ایک مختلف جمہوریت

Friday / Jun 27 2014

Newspaper : The Daily Jung (اردو)

پاکستان میں جمہوریت پے در پے کیوں ناکام ہوتی رہی جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اس کی کارکردگی کافی بہتر رہی؟ بدعنوان سیاستدان ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ فوج کی بارہا مداخلت کی بدولت جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں ملا،یہ صرف دھوکہ ہے۔ فوجی مداخلت یا تو بدترین بدعنوانی کو روکنے کے لئے جلد بازی میں عمل میں آئی یا پھر جمہوری حکومتوں کی خودکُشانہ حرکتوں کی وجہ سے عمل میں آئی (مثلاً پاکستان آرمی چیف کے جہاز کو اپنے ہی ملک کی سر زمین پر اترنے کی اجازت نہ دینا)۔ دراصل ہمارے ملک میں جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں وہ تو صرف’’ feudocracy‘‘ (جاگیرداریت) آئی جس میں پارلیمنٹ پر جاگیرداروں کا تسلط قائم رہا۔ جواہر لال نہرو کی بدولت بھارت میں متوسط طبقے کی مضبوطی کیلئے مستند اصلاحات اراضی (Genuine land reforms ) کی بنیادڈالی گئی۔ آج بھارت میں غربت دور ہوتی جا رہی ہے اور متوسط طبقے کی آبادی کی شرح کل آبادی کا 30% حصّے تک پہنچ گئی ہے اور اس میں سالانہ 1% کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں غربت مسلسل بڑھ رہی ہے اور اب متوسّط طبقے کی آبادی کی شرح کل آبادی کا صرف10% حصّہ رہ گیاہے۔ کچھ یہی عمل سپریم کورٹ بنگلہ دیش نے آزادی کے فوری بعد دہرایا اور اصلاحات اراضی کو ملک میں نافذ کیا۔ جو جمہوریت بھارت میں قائم ہوئی اس نے تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کو اوّلین ترجیح دی یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کی آئی ٹی کی صنعتی پیداوار 44ارب ڈالر سالانہ ہے اور حیاتی ٹیکنالوجی کی برآمدات بھی اسی نقشِ قدم پربڑھ رہی ہیں۔آج بھارتی دواساز صنعت کے مختلف شعبوں میں بنیادی سامان کی تیّاری کی طرف بڑھتا ہوا رجحان کئی ممالک کی نظروں میں رشک سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت بجلی کی پیداوار کیلئے اپنی ہوائی چکّیاں خود تیّار کرتاہے، جوہری توانائی پلانٹس بھی غیر ملکی مدد کے بغیر تیّار کرتا ہے۔ اس کی اپنی مضبوط گاڑی سازی کی صنعت ہے (ہماری طرح صرف گاڑیوں کے پرزے جوڑنے کی صنعت نہیں) اور لاتعداد اقسام کی دیگر اشیاء شمسی پینل سے لے کر برّی جہازسازی تک، ٹرین کے انجنوں سے لے کر مال بردار طیّاروں تک بھارت میں تیّار ہوتی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بھارت سے آئی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بڑے فخر سے بیان کیا کہ سائنس کے لئے فنڈز لینا ان کے لئے کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ۔پاکستان میں سائنس کو مستقل نظر انداز کیا گیاہے اور اب بھی موجودہ حکومت اس اہم ترین شعبے کو نظرانداز کر رہی ہے۔ دراصل علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کا تصوّر ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں کبھی نہیں رہا۔ سائنسی ادارے جیسے تیسے چل رہے ہیں اور ہمارے بہت سے اسکول جوہری تباہی کا سامنظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ 2003 ء سے 2008 ء کا دور پاکستان میں مختصر لیکن اعلیٰ تعلیمی شعبے میں شاندار ترقی کا دور تھا جب پاکستان کی بین الاقوامی تحقیقی اشاعت بھارت کی فی ارب آبادی کے تناسب سے زیادہ ہوگئی تھیں (2000ء میں 700 تحقیقی مقالے فی سال سے 2013ء میں9000 تحقیقی مقالے فی سال تک پہنچ گئیں) اس نے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع کر دیں (بھارتی وزیراعظم کو 2003ء سے 2006ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں بے پناہ ترقی پر ایک مکمل رپورٹ دکھائی گئی۔ اس رپورٹ کو نیہا مہتا نے’ہندوستان ٹائمز ‘ میں 23 جولائی 2006ء میں’ بھارتی سائنس کو پاکستان سے خطرہ ‘("Pak Threat to Indian Science") کی سرخی سے شائع کیا صدر پرویز مشرف کے بعد آنے والی ’مستحکم جمہوریت‘ نے اپنے تئیں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں اور اس کوشش میں اس وقت مزید تیزی آگئی جب جعلی ڈگریوں کے حامل دو سو پارلیمانی اراکین بھی اس مہم میں شامل ہو گئے ان میں وفاقی وزیر برائے تعلیم و تربیت شامل تھے جن کی ڈگریاں بھی جعلی پائی گئی تھیں جنہوں نے بڑی ہوشیاری سے اپنی سیاسی پارٹی سے وابستگی بھی پی ایم ایل (ق) سے پی ایم ایل (ن) میں تبدیل کرلی اور بجائے جیل کی ہوا کھانے کے وہ اکثر ٹی وی پرپی ایل ایم (ن)کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ وضع کی جمہوریت پاکستان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جو عمران خان اور علاّمہ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے آئے ہیں وہ بالکل درست ہے۔ میں بھی اخباری مقالوں میں مستقل کافی عرصے سے انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت پر زور دیتا آیا ہوں۔ابھی جس نہج پر حکومت چل رہی ہے اس سے صرف لُوٹ مار اور چور بازاری ہی بڑھ سکتی ہے جو ملک کو تباہی کی طرف لے جائے گی۔ ہمیں کیا کرنا چاہئے 1۔سب سے پہلے تو صدارتی نظامِ جمہوریت متعارف کرانا ہوگا تاکہ صدر عام اظہارِ رائے سے منتخب ہو ۔ انتظامی امور سنبھالنے کے لئے نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت ہے اور یہ خیال رکھنا ہوگا کہ ہر دفعہ صدر پنجاب سے نہیں ہونا چاہئے۔ 2۔ صدر خود اپنے وزراء کی ٹیم مقرر کرے جو کہ محض ’حمایت‘ نہیں بلکہ اپنے شعبے میں قابلیت اورذہانت کے بل بوتے پراس عہدے کے اہل ہوں۔ 3۔ اراکین پارلیمنٹ کا کام محض قانون سازی اور ملکی معاملات کی دیکھ بھال تک محدود ہو۔ وزراء کا انتخاب پارلیمنٹ سے نہ کیا جائے اس طرح امیدواروں میں موجود لالچ کے عنصر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جس کے لئے وہ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد غیر قانونی طریقوں سے اربوں روپے کماتے ہیں۔ 4۔صدارتی امیدوار، وزراء، گورنرز اور دیگر اعلیٰ حکومتی افسران کی تقرری سے پہلے ان کے کاغذات و اسناد کی ججوں اور ان کے شعبوں میں ماہر افراد پر مبنی ’عدالتی معائنہ کمیٹی‘ سے خوب اچھی طرح سے جانچ پڑتال ہونا ضروری قرار دیا جائے تاکہ ان کی ایمانداری، اہلیت اور قابلیت کو اس عہدے کے لئے یقینی بنایا جا سکے۔ 5۔ جیسا کہ پارلیمانی اراکین کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے لہٰذا اراکین پارلیمنٹ کم از کم ماسٹرز ڈگری کے حامل ہوں جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران میں ہے ۔ 6۔انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں اور نیا الیکشن کمیشن قائم کیا جائے جسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کریں جو بے داغ کردار کے مالک ہوں اور جن کی کسی قسم کی سیاسسی وابستگی نہ ہو۔ 7۔الیکشن کمیشن اپنا ریٹرننگ آفیسر خود مقرر کرے جو اس کے ماتحت کام کریں۔ انتخابات برقی رائے دہندگی (electronic voting) سے کئے جائیں۔ انتخابات کے دوران ہر انتخابی کیمپ کے اندر عسکری عملہ تعینات کیا جائے تاکہ وہ رائے دہندگی کے عمل پر نظر رکھے ( پچھلی دفعہ یہ عملہ کیمپوں کے باہر تعینات تھا جس کا کوئی فائدہ نہیں تھا اور وسیع پیمانے پر اندر کیمپوں میں دھاندلی کی گئی تھی)۔ 11مئی 2013 ء میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اپنی تقریر میں بڑی فصاحت سے یہ مشورہ دیا تھا کہ تمام مالی معاملات اور اختیارات صوبائی حکومتوں سے واپس لے کر ضلعی سطح کو دئیے جائیں۔ اس مشورے پر عمل کیا جائے۔ 8۔ قومی تعلیمی ہنگامی صورت حال کا فوراً اعلان ہونا چاہئے اور تعلیم کے لئے GDP کا کم از کم 5% حصّہ مختص کر دینا چاہئے جو اگلے پانچ سالوں میں بڑھا کر8% کر دیا جائے۔ بنیادی اور ثانوی تعلیم لازمی ہونی چاہئے اور جو والدین اپنے بچّوں کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکول نہ بھیجیں تو انہیں کم از کم 12ماہ جیل میں ڈالا جانا چاہئے۔ مساجد میں بھی اسکولوں کے لئے اضافی جگہ مختص کی جائے ۔ فوج سے سبکدوش حضرات کو اسکول اساتذہ کی دستیابی کے لئے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ایک قومی تعلیمی خدمت (National Education Service)لاگو کی جائے جس میں ڈگری کے سارے طلبہ کے لئے دو سال درس و تدریس کے لئے وقف کرنا لازمی قرار دیا جائے۔ ڈگری اسی صورت میں جاری کی جانی چاہئے جب ان کے پاس امتحان پاس کرنے کے علاوہ اس دو سالہ تدریسی خدمت کی سند موجود ہو۔ 9۔ہمارے نظامِ عدل کو شدید ردّوبدل کی ضرورت ہے۔ تمام مقدمات کو تین سے چھ ماہ میں ختم ہوجانا چاہئے اور پرانے مقدمات کے فیصلے بارہ ماہ میں کر دینے چاہئیں۔ دہشت گردی کے مقدمات کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ غیر فوجی جج دہشت گردوں کی دھمکیوں سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ کافی تعداد میں کنٹریکٹ پر جج مقرّر کئے جائیں اور جو جج وقتِ مقررہ پر فیصلے دینے سے قاصر رہیں انہیں فارغ کردیا جائے۔ 10۔میری نگرانی میں علم پر مبنی معیشت میں منتقلی پر ایک جامع مسوّدہ ( 320صفحاتی مسوّدہ 30؍اگست 2007ء میں کابینہ نے منظور کیا تھا) تیّار کیا گیا تھااسے فوری طور پر لاگو کیا جائے تاکہ سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی ہمیں اس قرض کے انبار سے باہر نکلنے میں مدد دے اور ہم بھی دوسرے ممالک کی صف میں باوقار طریقے سے کھڑے ہو سکیں۔ موجودہ اراکین پارلیمنٹ یقیناً ایسا نہیں چاہیں گے۔ ان اصلاحات کو رائج کرنے کے لئے فوج کو اپنا زورِ بازو استعمال کرنا ہو گا بلکہ فوج کا بھی باضابطہ کردار ہونا چاہئے تاکہ آئندہ آمریت (مارشل لا) کے نفاذ سے بچا جا سکے جیسا کہ ترکی میں کیا گیا ہے اور یہی طریقہ ہے کامیابی کا۔


.یہ مصنف ایچ ای سی کے سابق صدر اور او ایس سی ممالک (سائنس) کے سائنس دانوں کے نیٹ ورک آفس کے صدر ہیں