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔پاکستان کے لئے یہ بہت اہم ہے کہ جو علم پر مبنی معیشت قائم کرنے کے لئے میری نگرانی میں 310صفحات پر مشتمل مسوّدہ تیّار کیا گیا تھا اور جسے ہماری کابینہ نے 30 اگست 2007؁ء میں منظور کیا تھا اس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے ۔ دنیا میں کس طریقے کی نئی نئی دریافتیں ہو رہی ہیں جو کہ بڑی بڑی صنعتوں کی بنیاد بن رہی ہیں ان کی کچھ مثالیں میں یہاں پیش کرتا ہوں۔ تین ارب موتیوں والے ایک طویل ہار کا تصور کریں۔یہ بھی تصّور کریںکہ یہ موتی چار رنگوں کے ہیں۔چار رنگوں کے موتی دراصل چار مختلف سالموں کی نمائندگی کرتے ہیںجن کو نیو کلیو ٹائڈ کہا جاتا ہے۔یہ زندگی کی تحریر یانقشہ ہے ۔ ان سالموں کی ترتیب ہمارے اندر ہر شے کا تعین کرتی ہے ۔ خواہ وہ آپ کی آنکھ کا رنگ ہو،یا آپ کے اعضاء کی ساخت ہو ۔تصور کریں کہ اس طویل ہار کی دو مختلف لڑیاں ہیں جوکہ ایک دوسرے سے ایک خاص طاقت (ہائڈروجن بانڈ) کی مدد سے اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ یہ ایک لمبی بل کھاتی ہوئی سیڑھی کی شکل میں نظر آتی ہیں(جوکہ اب ڈی این اے کی جانی پہچانی شکل ( DNA Double Helical Strand) ہے۔ جب خلئے کی تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے تو یہ بل کھاتی ہوئی سیڑھی30000چکر فی منٹ کی ناقابل یقین رفتار کے ساتھ کھلتی ہے -یہ رفتارکسی ہوائی جہاز کے جیٹ انجن کی رفتار سے بھی کہیںزیادہ تیز ہے ۔ اس طرح دوجڑی ہوئی لڑیاں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتی ہیں اور ایسی ہی نئی اضافی لڑیا ں بن جاتی ہیں۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک ہار کے دو ہار بن جاتے ہیں ۔ یہ عمل ہمارے خلیوں میں ہر لمحہ ہورہا ہوتا ہے ۔یہ سالماتی جیٹ انجنز بڑی خاموشی سے ہمارے جسم میں اسی سبک رفتاری سے مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں ۔ یہ تمام کارروائی ہمارے جسم کے درجہ حرارت پر ہوتی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔یہ زندگی سے منسلک معجزوں کا ایک حیرت انگیزنمونہ ہے۔ پہلے انسانی جنیوم کی مکمل ترتیب بندی میںدوسو کروڑ روپیہ کی لاگت آئی اور اس کو کئی سال کی کوششوں کے بعد مئی2006میں مکمل کیا گیا ۔اس کے ابتدائی خاکے کا اعلان امریکہ کے صدر نے 2003 میں کیا تھا۔یہ13سالہ طویل کاوشوںکے بعد ممکن ہواتھا۔ ترتیب بندی کی ٹیکنالوجی میں رونما ہونے والی ناقابل یقین تیزترقی کی وجہ سے چند سال قبل جیمس واٹسن کے پورے جینوم کی ترتیب بندی محض دوماہ کے عرصے میں مکمل کی گئی جس میں د س کروڑ روپے کی لاگت آئی ۔اب ایسی مشینیں تیارہو گئی ہیں جس کے ذریعے یہ کام دس روز کے اندر چند لاکھ روپے میں مکمل ہوجاتا ہے۔اسکے ذریعے انسانی جسم میں موجوداور متوقع بیماریوں کی مکمل اطلاعات مل جاتی ہیں اور اس حوالے سے احتیاطی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ۔پاکستان میں صرف ایک ہی ادارہ ہے جس میں یہ مشین نصب ہے۔ یہ کراچی یونیورسٹی میں واقع جمیل الّرحمٰن مرکز برائے جینیاتی تحقیق ہےمصنوعی طور پر خلیوں کی تعمیرکے حوالے سے بھی قابل ذکرپیش رفت ہوئی ہے۔ امریکہ میں ہونے والی تحقیق کے بارے میں تین سال قبل ’’سائنس میگزین‘‘ نے پورے بیکٹیریائی جینوم کی تیاری کی خبر دی۔ کیاخلیوں کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ہزاروں سال تک اپنی نئی پود بناتے رہیں ؟بے شک ایسا ممکن ہے! اس کی ایک چونکا دینے والی مثال HeLa خلیات ہیں،ان کو یہ نام اس لئے دیا گیا کہ 1951میںامریکی خاتون Lacks Henrietta کی گردن سے لیے گئے تھے۔ان خاتون کی موت گردن کے کینسر کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان کی موت کے باوجود یہ خلیات زندہ تھے اور حرکت میں تھے۔ یہ خلیات آج تک عام استعمال میں ہیں اور ان سے پوری دنیا میں50ملین میٹرک ٹن زندہ خلیات تجربہ گاہوں میںبنائے جا چکے ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہوئے مختلف موضوعات مثلاً عمررسیدگی ،کینسر، ملیریا وغیرہ پر تحقیق کی جارہی ہے۔ ان خلیات کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسرے کینسر خلیات کے مقابلے میں غیر معمولی رفتار سے تقسیم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دوسری اقسام کے کینسر زدہ خلیات کی تحقیق میں انتہائی کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔پاکستان میں دماغی سائنس کے میدان میں اہم تحقیق کراچی یونیورسٹی میں واقع بین الاقوامی ادارہ برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز میںہو رہی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک جڑی بوٹی سے ایک ایسا مرکّب دریافت ہوا ہے جو مرگی کے مرض میں استعمال کیا جا سکتا ہے یہ تحقیق میرے اور پروفیسر اقبال چوہدری کی نگرانی میں ہمارے پی ایچ ڈی کے طلباء اور دیگر ساتھیوں نے کی ہے اور اس کے نتیجے میں امریکہ میں پیٹنٹ (Patent) بھی حاصل کیا جا چکا ہے۔ہم نے جگنوؤں کو اندھیرے میں چمکتے ہوئے دیکھا ہے یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس میں ایک مرکب Luciferin کا عمل دخل ہوتاہے۔ یہآکسیجن کے ساتھ ملتی ہے جس سے روشنی کا اخراج عمل میں آتا ہے۔یہی طریقہ سمندر میں پائی جانے والی جیلی فش میں ہوتا ہے جو سمندر کی ایک خاص گہرائی میں اندھیرے میں رہتی ہیں اور ایک خاص وقفے سے روشنی کی چمک پیداکرتی ہیں۔ اسرائیل کے بعض سائنس دانوں نے Luciferin پیدا کرنے والے جین کی پھولوں میں پیوند کاری کی ہے۔ اس تجربہ کے نتیجے میں چمکدار Orchidکے پھول حاصل ہوئے جو اندھیرے میں جگنو ؤں کی طرح چمکتے ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں جب آپ کے گھر کا باغ جگنوئوں کی طرح روشنی خارج کرنے والے پھولوں سے روشن ہوگا ۔یہ سائنس کی عجیب و غریب دنیا کا ایک اور کارنامہ ہے۔جہاں دماغ کے کیمیائی عمل کا ذکر ہو رہا ہو وہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خوراک حافظے کو بہتر بناسکتی ہے؟نیشنل اکیڈمی آف سائنس امریکہ کے سائنس دانوںکی تحقیق کے مطابق جب60سال کی اوسط عمر کے ایک گروہ کوخوراک میں ان کی عام خوراک سے 30فی صد کم ہرارے (Calories) دئیے گئے تو انہوں نے حافظے کے امتحان میں 20فی صد بہتر کار کردگی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ امتحان کے دنوں میں احتیاط کریں ۔ کم کھانا آپ کو امتحان میں بہتر نمبردلوا سکتاہے! 60کی دہائی میں میرے پاس کتوں کا ایک جوڑا تھا۔ پڑوس میں رہنے والی ایک جنگلی بلی ان کومسلسل پریشان کرتی تھی۔ ایک دن میں نے بلی کو پکڑواکر اور کپڑے کے تھیلے میں بند کرکے گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر کراچی میں شہر کے مختلف مقامات پر سفر کرتے ہوئے ایک دور دراز مقام پر ہاکس بے کے نزدیک اُس بلی کوچھوڑ دیا۔مگر اس وقت میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب اگلے روز میں نے دیکھا کہ وہی بلی بہ حفاظت ہمارے گھرواپس آچکی تھی ۔ بعض جانوروں کے اندر اپنا راستہ پہچاننے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے ان میں چوہے اور موش نما (Hamsters)شامل ہیں۔کسی سنہری موش نما کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مسلسل گردش کرتے ہوئے اس کو کہیںچھوڑ دیں ۔یہ انتہائی آسانی سے اپنے اصل مقام پرواپس لوٹ آئے گا ۔ہنس، مینڈک اور مچھلی کے اندر بھی یہ صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔اس حس کے ذریعے بہت سے جانور اپنا راستہ بہت آسانی سے تلاش کرلیتے ہیں ۔ ہزاروں میل ہجرت کرنے والے کچھ پرندے زمین کی مقناطیسی کشش کواپنے سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بعض جانور مثلا ًچوہے،بندر،اور گولڈفش کے دماغ میں خاص قسم کے دماغی خلئے ہوتے ہیں جن کی مدد سے وہ فاصلے اور سمت کا حیران کن حدتک درست اندازہ لگاتے ہیں۔ایک پرندہ بحری ابابیل قطب شمالی پر اپنی پیدائش کے مقام سے ستر ہزار کلو میٹر کا سفر کرکے سردیوں کے لئے رہنے کی جگہ تلاش کرتا ہے ۔ اگر چہ اس کا وزن تقریباسو گرام ہوتاہے یہ اپنی پوری زندگی کے دوران4.2ملین کلومیٹر سفرطے کرتا ہے ۔یہ وہ فاصلہ ہے جس میں آپ چاند کے گرد تین چکر لگاکر آسکتے ہیں۔ یہ پرندہ اپنی غیر معمولی قوت اور سفری صلاحیت کو استعمال کرتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پٹھے بنانا کس قدر مشکل ہے۔ اس ورزش میں سالوں لگ جاتے ہیں۔نیدر لینڈ کی ایک یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بایئو انجینئرنگ کی مدد سے خون کی شریانوںکے ساتھ پٹھوں کو بنانے کا طریقہ ایجاد کرلیاہے۔اس حوالے سے کی جانے والی کوششیں اب تک ناکام رہی تھیں کیوں کہ نئے بنائے جانے والے ٹشوز بکھر جاتے تھے۔یہ ٹیم دوسروں کے مقابلے میں اس لئے کامیاب رہی کہ اس نے ریشہ کی افزائش کے لئے خون کی نالیوں کے خلیات اور اسٹیم سیل کا استعمال کیا ہے۔ مسلز کی ایک یکساں سمت میںترتیب کا مسئلہ اس طرح حل کیا گیا کہ velcroکا استعمال کرتے ہوئے ریشے کے ٹکڑوں کو سختی سے باندھ دیا گیا۔افزائشی عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ نے پٹّھوں اور خون کی نالیوں کو بے ترتیب جڑنے کے بجائے ایک قطار میں جوڑ دیا۔سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ اس طریقے کا اطلاق ان مریضوں پر بھی کریں جن کے اعضاء حادثہ، زخم یا کینسر کے آپریشن کے نتیجے میں ضائع ہو جاتے ہیں۔پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے تو یہ ہمارے لئے ناگزیر کہ ہم اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل تعلیم اور خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی پر مرکوز کریں۔ وہ وعد ے جو وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے کئے تھے کہ قومی منصوبوں میں تعلیم کو اعلیٰ ترجیح دیں گے وہ افسوس صد افسوس کہاں گئے؟


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں